Ads

کچھ سوچئے

ملک بھر میں کورونا وائرس کے سبب جاری لاک ڈاؤن میں مزید دو ہفتوں کی توسیع کا اعلان ہوا، بعض کاروبار اور کئی صنعتیں کھولنے کی بھی اجازت دیدی گئی ہے۔ اس سے قبل وفاقی کابینہ نے لاک ڈاؤن میں30 اپریل تک توسیع کی منظوری دی تھی۔ اسلام آباد میں قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں کورونا سے اموات اندازوں سے کم رہی ہیں، وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے سخت سزاؤں پر مبنی آرڈیننس بھی لائے جارہے ہیں۔

گندم کی کٹائی کے لیے دیہات میں نقل و حرکت کی کوئی ممانعت نہیں ہے، اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی صنعت کو کھولنے کے حوالے سے اپنا فیصلہ خود بھی کر سکتے ہیں، امریکا، اٹلی اور اسپین سمیت باقی دنیا کے مقابلے میں ہمارے ملک میں اموات بہت کم ہوئیں۔ تاہم وزیراعظم نے خبردار کیا کہ یہ وائرس کسی بھی وقت پھیل سکتا ہے، ہمیں احتیاط کو نہیں چھوڑنا چاہیے، اس وقت جس لحاظ سے یہ وائرس پھیل رہا ہے، اگر اسی طرح پھیلا تو ہمارا صحت کا نظام اس کا بوجھ برداشت کر لے گا، اگر وائرس تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے تو ہمارا نظام اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔

کورونا وائرس کی عالمی تباہ کاریوں اور غیرمعمولی ہلاکتوں کے نتیجہ میں ملکی نظام صحت کا جو رہا سہا انفراسٹرکچر باقی بچا ہے اس کی بیچارگی، نقائص اور کمزوریوں کا افسوسناک سناریو وزیراعظم کے بیان کی روشنی میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، موجودہ نظام صحت کی مضبوطی اب مفروضوں پر قائم نہیں رہ سکتی، خود وزیراعظم فرما چکے ہیں کہ ایک ایٹمی ملک فیس ماسک، وینیٹی لیٹر نہیں بناسکتا، کیونکہ ہمیں ہر چیز امپورٹ کرنے کی عادت پڑچکی ہے، لیکن یہ آدھا سچ ہے، باقی صورتحال کو کورونا کی وبا کے آئینہ میں قوم کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، عوام کو حقائق سے آشنا کردیا جائے تو اس قوم پر احسان عظیم ہوگا۔

بلاشبہ لاک ڈاؤن کا اعلان ہوچکا اور سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن سے متعلق صوبائی محکمہ داخلہ کا حکم نامہ جاری کردیا ہے، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ کورونا سے صورتحال بہت خطرناک ہے، وفاق صوبوں کو ساتھ لے کر چلے، قومی یکجہتی میں خان صاحب کی انا رکاوٹ، وزرا کی بیان بازی افسوسناک ہے، بلاول کا موقف بھی کم وبیش یہی ہے کہ مریض بڑھے تو اسپتال، بستر اور آئی سی یو کم پڑ جائیں گے۔

لاک ڈاؤن پر مسلسل غور وفکر کے بعد بھی فیصلے متفقہ نہیں ہوئے، خیالات کے دھارے مختلف سمتوں میں چل رہے ہیں، مکمل اتفاق رائے کا فقدان نظر آرہا ہے، پنجاب، بلوچستان اور کشمیر کے تاجروں نے کاروبار کھولنے کا اعلان کردیا، کراچی کے تاجروں نے دو دن کے لیے اپنے فیصلے کو موخر کرلیا، سندھ حکومت کو 17 اپریل تک مہلت مل گئی، لیکن بنیادی اختلافات اور تضادات میں کچھ فہمیدہ حلقوں نے کورونا اسٹریٹجی میں عدم شفافیت، فیصلے میں ثابت قدمی سے گریز اور عوام کو ریلیف یا ان کی معاشی تکالیف میں کمی کے لیے مقامی حکومتاور بلدیاتی اداروں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے حکمت عملی اور کورونا وائرس سے نمٹنے میں جو بنیادی غلطی ہوئی اس میں بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کرنا ایک بلنڈر تھا جب کہ لاک ڈاؤن میں عوام کو جس سطح کے ریلیف، معاشی پیکیجز اور علاج معالجے کی ضرورت تھی وہ مکمل نیٹ ورک بلدیاتی اداروں کے پاس پہلے سے موجود تھا، صرف ان کے سسٹم کا سوئچ آن کرنے کی دیر تھی، مگر غالباً اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

ملک میں بلدیاتی تاریخ ایک شاندار تناظر رکھتی ہے، حکمراں اس تاریخی فیڈ بیک سے استفادہ کرتے تو آج کورونا سے نمٹنا بہت آسان نہ سہی مگر اس کے نتائج بہت مختلف ہوتے، حکومت کا انداز نظر اپنی سیاسی ترجیحات کی طرف تھا اس وجہ سے بلدیاتی یا سرکاری اداروں کو اہمیت نہیں ملی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومت سے اس ضمن میں ایک تاریخی غلطی ہوئی ہے اور اس کا آغاز اس کے اقدامات سے ہوا جس میں ادارہ جاتی سسٹم کو جو پہلے سے موجود، اور تربیت یافتہ کیڈر اور افرادی قوت کے ساتھ موجود تھا کام نہیں کرنے دیا گیا اور جو میکنزم موجود تھا اسے بھی تباہ کردیا گیا۔

ایسے وزیروں، مشیروں اور منظور نظر سیاسی عناصر کو فرائض سونپے گئے جو اس کے اہل ہی نہ تھے، بلدیاتی حکومتوں کے پاس پاکستان کی آبادی کا پورا ڈیٹا موجود تھے، ایک فعال انتظامی مشینری تھی، میونسپل کونسلیں، یونین کمیٹیاں تھیں، ڈسٹرکٹ میونسپل زونز قائم تھے، میئر، ڈپٹی میئر موجود تھے، صوبائی حکومت پر آدھے سے زیادہ بوجھ ضلعی حکومتیں سنبھالتی تھیں، کراچی سمیت، پنڈی اسلام آباد، سرحد اور بلوچستان میں بلدیاتی نمائندے ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرتے تھے۔

قیام پاکستان سے قبل کے کراچی کی تاریخ ایک الگ داستان کی حامل ہے، اس کے میئر صاحبان کے ناموں کی ایک کہکشاں ملتی ہے، وہ ممتاز سماجی اور سیاسی شخصیات تھیں جنہوں نے کراچی شہر کی سڑکوں کو صاف پانی سے دھونے کی روایت ڈالی، جمشید نسروانجی، ٹیکم داس، درگا داس ایڈوانی، حاتم علوی، قاضی خدا بخش، محمود ہارون، سردار اللہ بخش گبول، لال جی ملہوترا، محمد ہاشم گذدر، سہراب کے ایچ کیٹرک، حکیم محمد احسن، غلام علی الانہ، حبیب پراچہ، الحاج ملک علی باغ، صدیق وہاب اور ایس ایم توفیق نے بلدیاتی اداروں کے ذریعے کراچی کی تعمیر اور ترقی کے حوالہ سے عوام کی بے لوث خدمت کی۔

اس وقت قانون کی حمکرانی بھی قائم تھی، انسان سمیت حیوانات، چرند، پرند اور اونٹ، گدھے، گھوڑے، کتے اور بلیوں کے حقوق و علاج کے مستند ادارے اور اسپتال موجود تھے، سڑکوں کے کنارے پیاس بجھانے کے لیے ’’ پیاؤ‘‘ جیسے حوض بنائے گئے تھے۔ ان عہد ساز اور انسان دوست میئرز کے بعد پاکستان کی جدید اور ہمعصر سیاست میں انقلاب آیا، پی پی، مسلم لیگ، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، جے یو پی، جے یو آئی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوام کے مقامی مسائل کے حل کے لیے خدمات انجام دیں۔

مگر گذشتہ عشروں کے دوران سیاسی انداز بدلے گئے، ترجیحات بدلیں، عوام کے مسائل فراموش کردیے گئے، عام آدمی سیاسی لغت سے ہی غائب ہوگیا، شہروں اور دیہات کے کروڑوں عوام نے سیاسی اداروں کا ایک دردناک زوال دیکھا ہے، جواب دہی کا احساس ندارد، سیاسی پیسے کی فراوانی اور سسٹم اختیار، مافیا، جرائم اور کرپشن کے دلدل میں پھنستا چلا گیا۔

آج قوم کورونا وائرس کے گرداب میں الجھ کر رہ گئی ہے، پی ٹی آئی کی حکومت کو چومکھی لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے، حالانکہ اس کے پاس ایک چانس تھا، وہ نظام حکومت بدل کر رکھ سکتی تھی، کورونا سے نمٹنے کے لیے اسے جس قسم کا بلدیاتی نظام اور سرکاری ادارہ جاتی سسٹم چاہیے تھا اسے کسی اضافی سسٹم، اتھارٹی اور سیاسی میکنزم کی عارضی ضرورت نہ تھی، زرعی شعبے کے لیے بینکنگ سسٹم تھا، کسانوں کو قرضے ملتے تھے، لایؤ اسٹاک کے محکمے کی فعالیت نمایاں تھی، ایک متحرک زرعی و صنعتی شعبہ کی بنیاد میں توسیع دی جاسکتی تھی، فش فارمنگ اور ڈیری فارمنگ کے محکمے تھے، سیسی کا محکمہ مزدوروں کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی نگرانی پر مامور تھا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے موجودہ حکمراں بھرپور استفادہ کرتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو بروئے کار لاسکتے تھے۔

حکومت کو کسی ٹائیگر فورس، درجنوں اتھارٹیز، کمیشن بنانے اور ٹاسک فورسز کا جمعہ بازار لگانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہیے تھی، کیونکہ پورا انفراسٹرکچر بلدیاتی اور سرکاری اداروں کی شکل میں موجود تھا، صرف ان کو فعال کرنے کی ضرورت تھی، یہی بلدیاتی نظام اگر فعال ہوجاتا تو کورونا کے خلاف جنگ میں سیاسی کارکنوں کو خود ان کے اپنے حلقہ انتخاب کے عوام کی اخلاقی، سیاسی، سماجی اور معاشی کمک ملتی، ملک بھر میں محنت کشوں کی امداد کے سیکڑوں ادارے کام کررہے تھے، ان سے کام لیا جاسکتا تھا، اور اب بھی میدان کھلا ہوا ہے۔ بس حکومت کو اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانے کی دیر ہے، لاک ڈاؤن کے اندر ہی عوام کو ریلیف دلاکر حکومت گرتے ہوئے سسٹم کو سنبھال سکتی ہے۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ کچھ ذمے دار سیاسی لیڈر کہہ رہے ہیں کہ کورونا سے نمٹنے میں کوئی کوآرڈینیشن نہیں ہے تو میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں کورونا سے بچاؤ کے لیے کئے گئے بروقت فیصلے اور اقدامات کے باعث کورونا وائرس سے اموات اور متاثرہ مریضوں کی تعداد ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ کم ہے، ہمارے اندازے کے مطابق 14اپریل تک متاثرہ مریضوں کی تعداد 18ہزار سے زائد اور اموات 191 تھیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس تعداد پر قابو پانے میں ابھی تک کامیاب رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ملک بھر میں اس وقت کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 5 ہزار 716 ہے جب کہ اب تک 96 اموات ہو چکی ہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اموات میں 3کا اضافہ ہوا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم ماضی کے بلدیاتی اداروں کو چشم تصور میں لائیں، ان شخصیات کے انداز کار، حکمت عملی، خدمت خلق اور انسان دوستی کی تقلید پر پارٹی کیڈر کو لگا دیں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ آج عمل کرنے کی ضرورت ہے، بلیم گیم میں تو بہت سارا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔

The post کچھ سوچئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VfKP9X
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment