ہماری دنیا کی ایک عجیب روایت ہے کہ قدرتی آفات کو گناہوں کی سزا کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان تین ماہ سے کورونا وبا کی زد میں ہے اور یہ وبا صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر آئی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر مصیبت کو ہمارے گناہوں کی سزا کہنا کیا عقلمندی کی دلیل ہے؟ اس حوالے سے سب سے زیادہ دلچسپ مفروضہ یہ ہے کہ گناہوں کی ذمے داری غریب عوام پر ڈال دی جاتی ہے کہ عوام کے گناہوں کی یہ سزا ہے۔ اس حوالے سے افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جس ملک کی نوے فیصد آبادی غربت کی اذیت میں مبتلا ہے جو لوگ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے سارا دن محنت کرتے ہیں انھیں فرصت گناہ کہاں ملتی ہے۔
گناہ اور اعلیٰ درجے کے گناہ کے لیے بھاری رقم کی ضرورت پڑتی ہے اور دال روٹی پر گزارا کرنے والوں کے پاس بھاری رقم کہاں ہوتی ہے، ہمارے ملک کے غریبوں کی محنت کی کمائی کی دولت ان ڈاکوؤں کے قبضے میں ہوتی ہے جو سرمایہ دار ہوتے ہیں، جاگیردار ہوتے ہیں، صنعتکار ہوتے ہیں، ان طبقات کے قبضے میں ملک کی اسی(80) فیصد دولت ہوتی ہے۔ غریب عوام کی اس دولت کو یہ طبقات عیاشیوں پر اڑاتے ہیں ملک کے اندر اور ملک کے باہر اعلیٰ درجے کی عیاشی کے لیے بے پناہ دولت درکار ہوتی ہے اور غریب کے پاس روٹی کے لیے ہی پیسہ نہیں ہوتا وہ عیاشی کے لیے پیسہ کہاں سے لاسکتا ہے؟
پاکستان کی حکومت کورونا کی وجہ سے جو لوگ بے روزگار ہوئے ہیں ان کی بھرپور مدد کر رہی ہے دو مہینوں کے اندر دو مرتبہ بارہ بارہ ہزار روپے فی خاندان دیے گئے ہیں، اب تیسری بار بارہ ہزار فی خاندان امداد دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک کے لیے کورونا کی وبا ایک بڑی آزمائش سے کم نہیں۔ حکومت جہاں جہاں ممکن ہو عوام کی مدد کی کوشش کر رہی ہے اس حوالے سے حکومت نے مئی سے تین ماہ کے بجلی کے بل خود یعنی حکومت کی طرف سے دینے کا اعلان کیا ہے جو ایک قابل ذکر امداد ہے۔ ایک اور امداد اس طرح کی گئی ہے کہ نجی اسکولوں کی فیسوں میں 20 فیصد کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پانی، گیس اور کرایوں میں رعایت کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
مالکان عام طور پر کسی ہنگامی صورت حال میں یا ذرا سے معاشی دباؤ کی وجہ اپنے ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ مالکان کے اس ممکنہ اقدام سے ملازمین کے تحفظ کے لیے ملازمین کو ملازمتوں سے نہ نکالنے کا آرڈیننس بھی جاری کردیا ہے۔ بلاشبہ یہ امداد اور تحفظات موجودہ حکومت ہی میں دیکھے گئے ہیں۔ مشکل بات یہ ہے کہ عوام کی مدد کے لیے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ہماری اپوزیشن ڈھونڈ ڈھونڈ کر حکومتی کاموں میں کیڑے نکال رہی ہے اس قسم کی اوچھی حرکتیں کوئی ذی شعور اپوزیشن نہیں کرسکتی۔
جب یہ بات طے ہے کہ کورونا کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا اور جو کچھ کرسکتے ہیں وہ عوام ہی کرسکتے ہیں یعنی احتیاط، تو پھر حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو تفصیل سے احتیاط کا مطلب سمجھائے اور احتیاط پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ عام آدمی احتیاط کا جو مطلب لے رہا ہے وہ ہاتھ ملانے سے گریز اور کسی بھی حوالے سے گلے ملنے پر پابندی لیا جا رہا ہے ،لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان دونوں پابندیوں پر جزوی عملدرآمد ہو رہا ہے جب کہ عوام کی اکثریت ان دونوں اہم نکات پر توجہ دینے اور عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیں ہو رہی ہے۔ اگرچہ عوام کی اس لاپرواہی اور غیر ذمے داری کی ذمے داری عوام پر عائد ہوتی ہے لیکن ہمارے عوام شیراں دے پتر شیر کے مصداق اس حوالے یعنی احتیاط کے حوالے سے ذرہ برابر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
اس غیر ذمے داری کا مظاہرہ عوام اس لیے کر رہے ہیں کہ انھیں ابھی تک کورونا کی تباہ کاریوں کا ہی اندازہ نہیں۔ اس حوالے سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کورونا وائرس سے بیمار ہونے کے دوران اس کی تکلیف دہ کیفیات اور اس وبا سے متاثر ہوکر انتقال کر جانے والوں کے لواحقین کی اذیتناکی اور معاشی مسائل سے عوام کو بھرپور طریقے سے واقف کرائے اس حوالے سے الیکٹرانک میڈیا سے کام لے ۔
بعض افراد اور حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جائے گی لیکن اس کی وجہ اس المیے کی تفصیل سے عوام کی ناواقفیت ہی ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ دل دوز حقائق سے عوام میں ایک طرح کی مایوسی پیدا ہوسکتی ہے لیکن بھاری تعداد میں عوامی جانی نقصان سے متعلقین کو جس ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،اس کا تقاضا ہے کہ حکومت میڈیا کے ذریعے کورونا سے ہونے والے جانی نقصانات اور متعلقین کو پیش آنے والی مشکلات سے آگہی کے بعد بلاشبہ عوام احتیاط کے حوالے سے کی جانے والی غیر ذمے داری اور نقصانات سے واقف ہوں گے تو لازماً احتیاط پر عمل کریں گے۔
حکومت اس حوالے سے اپوزیشن کے رویے کا نوٹس نہ لے کیونکہ کورونا نے حکومت اور اپوزیشن کی کارکردگی سے عوام کو باخبر کردیا ہے۔ اپوزیشن کے پاس اس وقت سوائے حکومت پر بے جا تنقید کے علاوہ کچھ نہیں کررہی ،جس کا احساس اب عوام کو اچھی طرح ہو رہا ہے۔ عوام کو اب ان تصورات سے باہر نکلنا چاہیے کہ کورونا عوام کے گناہوں کی سزا ہے۔ کورونا دوسری وبائی بیماریوں کی طرح ایک وبائی بیماری ہے چونکہ اب تک اس وبا کا علاج دریافت نہیں ہو سکا اور نقصانات لاکھوں جانوں کی شکل میں آ رہے ہیں اس لیے حکومت کو اس حوالے سے ہونے والے شدید اور خوفناک نقصانات سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اس خوفناک وبا کے خلاف سہل پسندی سے کام نہ لیں۔
The post عوام کا بچکانہ رویہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VR7U2L
0 comments:
Post a Comment