اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں باہمی تعارف و پہچان کے لیے انسانوں کو جس طرح مختلف قبیلوں، قوموں اور خاندانوں میں پیدا کیا۔ اسی طرح بعض انتظامی و تکوینی حکمتوں اور آزمائشوں کے تحت، ان میں مال و دولت اور پیشہ و منصب کے اعتبار سے فرق رکھا، کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو نادار، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم، لیکن ربّانی تعلیمات اور الوہی ہدایت سے بے خبر انسانوں نے اس تفاوت کو عزت و بڑائی کا معیار بنالیا۔
مادی وسائل کی فراوانی اور جاہ منصب کے نشے میں مست لوگوں نے، غریب و مفلس اور محکوم لوگوں کو نہ صرف ذلیل و حقیر جانا بل کہ ان بے چاروں کو ہر طرح کے مظالم اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس عالم میں جہاں اور بہت سی خرابیاں تھی وہاں ایک بہت بڑا فساد یہ تھا کہ دنیا میں ہر طرف غریب مفلس، مسکین اور بے کس لوگ نہ صرف معاشی و معاشرتی عزت سے محروم تھے بل کہ وہ ظلم کی چکّی میں پس رہے تھے اور ان کا پرسان حال نہ تھا۔
آپؐ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ آپؐ نے آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی چابیاں رکھنے کے باوجود فقراء کی دل جوئی کے لیے ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزاری، خندقیں کھودیں، بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھے، دو ماہ تک کاشانۂ مقدس میں آگ نہ جلی، قرض لیا اور ہر وہ کام کیا جس کا عام طور پر غرباء کو سامنا ہوتا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اس لیے اﷲتعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ نیکی کرے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ بیواؤں اور محتاجوں کی خدمت و اعانت کرنے والا، اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے یا اس نیکو کار کے برابر ہے جو عمر بھر دن کے روزے اور ساری رات عبادت کرے۔‘‘ (بخاری)
حضور اکرمؐ نے حضرت عائشہؓ کو نصیحت فرمائی: ’’اے عائشہ! کسی بھی محتاج و ضرورت مند کو مایوس نہ لوٹانا خواہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ دے سکو، مزید یہ کہ غریب اور محتاج لوگوں سے محبّت کیا کرو اور ان سے قُربت حاصل کیا کرو۔ بے شک (اس کے صلے میں) اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت تمہیں اپنے قُرب سے نوازیں گے۔ (ترمذی)
مذکورہ بالا روایت متوجہ کررہی ہیں کہ رب کریم کی رضا کے طالبو! اس کے بندوں سے محبّت کرو۔ اس کی مخلوق کی مدد کرو، اس کے دُکھی اور پریشان حال لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرو۔ یہی مقصود عبادت ہے اور یہی منشاء دین ہے۔
ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبّت ہوتی ہے باری تعالیٰ کو اس سے کئی گناہ زیادہ اپنی مخلوق سے محبّت و شفقت ہوتی ہے۔ وہ ذات اسی سے زیادہ پیار کرے گی جو اس کے بندوں کے دُکھ سُکھ کو اپنا دُکھ سُکھ سمجھتے ہوئے ان کی دل جوئی اور غم خواری کرے گا۔ اس لیے تاج دار کائنات ﷺ نے انسانوں میں اُس شخص کو افضل و بہتر قرار دیا جو خالق کائنات کے بندوں کا زیادہ خیرخواہ اور نفع بخش ہوتا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔
ایک مرتبہ مسجد نبوی میں سرکار دو عالمؐ تشریف لائے آپؐ نے غریب مہاجر صحابہ کو ایک طرف حلقہ باندھے دیکھا، آپؐ بھی انہی کے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ میں بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کر ان کے قریب کھڑا ہوگیا۔ سرکارؐ نے فرمایا: فقراء مہاجرین کو بشارت ہوکہ وہ دولت مندوں سے چالیس برس پہلے جنّت میں داخل ہوں گے، اس بات سے ان فقراء کے چہرے خوشی سے چمک اُٹھے۔ غریبوں کے والی، فقیروں کے غم گسار آقا ﷺ کی عادت کریمہ تھی کہ سرکا ر دو عالمؐ مساکین کی عیادت فرماتے، فقراء کے پاس مجلس کرتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرماتے۔ (ترمذی)
تاج دار مدینہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ وہ شخص (کامل) مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھا لے اور اُس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا پڑا ہو۔‘‘ (بیہقی)
آج کے مشینی دور نے دنیا کو تو ’’گلوبل ویلیج ‘‘ بنادیا ہے لیکن پاس رہنے والوں سے غافل کردیا۔ ہمیں مشہور صوفی بزرگ حضرت بشر حافیؒ کے اس عمل سے بھی راہ نمائی لینا چاہیے جو شدید سردی میں گرم اور موٹے کپڑے دیوار سے لٹکا کر خود عام کپڑوں میں ٹھٹھرتے تھے، پوچھنے پر جواب دیتے کہ میں شہر یا گاؤں کے سارے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو گرم کپڑے مہیا تو نہیں کرسکتا البتہ ان کی تکلیف کو محسوس کرنے کے لیے میں اپنے اوپر بھی ان جیسی کیفیت طاری کررہا ہوں۔
The post کرو مہربانی تم اہل زمیں پر! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xoOp8p
0 comments:
Post a Comment