Ads

ایک بند ورق … آج کھول دیا

آج امی ابوکی قبر پرگیا، شب برات پر توجانے پر پابندی تھی اور اس کا احترام بھی لازمی تھا کیونکہ وہ ہم سب کے لیے ضروری امر تھا، البتہ ہر بار یہاں پہنچ کر یادیں تازہ ہوجاتی ہیں، امی ابو کے ساتھ مرحوم خورشید احمد کی قبر ہے، خورشید بھائی نے وفات سے آخری روز قبل اسپتال میں مجھ سے کہا تھا کہ مجھے عبداللہ شاہ غازی کے احاطے میںآپ اپنی جگہ دے دیجیے گا، ان کی بات ٹال نہیں سکتا تھا، لیکن اس جگہ کی تاریخ بہت یادگار ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ2005کے اوائل میں، امی (بیگم محمودہ سلطانہ غوثیہ بیگم) شدید علیل تھیں اور میں اْن دنوں وزیر مملکت برائے مذہبی امور تھا۔

امی کی عیادت کوگیا تو انھوں نے وینٹی لیٹر پر ہوتے ہوئے (کچھ دیرکے لیے جاگی تھیں) مجھ سے کاغذ منگوایا اورکانپتے ہاتھوں سے کچھ لکھا، اخبار میں کام کرنے کے سبب ہر قسم کی لکھائی پڑھ لیا کرتا تھا اور یہ تو پھر ماں کی لکھائی تھی، لکھا تھا ’’عامر مجھے عبداللہ شاہ غازی کے پاس دفن کرنا‘‘ اب یہ حکم نامہ میرے لیے قیامت سے کم نہ تھا کیونکہ ایک جانب امی اپنی روانگی کی اطلاع دے رہی تھیں اور دوسری جانب سیدنا عبداللہ شاہ غازی، تابعی، نفس ذکیہ کے صاحبزادے کے دربارمیں جرات اظہار۔

بہرکیف امی کے حکم پر انتظامیہ سے رابطہ کیا اور انھوں نے مجھے بتایا کہ مزارکے احاطے میں ایک قبرستان ہے، ہم آپ کے لیے دروازہ کھول دیں گے تاکہ آپ کی والدہ وہاں دفن ہوجائیں کیونکہ آپ وزیرہیں ویسے اب وہاں تدفین کے لیے سرکاری اجازت کا ہونا ضروری ہے۔

مجھے وزیر والی بات مناسب نہیں لگی کیونکہ آج کا وزیرمستقبل میں سابق ہوجاتا ہے اور میں اپنی والدہ کا سابق بیٹا بننا نہیں چاہتا تھا، رات اسپتال میں گذاری اورکچھ دیرکے لیے امی کے پاس بیٹھ گیا ، وہاں آنکھ لگ گئی، خواب میں ایک نورانی سر مبارک کو دیکھا، آپ کی ریش مبارک بہت زیادہ تھی نہ کم لیکن سیاہ اورچہرہ سرخ وسپید۔ انھوں نے مسکرا کے کہا ’’تم ہمارے گھرکی عزت کرتے ہو، ہم تمہاری ماں کی قدرکریں گے جس نے تمہاری تربیت کی اور تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا عاشق بنایا اور تمہیں اختیار دیتے ہیں کہ جس کی چاہے تدفین کرو،گناہ گار وخطاکار کا حساب اللہ کرے گا۔

تم اپنے اجتہاد سے جسے دفنانا چاہے دفنادو، مردے منتقل بھی ہوجاتے ہیں لیکن تمہاری امی نہیں! یہاں تک کہہ کر خاموش ہوئے۔ ایک ایک لفظ تسبیح کے دانوں کی طرح رک رک کرادا کیا اور پھرگردن پلٹ گئی گویا جانے والی ہو ، میں قریباً سرد ہوچکا تھا لیکن جمے ہونٹوں سے پوچھ ہی بیٹھا ’’آپ کون ہیں حضور؟ ‘‘ انھوں نے پلٹے پلٹے ہی میٹھی آواز میں کہا عبداللہ ، حسن مثنی کا پوتا اور امام الزکیہ کا بیٹا لیکن پانچ سے زیادہ نہیں۔‘‘

میری آنکھ کھل گئی، ایک لحظہ میں نے امی کو دیکھا اور پھر اپنے آپ کو (یہ واقعہ آج تک میں نے کسی کو نہیں بتایا یہاں تک کہ اپنی پہلی اور دوسری اہلیہ کو بھی نہیں لیکن اب کسی کے سفید جھوٹ پر لکھنے کی نوبت آگئی) جوکہ پسینے میں شرابور جسم تھا اور خوشبو اٹھ رہی تھی مگر ایک ادھیڑ بن یہ بھی تھی کہ ‘‘پانچ سے زیادہ نہیں‘‘ کے کئی مطالب نکل سکتے تھے‘‘ چنانچہ سب سے پہلے تو میں نے اپنے معتمد خاص جاوید خان جدون کو فون ملایا اور ان سے کہا مزارکی انتظامیہ سے ابھی رابطہ کریں ، انھوں نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب صبح کے چار بج رہے ہیں وہاں کون ہوگا؟‘‘ میں نے کہا ’’مجھے نہیں پتہ بس آپ ابھی جائیں کچھ دیر بعد نماز کا وقت ہوگا وہاں کسی سے پوچھیں احاطے کے علاوہ کوئی اور جگہ ہے یا نہیں؟‘‘ انھوں نے کہا جی سر میں جاتا ہوں، میں بھی واپس اپنے فلیٹ واقع کلفٹن پہنچ گیا (جو اب پہلی اہلیہ کے نام کرچکا ہوں) کچھ دیرکے لیے لیٹا لیکن نیند نہیں آرہی تھی، علی الصبح 9 بجے جاوید خان جدون کا فون آیا آپ ذرا مزار پر آجائیں۔

مزار میرے فلیٹ سے دو منٹ کے فاصلے پر تھا(بذریعہ کار)اس زمانے میں یہ تعمیرات نہیں ہوئی تھیں جن کا میں اب بھی سخت مخالف ہوں جس کی وجہ سے مزار چھپا دیا گیا ہے، گیٹ پر جاوید بھائی اور ان کے ساتھ محکمہ اوقاف کے تین افسران تھے، انھوں نے گرم جوشی سے استقبال کیا اور شاہ صاحب کے کراماتی چشمے کے پاس لے گئے وہاں ایک چھوٹا سا خالی مقام تھا جہاں لوگ کوڑا پھینک دیتے تھے، انھوں نے کہا کہ یہ جگہ ہے گو کہ صاف نہیں لیکن آپ اس کے گرد تین دیواری چھت بناسکتے ہیں کیونکہ چوتھی دیوار مزارکی سیڑھیوں سے متصل تھی۔

انھوں نے بتایا کہ یہاں پانچ قبروں کی گنجائش ہے (اور یہاں میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اورآوازگونجنے لگی، پانچ سے زیادہ نہیں) وہ بولے جا رہے تھے اور میں مزار کے گنبد پر نظریں گاڑے بت بنا کھڑا تھا،آخرکار جاوید جدون نے کاندھا ہلا کر دریافت کیا پچاس لاکھ دینے ہوں گے ورنہ آپ صدر مملکت سے لکھوالیں جگہ مفت میں مل جائے گی، میں نے کہا ’’جدون بھائی یہ جن کی جگہ ہے وہ امام حسن کی اولاد میں  سے ہیں اوران کے دادا کا عقد سیدہ فاطمہ کبری سے ہوا تھا جو امام عالی مقام کی صاحبزادی تھیں۔

یہ کربلا والے ہیں، قبریں خریدتے ہیں، مفت میں لیتے نہیں گھر چلیے میں پچاس لاکھ کا چیک دیتا ہوں آپ رسیدیں لیں اور ٹھیکے دارکو لائیں اللہ امی کو حیات دے لیکن یہاں تین دیواری اور قبروں کے نشانات بنوا دیں’’ ایسا ہی ہوا اور شام تک رسیدوں اور ٹھیکے دارکے معاملات دیکھ کر میں اسپتال پہنچا، ڈاکٹر عاصم آئی سی یو میں ملے، ابو ساتھ تھے انھوں نے کہا ’’ امی کی حالت آج سنبھلی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ پانی کم پیئیں لیکن انھوں نے ضد کرکے چائے پی لی اور بار بار کہتی رہیں، عامر نے میرا انتظام کرادیا ہے یہ کوئی اسپتال ہے میں بڑے اسپتال جاؤں گی لہٰذا انھیں سیپسس Sepsis ہوگیا ہے اور انھیں دوبارہ وینٹی لیٹر پر ڈال دیا ہے لیکن ان کے گردوں نے کام کرنا بند کردیا ہے۔ اب ڈائی لائسس کا انتظام کررہے ہیں۔

تم دیکھ لو‘‘ میں نے دیکھا، امی کی حالت صحیح نہیں تھی اور  مجھ سے رکا نہیں گیا اور ہم گھر آگئے، میں جلد ہی لیٹ گیا اورگھر کا فون بھی اپنے پاس رکھ لیا، قریباً تین بجے اسپتال سے فون آیا ’’امی نہیں رہیں ‘‘ میں رویا لیکن کم ، اسپتال پہنچا، راستے میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے متصل جگہ دیکھی آج سے تین دیواری کا کام شروع ہونا تھا ابھی وہ ویسے ہی تھی، دوپہر تک امی کوگھر لے آئے اور عصر کے بعد جب میں نے انھیں قبر میں اتار تو پھر جو میں رویا ہوں تو رات تک آنکھیں درد سے بند تھیں، میں نے اپنے بھائی عمران لیاقت کو نماز جنازہ نہیں پڑھانے دی کیونکہ وہ بے دین اورگستاخ ہوچکے تھے اور قبر میں ماں کو اتارنے پر بھی میں اڑگیا کہ یہ توبہ کریں اور ماں کو قبر میں اتار دیں۔ تدفین کے بعد دوسرے دن سوئم سے پہلے عمران لیاقت امی کا سارا زیور لے کر سیہون رفو چکر ہوگئے۔

لیکن یہ اہم نہیں، اہم رات کا خواب تھا جو پہلے خواب کی طرح پہلی بار لکھ رہا ہوں (نہ جانے موجودہ حالات میں کس کا بلاوا آجائے معلوم نہیں اس لیے ضبط قلم لانا ضروری ہے) دیکھا وہی نورانی ہستی اس بار سنہری طشتری میں ہیں اور غزالی سرمگیں آنکھوں سے کافی دیر تک مجھے دیکھنے کے بعد فرمانے لگے، مبارک ہو اللہ کے پاس پہنچ گئیں، مغفرت کے لیے دعا گو ہوں اور تم پر تمہارے والدین کا قرض یہ ہے کہ دعائے مغفرت کرتے رہنا حاضری ضروری نہیں لیکن زیارت کرنے میں حرج بھی نہیں، اب یہ جگہ ہم نے تم کو دی اپنی اجازت کے بنا کسی کو دفن نہ کرنا سوائے باپ کے،تمہاری ماں کو تمہاری پہچان اور نگہداشت دی گئی لیکن تم ملکیت باپ کی ہو، اولاد فتنہ ہے اور قبر اعمال گاہ، اپنے اجتہاد سے تدفین کی اجازت دینا، ہم نے کہا تھا پانچ سے زیادہ نہیں دیکھ لو پانچ قبریں یہیں بنیں گی۔

تمہاری ماں تمہاری شکرگزار ہیں اور ماں کی شکرگزاری پر اللہ تم سے راضی ہو! آج سے تمہارا مشکل وقت شروع ہوگیا تو سمجھ لو اللہ راضی ہے، الزامات، اتہام اور جھوٹے واقعات تم سے منسوب کیے جائیں گے اگر بدلہ نہ لیا تو ہم سے آملو گے اور اگر انتقام لیا سوائے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی بنیاد پرتوگمنام ہوجاؤگے ، انتقام لینا یا لعنت بھیجنا اللہ کی شان ہے بندوں کی نہیں، صبح اپنی والدہ کی مغفرت کے لیے دو رکعت نماز پڑھنا امید ہے کہ اللہ جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے گا۔‘‘

اس کے بعد مرحوم خورشید احمد۔ اور پھر میری اہلیہ بشری کے والد جنھیں میں نے اپنی اجازت سے وہاں دفن کرایا بلکہ بشری کے والد کی میت پر تو غسل کعبہ کا پانی بھی چھڑکا اور زم زم سے غسل دیا جو میرے پاس تھا، یہ دونوں میرے اجتہاد کی بنیاد پر دفن ہیں اللہ مغفرت کرنے والا ہے، تین پہنچ گئے دو باقی ہیں واللہ اعلم.ایک کا غم ہے کسی وجہ سے ، بس اللہ سکون دے- (آمین)

یہ تھی ایک عجیب داستان لیکن یہ یہیں ختم نہیں ہوجاتی،پانچ جولائی 2018 کو ایک خواب اور دیکھا لیکن یہ میرے مرنے تک راز ہے اورنہ بتانے کا حکم کیونکہ کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جن کی تعبیر بھی ایک خواب ہوتا ہے۔

The post ایک بند ورق … آج کھول دیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Vjyod0
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment