Ads

ایک ملامتی صُوفی میرے احفاظ بھائی

’’کہنے کو دو قدم کا فاصلہ ہے لیکن عمر کٹ جاتی ہے، فاصلہ نہیں کٹتا۔ ہم چل رہے ہیں مسلسل۔ صبح کو چلتے ہیں، شام کو چلتے ہیں، خوابوں میں سفر کرتے ہیں، ہم ہی کیا، ہمارے ساتھ راستے بھی سفر میں ہیں۔ منزل ملے، تو منزل سفر میں ہوتی ہے۔ یہ کائنات بھی مسافر ہے۔ ہر شے راہی ہے، ہر شے سفر میں ہے۔ نامعلوم سفر، بے خبر مسافر، ناآشنا منزلیں، کوئی وجود ہمیشہ ایک جگہ نہیں رہ سکتا۔ سفر ہی سفر ہے۔ سفر کا آغاز سفر سے ہوا اور سفر کا انجام ایک نئے سفر سے ہوگا۔ مسافرت بے بس ہے، مسافت کے سامنے۔‘‘

ہم سب ہمہ تن گوش تھے تب وہ بولے: ’’پرندے اُڑتے چلے جاتے ہیں، فضائیں ختم نہیں ہوتیں۔ مچھلیاں تیرتی چلی جاتی ہیں، سمندر ختم نہیں ہوتا۔ یہ سفر کب سے ہے، نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم! بسیں، گاڑیاں، خلائی اور فضائی گاڑیاں، جہاز ہوائی اور بحری سب متحرک ہیں۔ لوگ آ رہے ہیں، لوگ جا رہے ہیں۔ آنسوؤں سے الوداع ہے۔ خوشی کے ساتھ خوش آمدید ہے۔ جانے والے بھی مسافر اور بھیجنے والے بھی مسافر۔ سب مسافر ہیں۔ ہمیشہ سفر ہی سفر۔‘‘

جیون گیلری میں ہم سب تصویروں کی طرح لٹک رہے ہیں۔ یہ جو دنیا ہے میرے رب کی بنائی ہوئی، چلتی پھرتی، جیتی جاگتی تصویروں سے مزیّن۔ جسے میرے رب نے بہت پیار سے کہا ہے کہ میں نے تو ہر تصویر بہت خُوب صورت بنائی ہے۔ بہت ہی عمدہ اور حسِین۔

میں روزنامہ جسارت سے فیچر رائٹر وابستہ تو ہوگیا تھا، لیکن دفتر نہیں جایا کرتا تھا اور اپنا فیچر بھیج دیا کرتا تھا۔ پھر ہفت روزہ فرائیڈ اسپیشل میں زندگی کے نام سے میں نے عام آدمی کی حقیقی کہانیاں لکھنا شروع کیں اور پابندی سے دفتر آنے لگا۔ اس بات کو اب تقریباً چھبیس برس سے زیادہ ہوگئے۔ ہمارے دفتر کے برابر والی بلڈنگ میں ماہ نامہ سب رنگ کا دفتر تھا، جہاں میں برادر بزرگ شکیل عادل زادہ سے نیاز حاصل کرنے جایا کرتا تھا۔ میری اور احفاظ بھائی کی پہلی ملاقات وہیں ہوئی تھی۔ مجھے وہ دن بہت اچھی طرح یاد ہے، میں نے انہیں بتایا تھا کہ میں عبداللطیف ابُوشامل ہوں۔

احفاظ بھائی نے مجھے بہ غور دیکھا، میرے شانوں پر بکھرے گیسو، پرانی جینز اور ٹی شرٹ میں وہ مجھے چند لمحے دیکھتے رہے اور پھر سینے سے لگا کر بس اتنا کہا: ’’آپ بہت اچھا لکھتے ہیں، آپ تو نوجوان ہیں، میں تو آپ کو کوئی عمر رسیدہ مذہبی انسان سمجھ بیٹھا تھا۔‘‘ ہم دونوں بہت ہنسے اور پھر وہ ملاقات دوستی میں ڈھل گئی۔ میں بھول جاتا تھا اور وہ مجھے یاد دلاتے تھے۔ تم نے اس آدمی کی کہانی لکھی۔ میں رات کو بہت دیر تک رویا۔

وہ میری بہت سی باتوں سے نالاں تھے۔ اکثر کہتے تم اپنا حلیہ درست کرو۔ میں کسی دن تمہیں حجام کے پاس لے چلوں گا اور تمہارے بال خود کٹوا دوں گا اور میں ہنس دیتا۔ کبھی کہتے یہ تم نے لُنڈے سے کتنی جینز خرید لی ہیں جو ختم ہی نہیں ہوتیں۔ عجیب آدمی ہو تم، وہ خود بھی سگریٹ پیتے تھے لیکن میری سگریٹ نوشی سے بہت نالاں تھے۔

تم باز نہیں آؤ گے اپنی حرکتوں سے۔ بہت خودسر ہو تم، میرے کاموں پر ان کی پیار بھری تنقید جاری رہتی۔ تم آخر ہو کیا، ہر وقت چائے سگریٹ پیتے رہتے ہو۔ میں نے تمہیں کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں ہنس کر کہتا: یہ جو آپ مجھے جوان کہتے ہیں۔ میرے اندر ایک بوڑھا انسان رہتا ہے آپ ہلکان نہ ہوں، میں نے اپنی زندگی گزار لی ہے۔ یہ تو اضافی جی رہا ہوں۔ تو بہت پیار کیا بہت۔ مجھے آج بھی یاد ہے ان کا جملہ۔ ’’تم یہ بات میرے سامنے کبھی مت کرنا، تم مجھے اپنے بھائی کی طرح عزیز ہو۔‘‘ اور ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے ان سے وعدہ کرلیا کہ آیندہ ایسی بات نہیں کروں گا۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہے بہت اچھی طرح جب انہیں کہیں سے معلوم ہوگیا کہ میں تین مرتبہ دل کی سرجری کروا چکا ہوں۔ اس دن تو انھوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں نے ایک نیا رُوپ دیکھا اُن کا، وہ پیار سے بھرا ہوا آدمی غُصّے سے کانپ رہا تھا۔ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا بولو! کیوں نہیں بتایا تھا۔ میں خاموش تھا اور وہ غُصّے میں نہ جانے کیا کیا کہہ رہے تھے، بہت غُصّے میں تھے وہ، پھر ایک عجیب سی بات کہی، مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ اُن کی باتیں میں کبھی نہیں بُھول سکتا، کبھی نہیں۔

زندگی گزرتی چلی جاتی ہے۔ برف کی طرح پگھلتی چلی جاتی ہے۔ سب مایا ہے۔ سب چلتی پھرتی چھایا ہے۔ سب مایا ہے۔ مجھے جرم حق گوئی میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور میں سینٹرل جیل میں قید تھا۔ میری رہائی کے لیے پوری احتجاجی تحریک انہوں نے منظّم کی، نہ جانے ان پر کیا گزری۔ رہا ہو کر آیا تو بہت دیر تک مجھے سینے سے لگائے کھڑے رہے، کیسے رہے تم اتنے دن وہاں! کھانا کیسا ملتا تھا، بہت تکلیف ہوئی ناں تمہیں، میں سو نہیں سکا اتنے دن۔ میں ہنس دیا اور کہا: کچھ بھی نہیں ہوا احفاظ بھائی، سب ٹھیک رہا، بس آپ کی ڈانٹ نہیں سُن سکا۔ بہت پیار کیا انھوں نے مجھے۔ ہاں وہ مجھے واقعی اپنے حقیقی بھائی کی طرح چاہتے تھے۔ باکمال انسان۔

وہ صحافت کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ مُجسّم تاریخ، بہت نام ور لوگوں کے ساتھ رہے وہ۔ نہ جانے کتنے قصے یاد تھے انھیں اور نادر تصاویر، کتب اور مجسمے جمع کرنے کا جنون۔ فلمیں دیکھتے تھے اور بہت ہی خوب صورت انداز میں بیان کرتے تھے۔

وہ کارِ عشق میں مبتلا تھے۔ اپنے لیے بھی کوئی لمحہ پس انداز نہ کرسکے۔ آزاد صحافت سے اُن کی وابستگی دیدنی تھی۔ بے غرض انسان۔ انھوں نے آزاد صحافت سے عشق کیا تھا۔ ہر لمحہ، ہر وقت وہ اس کے گُن گاتے۔ اس کے اُتار چڑھاؤ ان کے سامنے تھے۔ بلا کے وفادار اور زندگی کو اپنے عشق پر قربان کردینے والے۔ انہیں پوری صحافتی تاریخ ازبر تھی۔ خُوش گفتار، ہنس مُکھ اور بَلا کی یاد داشت۔ انھوں نے اپنی زندگی اسی مقصد کے حصول میں کھپا دی۔ ایک کمٹمنٹ کے ساتھ جیے۔ انھوں نے کبھی کسی کو زحمت نہیں دی۔ کبھی نہیں۔ وہ ہنستے کھیلتے چلے گئے۔ نادر و نایاب انسان۔ بے مثال اور بے غرض انسان۔ وہ واقعی درِِ نایاب تھے۔ ہاں وہ جئے اور سر اٹھا کے جئے۔ قابل رشک زندگی تھی اُن کی۔

کبھی کتنا مشکل ہوجاتا ہے لکھنا۔ کیسے لکھیں، کیا لکھیں، الفاظ یوں دُور بھاگتے ہیں جیسے ہم کوئی کوڑھی ہوں۔ الفاظ کا ایک تقدس ہوتا ہے، یوں ہی تو نہیں ہوتا کہ بس قلم اٹھایا اور صفحات کا پیٹ بھر دیا۔ لیکن کبھی اس کا الٹ ہوجاتا ہے لفظ قطار باندھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ لکھ ڈالو لیکن ۔۔۔۔۔۔ لکھاری روٹھ جاتا ہے، اس لیے کہ کیفیت کو کیسے بیان کیا جائے، بیان کیا جاسکتا ہے کیا کیفیات کو، نہیں کوئی لفظ نہیں کفالت کرتا کسی کیفیت کو بیان کرنے کی، وہ تو صرف محسوس ہی کی جاسکتی ہے۔

لکھاری بھی کیا لکھے، کیسے لکھے اور کس کے لیے لکھے، اندر قبرستان بن جائے تو اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تہی دامن ہیں تو ایسے میں سوائے خموشی۔ کچھ چارہ نہیں ہوتا بس بے چراغ، گُلوں سے محروم ہوتا ہے۔ ہم سب اپنی قبر خود اٹھائے گھوم رہے ہیں، جہاں موت نے دبوچا وہیں پیوند خاک ہوگئے۔ قبر تو انسان کو پکارتی رہتی ہے آؤ، آؤ! کب میری کوکھ بھرو گے لیکن اتنی منحوس آواز ہم آخر کیوں سنیں۔ زندگی کے ساتھ تو موت کا پہرہ لگا ہوا ہے، ہم سوجاتے ہیں وہ جاگتی ہے، کوئی بچ کے نہیں نکل سکتا اس سے، کوئی بھی نہیں۔ زردار ہو یا بے زر، توانا ہو یا کم زور، عقل کا پُتلا ہو یا مُجسّم حماقت، زاہد و عابد ہو یا خدا بے زار، مجلسی ہو یا مردم بے زار، بے حس موت کچھ بھی نہیں دیکھتی اپنا کام کر گزرتی ہے۔ ایک لمحہ آگے نہ پیچھے، مہلت عمل پوری ہوئی تو بس دیر نہیں لگاتی لے اُڑتی ہے۔

موت، زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے، جو آیا ہے وہ جائے گا، کوئی بھی تو نہیں رہتا سدا اس مسافر خانے میں۔ لیکن جو لوگ موت کی راہ خود منتخب کرلیں وہ زندہ رہتے ہیں، امر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ جوہر ہستی عدم سے آشنا ہوتا نہیں۔ جو اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے جئیں وہ کب مرتے ہیں، مرتے تو وہ ہیں جو بس اپنے لیے جی رہے ہوں۔

عجب آزاد مرد تھا وہ، جسے احفاظ الرحمن کہتے ہیں۔ وہ جس نے اپنے بے کس و بے بس، مظلوم، معصوم، پسے ہوئے اور ناتواں لوگوں کے باوقار جینے کو اپنا شعار بنایا اور پھر اس پر ڈٹ گئے۔ ہاں وہ ندیم باصفا تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں وہ گزر گئے، اتنا کریہہ جھوٹ بھی کوئی بول سکتا ہے، اک زندہ و جاوید ہیرو کو کون مار سکتا ہے! آج ثابت ہوگیا احفاظ الرحمن امر ہوگئے۔

عجیب ہے یہ دنیا اور عجیب تر ہیں اس کے باسی۔ لیکن اسی انبوہ کثیر میں کچھ سرپھرے نمایاں ہوجاتے ہیں، ایسے نمایاں کہ پھر جدھر دیکھیے وہی نظر آتے ہیں، ایسے سرپھرے کہ کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا۔ کہلاتے وہ گم راہ ہیں، اور اسی لیے قدامت پسندوں کی نظر میں راندۂ درگاہ ہوتے ہیں، لیکن راست باز تو وہی ہوتے ہیں۔

عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے لوگ، زمین کا نمک۔ ایسے جو انسانیت کو اپنا کنبہ کہتے ہیں، ان کا مذہب تکریم انسانیت ہوتا اور وہ ان کے حقوق کے پرچم بردار ہوتے ہیں۔ وہ سمندر ہوتے ہیں، محبتوں کا سمندر، ان کی لغت میں قوم، مذہب، قبیلہ، خطہ نہیں ہوتا۔ عالم گیر حقوق انسانی کے علم بردار۔ یہ جو خود فراموشی ہے، یہ ویسے ہی نہیں مل جاتی، بہت کچھ بل کہ اپنا سب کچھ قربان کردینے کے صلے میں ملتی ہے، ہر کس و ناکس کو نہیں کہ یہی تو جوہرِِ انسانیت ہے کہ جب تک خود کو فراموش نہ کیا جائے، کسی اور کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔ صوفیاء اس منزل کو ’’نفی ذات‘‘ کہتے ہیں اور یہی مطلوب ہوتا ہے۔

لوگوں نے آوازے کسے، طعنے دیے، فتوے جڑے، وہ سخت جاں ہنستا رہا، ہنستا رہا اور بس اپنی طے کردہ منزل کے راستے پر، خارزار راستے پر چلتا رہا، چلتا رہا۔ آبلہ پائی جیسا لفظ تو ان کی کفالت ہی نہیں کرتا، وہ تو مجسم مصلوب تھے، سنگ زنی میں بھی رقصاں، اور سنگ کا کیا صاحب! وہ تو پتھر ہیں سو اچھالا گیا پتھر کہیں سے بھی مضروب کرسکتا ہے، اپنی سُولی آپ اٹھائے ہوئے مصلوب ’’ سرِ بازار می رقصم‘‘ کا گیت گاتے، بس اپنے راستے پر رقص بسمل کرتے ہوئے رواں دواں۔ عجیب سرشار لوگ ہوتے ہیں ایسے سرپھرے لوگ، زمین کا نمک۔۔۔۔۔۔۔! مظلوم کے حق میں نغمہ سرا، اور آپ تو جانتے ہی ہیں ناں جب کوئی مظلوم کے حق میں نغمہ سرا ہو، تو حُسین بنتا ہے اور پھر اُس کے قبیلے کے لوگ نوک سناں پر بھی مظلوم کا ساتھ دیتے ہوتے نغمہ سرا ہوتے ہیں، عجیب قبیلہ ہے یہ، اچھا تو آپ جانتے ہیں یہ سب کچھ! تو پھر یہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ جب بھی اور جہاں بھی اور کوئی بھی کسی بھی مظلوم کا ساتھ دے گا، انہیں گلے لگائے گا، انہیں زمین سے اٹھائے گا اور اپنا حق مانگنے نہیں، چھیننے پر اکسائے گا تو وہ زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار تو ہوگا ہی، یہ دوسری بات کہ ان دیوتاؤں کے نام الگ الگ ہوں گے، ہر دور میں بدلتے ہوئے نام، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے، کوئی مذہبی، کوئی ریاستی اور کوئی ۔۔۔۔۔ !

پھر انجام کیا ہوتا ہے، اس کے سوا کیا :

ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا

میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں

احفاظ الرحمن نے اپنی ایک راہ چنی اور اپنے قبیلے کی لاج ہی نہیں اس میں نئی روایتوں کو بھی جنم دیا۔ جب بھی، جہاں بھی کسی ظالم نے چاہے وہ کسی بھی نقاب میں ہو، مظلوموں کے حقوق کو غصب کیا وہاں وہ اس کے مقابل آئے۔ ڈر، خوف، لالچ تو اس سے خود خوف زدہ تھے کہ وہ تھے ہی ایسے۔

وہ ایک نغمۂ شوریدہ تھے، جس کی لے میں بڑے بڑے سورما لڑکھڑا کر گرتے دیکھے گئے۔ وہ ایک زلزلہ تھے، جس نے ان ایوانوں کو تہہ و بالا کیا جس میں انسانوں کو بہ زور جبر غلام بنانے کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔ وہ ایک ایسا منہ زور طوفان تھے، جس کی زد میں آئے ہوئے ظالم خزاں رسیدہ پتّوں کی طرح اُڑ جایا کرتے تھے۔ وہ ایک شمشیر براں تھے، جس نے ظالموں کے وجود کو گھائل کر رکھا تھا۔ جہاں جبر تھا وہاں اس کے مقابل احفاظ بھائی تھے۔ جہاں ناانصافی تھی وہاں اس کے سامنے سینہ سپر تھے۔ احفاظ بھائی ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے کے جرم میں زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار رہے۔ کیا یہ اُن کے اخلاص، ایثار اور انسان دوستی کا مظہر نہیں ہے ۔۔۔۔۔ ؟

بھگت سنگھ نے کہا تھا: ’’ لوگوں کو موت سے خوف زدہ کرنے سے بہتر ہے کہ ان کو جینے کا حوصلہ سکھایا جائے، اس لیے کہ انسان ہر مُشکل میں جی کر اس عہد تک پہنچا ہے۔‘‘ بلاشبہہ احفاظ بھائی نے ایسا ہی کیا۔

وہ ایک درویش تھے، جی ہاں ایک ملامتی صوفی! میں انہیں درویش خدا مست کہوں تو آپ کی پیشانی شکن آلود ہوجائے گی، تو ہونے دیں۔ مولانا جلال الدین پیرِ رومی نے کہا تھا: ’’ اگر میرا علم مجھے انسان سے مُحبّت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے۔ ‘‘ کیا اس کے بعد بھی آپ کو اُن کی درویشی کی دلیل چاہیے؟ کیا آپ انکار کرسکتے ہیں کہ انہوں نے انسانوں سے پیار کیا، ان کے لیے مار کھائی، جیلوں میں گئے۔ وہ صلہ ستائش کی تمنا سے یک سر محروم تھے، وہ بے نیاز انسان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ انسان کی تکریم، ان کے حقوق کی جنگ جس جنگ جُو نے بے جگری سے لڑی، وہ احفاظ الرحمن کہلائے۔

صاحبو! کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہم میں نہیں رہے، لیکن ذرا سا رُک جائیے! ذرا دم لیجیے! مرتے تو ہم جیسے ہیں، دھرتی کا بوجھ کہ خس کم جہاں پاک۔ احفاظ بھائی جیسے کہاں مرتے ہیں، وہ تو مرتے ہوئے کو جینے پر اکساتے ہیں۔

کبیر داس جی نے کہا تھا: ’’جب میں دنیا میں آیا تو میں رو رہا تھا، اور لوگ ہنس رہے تھے۔ اب میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں جاؤں تو ہنستا ہوا جاؤں اور لوگ میرے لیے روئیں۔‘‘

وہ حقوق انسانی کی مجاہدانہ داستان تھے اور صاحبو! داستانیں تو امر ہوتی ہیں، داستان بھی کبھی ختم ہوئی ہے کیا۔۔۔۔ ! ان کی جلائی ہوئی آگ کبھی سرد نہیں ہوگی، اس کی جلائی ہوئی شمعیں ہمیشہ روشن رہیں گی اور مظلوم اس کی روشنی میں اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ہر ظالم کا تعاقب کرتے رہیں گے۔

ہمارے بہتے ہوئے گرم آنسو آپ کی سچائی اور جدوجہد کی گواہی ہیں احفاظ بھائی! سلام آپ پر! آپ ہم سب کو اداس اور اشک بار چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن مجھے تو اب بھی ایسا لگ رہا ہے، جیسے وہ کہیں اِدھر اُدھر سے نکل آئیں گے اور کہیں گے: ’’تم انسان بن جاؤ۔ بہت خودسر ہو تم۔ میں تمہیں ٹھیک کردوں گا۔‘‘

اپنے آنسو اپنے احفاظ بھائی کے نام کرتے ہوئے اب رخصت ہو رہا ہوں۔

کچھ بھی تو نہیں رہے گا، بس نام رہے گا اﷲ کا۔

بہت اداس تھا منظر چراغ بجھنے کا

لپٹ کے رو دیا، میں بھی ہوا کے جھونکے سے

۔۔۔

 ’احفاظ الرحمن بول رہا ہوں۔۔۔!‘

رضوان طاہر مبین

یہ جولائی 2008ء کی ایک صبح تھی۔۔۔ ایک فون آیا اور آواز سنائی دی ’احفاظ الرحمن بول رہا ہوں۔۔۔!‘

ارے، احفاظ صاحب۔۔۔! ہم نیم جاگے، نیم سوئے اچانک مؤدب ہوگئے۔۔۔ وہ ہمارے لکھے گئے ایک خط کے جواب میں ہم سے مخاطب تھے۔۔۔ اُن دنوں ہم ایک مسئلے کی جانب بہت توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، انہوں نے بہت مشفقانہ انداز میں تفصیل سے ہم سے بات کی اور اپنا جواب ہم تک پہنچایا۔۔۔

پھر اگلے برس ہم ’ایم اے‘ میں آئے تو ایک شام آوارگی کرتے ہوئے آرٹس کونسل میں افتخار عارف کی کلیات ’کتاب دل ودنیا‘ کی تقریب رونمائی میں شریک ہونے پہنچے۔۔۔ ابھی تقریب شروع ہونے میں کچھ وقت تھا، ہمارے استاد نما سینئر ساتھی رانا محمد آصف ہم سے آملے اور ہمیں مہمانوں کے کمرے میں لے گئے جہاں افتخار عارف کے قریب ہی احفاظ صاحب بھی جلوہ افروز تھے، ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ ہمیں پہچانیے، ہم ملے تو پہلی بار ہیں، البتہ غائبانہ طور پر کچھ سلسلہ رہا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے فوراً ہمارا نام لے دیا۔۔۔!

انہی دنوں ہمارے ’ایکسپریس‘ میں ’مراسلوں‘ کی اشاعت کے ساتھ مضامین بھی جگہ پانے لگے تھے۔۔۔ ایک دن بالواسطہ خبر ہوئی کہ وہ ہماری تحریریں سراہتے ہیں۔۔۔ پھر یوں ہوا ہم بے روزگاری کے کچھ دن کاٹنے کے بعد ایک مقامی روزنامے سے جُڑ گئے۔۔۔ یہ 2012ء کی بات ہے، ایک سہ پہر احفاظ صاحب کا فون آیا۔۔۔ پوچھا کہ آج کل کہاں ہوتے ہیں، کیا کر رہے ہیں وغیرہ، صبح آکے مل لیجیے۔ یہ ہمارے ’ایکسپریس‘ بلاوے کا موقع تھا۔۔۔ انہوں نے میگزین انچارج محمد عثمان جامعی کے ساتھ ہمارا ’انٹرویو‘ لیا اور پھر چند دن بعد ہم احفاظ الرحمن صاحب کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔۔۔

یہ جتنا بڑا اعزاز تھا اتنا ہی دشوار بھی تھا۔۔۔ انہوں نے صحافتی مسابقت کے لیے تیار کرنے کو ہمیں مشقت اور تربیت کی بھٹی میں جھونک دیا۔۔۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ انہوں نے ہمارے کیریر کے اوائل میں ہمیں خوب دوڑایا، بلند تحریری معیار تک پہنچانے کے لیے انہوں نے خوب مشقت کرائی۔۔۔ تحریر میں کوئی بھی بات کس طرح شروع کی جاتی ہے۔۔۔؟ علت ومعلول اور فلسفیانہ فکر کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ منطقی استدلال کیوں کر ہوتا ہے۔۔۔؟ مطالعہ کتنا ضروری ہے۔۔۔؟ اخبار کے لیے نئے موضوعات کیا ہونے چاہئیں۔۔۔؟ اور اخبار کے لیے جان دار اور مضبوط متن کس طرح تشکیل دیا جا سکتا ہے۔۔۔؟ وغیرہ

کسی کی مجال نہیں تھی کہ کسی ہلکے موضوع پر کچھ لکھ دے یا کوئی پرانے موضوع پر مکھی پر مکھی مارنے کی کوشش کرے۔۔۔ کسی بھی موضوع پر لکھنے کے لیے وہ بار بار اُس جگہ پر جا کر کام کرنے پر زور دیتے، کہ جاکر دیکھیے اور پھر لکھیے۔ معمول کے کام کے ساتھ ساتھ آئے روز وہ خبرگیری کرتے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اور پھر کوئی نیا موضوع تفویض کر دیتے، ترجمے کے لیے کچھ دے دیتے۔۔۔ کوئی بڑا واقعہ ہوتا تو اس کے لیے خصوصی صفحے کا حکم جاری کرتے اور پھر باقاعدہ موضوعات کی تقسیم ہوتی کہ کس موضوع پر کون لکھے گا۔

احفاظ صاحب کی ڈانٹ کا خوف ہمیں مجبور کرتا کہ ہم سرخیوں سے لے کر ایک ایک لفظ پر کئی بار سوچتے، جملے میں کہیں جھول نہ ہو، الفاظ کی تکرار نہ ہو، بات مبہم نہ ہو وغیرہ۔ انہیں صفحے کا ’پروف‘ دکھانا اپنے اندر ایک بہت بڑا امتحان رکھتا تھا۔۔۔ ہم خوب اچھی طرح پڑھ کر ہی ان کی میز پر ’پروف‘ رکھتے، اس کے باوجود بھی کوئی نہ کوئی گنجائش باقی رہ جاتی، جو وہ اپنے قلم سے دور کردیا کرتے، ساتھ سرزنش بھی ہوتی، کبھی کم اور کبھی زیادہ۔

دراصل ہم اپنے ’شعبۂ میگزین‘ میں سب سے جونیئر تھے، اب جیسے بعض گھروں میں چھوٹے ایک کونے میں دبکے چُپکے ہو کر بیٹھے رہتے ہیں، اکثر ہم بھی اپنے دفتر میں ایسے ہی رہتے۔۔۔ پھر دھیرے دھیرے وہ وقت بھی آیا کہ جب انہوں نے ہمارے کام کی تعریف کرنا شروع کردی۔۔۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ایک بلند معیار ’باس‘ جس کی توقعات پر آپ کوشش کے باوجود پورا نہ اتر پا رہے ہوں اور اب وہ آپ کے کام پر ’تھمبز اَپ‘ کرتا ہے یا کبھی کمر تھپتھپا دیتا ہے، تو واقعی کتنی زیادہ مسرت کا احساس ہوتا ہے کہ واقعی آج ہم نے کوئی کارنامہ انجام دے دیا ہے۔

پھر کبھی وہ ہم سے بھی بے تکلف ہو جاتے تو ’آنکھ مار کے کہتے، میاں چھوڑو یہ کام وام تو ہوتا رہے گا، ذرا یہ دیکھو، فلاں نے کیا لکھا ہے۔۔۔!‘ اور پھر بات سے بات کا ایک سلسلہ چلتا چلا جاتا۔۔۔ پرانے قصے، نئی باتیں، تجربات ومشاہدات، تاریخی انکشافات، آج کے المیے اور مستقبل کے اندیشے، سب ہی کچھ موضوع بن جاتا۔۔۔ آپ چاہے ان کی رائے سے اتفاق نہ بھی کریں، لیکن کسی بھی معاملے پر ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہوتا تھا کہ دیکھیں احفاظ صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔

کہاں وہ وقت تھا، ان کے سامنے کلام کرتے ہوئے ہماری زبان دس بار جملے سیدھے کرتی تھی، اور اب کہاں وہ ہمیں اپنے ساتھ بٹھاتے اور ہنستے بولتے۔ کبھی ہم اُن سے کوئی اجازت لینے جاتے، تو وہ الٹا پوچھ لیتے کہ آپ کا اس معاملے میں کیا خیال ہے؟ جیسے مارچ 2017ء میں ہمارے سنیئر ساتھی اقبال خورشید جب ’دنیا‘ اخبار گئے، تو انٹرویو کا ذمہ ہمارے سپرد ہوا۔۔۔ احفاظ صاحب اخباری مواد کے معاملے میں اتنے سخت تھے کہ انٹرویو کے لیے بھی نئی سے نئی شخصیات ڈھنڈواتے۔۔۔ نئی سے مراد ایسی شخصیت جس کا انٹرویو کہیں نہیں ہوا ہو، اب جب انٹرویو کرنے کی زمام ہمارے ہاتھ میں آئی، تو ہم نے مجوزہ شخصیات کی فہرست ان کے سامنے منظوری کے لیے پیش کردی۔

انہوں نے ایک اصول وضع کیا ہوا تھا کہ اپنے ادارے (ایکسپریس) سے وابستہ شخصیات کا انٹرویو نہیں ہوگا۔۔۔ شاید انہیں لگتا ہوگا کہ قارئین پر یہ تاثر جائے گا کہ ہم اپنے ادارے کی ’واہ واہ‘ کرا رہے ہیں۔ ہم نے یہ معاملہ چھیڑا اور کہا کہ اگر کوئی شخصیت ’قابلِ انٹرویو‘ ہے، تو پھر محض اپنے ادارے سے وابستہ ہونے کی بنا پر اسے چھوڑ دینا کچھ مناسب بات نہیں لگتی، انہیں یہ بات سمجھ میں آئی اور انہوں نے ہمیں اجازت دے دی، پھر ہم نے ممتاز ادیبہ اور کالم نگار زاہدہ حنا کا انٹرویو کیا، جو اخبار کی زینت بنا۔

اسی طرح جب انہوں نے اپنی صحافتی جدوجہد پر مبنی کتاب ’سب سے بڑی جنگ‘ شایع کی، تو ہمیں اپنے پاس بلاکر پوچھا کہ بتائیں اور کس کس اہم شخصیت کو یہ کتاب جانا رہ گئی ہے، ہم بتاتے گئے اور وہ لکھ کر دستخط کرتے گئے۔۔۔ ایک دو نام ایسے بھی آئے، جن کے نظریات یا کردار وغیرہ کی وجہ سے وہ انہیں پسند نہیں کرتے تھے، لیکن انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد ان کے نام بھی اپنی کتاب عطا کر دی۔۔۔ پھر جب ہم ان شخصیت کے پاس یہ کتاب لے کر گئے، تو وہ بھی حیران تھے کہ احفاظ صاحب نے کتاب بھیجی ہے!

احفاظ الرحمن سراپا تحریک تھے۔۔۔ جب کبھی وہ کسی طاقت وَر سے ٹکرانے کے لیے اٹھ جاتے، تو ایسا محسوس ہوتا کہ اب انہیں اللہ ہی روکے تو روکے، ورنہ کسی بندے کے بس کی بات نہیں کہ انہیں ٹھیرا سکے! اُن کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ جوانی میں انہوں نے جن خوابوں کی خاطر خون تھوکا، آج کے زمانے میں اس کا پھل نہیں مل سکا، بلکہ سویرا یا روشنی تو کیا ہوتی الٹا اس تحریک اور جدوجہد میں بری طرح رخنہ پڑ گیا۔۔۔ وہ بہت سے صحافیوں کے منفی کردار اور صحافتی آزادی، حکومتی جبر، مختلف سماجی مسائل پر سخت برہم رہتے۔۔۔ اور ایسے معاملات پر اظہار خیال کرتے ہوئے اکثر ان کا پارا چڑھ جاتا۔۔۔ انہیں اپنے ضمیر بیچ دینے والے اور اصولوں کا سودا کر دینے والوں نے بہت اذیت دی۔۔۔

2015ء کے اوائل میں گلے کے سرطان کے باعث وہ لکھ کر بات کرنے لگے اور پھر ایک آلے کی مدد سے گفتگو کرنے کے قابل ہوئے۔۔۔ 2018ء کے آخر تک وہ ’ایکسپریس‘ کے ’میگزین مدیر‘ کے منصب پر فائز رہے، پھر علالت کے باعث صحافتی ذمہ داریوں کو خیرباد کہہ دیا۔۔۔ اب ہماری یہ خواہش تھی کہ ’ایکسپریس‘ کے لیے ان سے ایک انٹرویو کرلیا جائے۔۔۔ اخبارات اور مختلف صحافتی امور سے لے کر ان کی زندگی سے متعلق کتنے سوالات ہمارے ذہن میں تھے۔۔۔ لیکن مصروفیات اور زندگی کے مسائل میں یوں ہی دن گزرتے چلے گئے اور پھر ’کورونا‘ کی وبا نے سارے معمولات کو ہی تلپٹ کر دیا۔۔۔ اور 11 اور 12 اپریل 2020ء کو ہماری یہ خواہش ایک دائمی حسرت میں تبدیل ہوگئی اور انہوں نے اس دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔۔

The post ایک ملامتی صُوفی میرے احفاظ بھائی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XOut9Q
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment