Ads

کورونا، حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر کیوں نہیں؟

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومتی اقدامات سے روزگارکو تحفظ ملے گا، اسٹیٹ بینک نے کاروباری طبقے کے لیے مراعات کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد لاک ڈاؤن اور متاثرین کی ضروریات پوری کرنے کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے۔

بلاشبہ وزیراعظم کورونا وائرس کے تناظر میں پیش آنے والی ملکی اقتصادی ومعاشی صورتحال کے حوالے سے بہت زیادہ فکرمند ہیں اور وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب طبقے کو پیش آنے والی مشکلات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں اور اس ضمن میں عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ تعمیرات اور زراعت کے شعبے کھولنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

حکومتی سطح پر احساس پروگرام کے تحت اب تک گیارہ لاکھ مستحق خاندانوں میں تیرہ ارب تقسیم کیے جاچکے ہیں، یہ ایک مستحسن اقدام ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔ حکومت کو اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ای او بی آئی پنشنرزکی ایک بڑی تعداد خط غربت سے نیچے زندگی بسرکررہی ہے۔ اس امدادی پروگرام کے تحت ان پنشنرزکو بھی مالی مدد فراہم کی جائے تو ان کے مسائل میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ سات ہزار سے تجاوزکرچکی ہے۔ ہر طرف خوف کے سائے پھیل چکے ہیں اور اموات کا تسلسل جاری ہے۔ دوسری جانب کورونا وائرس کے باعث پاکستان میں اموات کا سلسلہ تھما نہیں ہے جب کہ متاثرہ مریضوں کی تعداد بھی پانچ ہزارسے تجاوزکرچکی ہے۔کورونا کے زیادہ کیسز سامنے آنے کے بعد لاہور اورکراچی کے متعدد علاقے سیل کر دیے گئے ہیں، اگر حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صورتحال روز بروز بگڑتی جارہی ہے۔

پاکستانی عوام اس سنگین مرحلے پر بھی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ شہری اور دیہی علاقوں میں لوگ سماجی رابطوں سے دوری والی ہدایت پر بالکل عمل نہیںکر رہے ہیں، جس کے انتہائی خوفناک نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔کیونکہ یہ وائرس ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ عوام کی اکثریت لاک ڈاؤن کو تفریح کا ذریعہ سمجھ رہی ہے۔

گلی، محلوں سے لے کر دیگرعوامی مقامات پرجم غفیر نظرآتا ہے،کوئی مرغے لڑا رہا ہے،کوئی پتنگ اڑا رہا ہے توکہیں موٹر بائیکس پر نوجوان ون ویلنگ کر رہے ہیں، سماجی تقریبات کا سلسلہ بھی گھروں پرجاری ہے۔ صورتحال اسی لیے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے کہ ہم وائرس کے پھیلاؤکی سنگینی کو مذاق سمجھ رہے ہیں جس کی وجہ سے وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور انسانی جانوں کو نگل رہا ہے۔

پاکستان کی معیشت ایک نازک دوراہے پرآن کھڑی ہوئی ہے،گو وفاقی حکومت نے بارہ سو ارب روپے کا پیکیج دیا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا  یہ پیکیج کافی ہے ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے، جواب اس کا تسلی بخش نہیں ہے، بے روزگاری کا خطرہ بڑھ رہا ہے، جس سے مسائل مزید بڑھیں گے۔نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرکی جانب سے جاری اعداد وشمارکے مطابق اب تک پنجاب میں 2414، سندھ 1318، بلوچستان 220، خیبر پختونخوا697، آزاد کشمیر 34، اسلام آباد 113اور گلگت بلتستان میں 215 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ اب تک ملک بھر میں57 ہزار 836 افرادکے ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ 50 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔

لاہور میں کورونا وائرس بے لگام ہونے کے بعد 13علاقوں کو مکمل اورکئی کو جزوی سیل کردیا گیا۔لاہور میں سب سے زیادہ کوروناکے 396کنفرم مریض ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق مخصوص علاقوں سے ہے، کچھ مخصوص گلیوں میںکرفیوجیسا سماں ہے،کسی کوگھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ دوسری جانب پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدارکی زیر صدارت اجلاس میں شرکاء نے لاک ڈاؤن میں مزید توسیع کا عندیہ دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے غیرملکی چینل سے انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤبڑھا توہمارا نظام صحت بیٹھ جائے گا۔ امیر ممالک کو غریب اورکم وسائل والے ملکوں کی مدد کرنا ہوگی۔ وسائل والے ممالک اورعالمی طاقتوں کو ٹیسٹنگ کٹس اور صحت کی سہولیات کی دنیا بھر میں منصفانہ تقسیم کرنا ہوگی۔ بلاول بھٹوکی باتیں درست اور بروقت ہیں بلاشبہ عالمی برادری کو پاکستان کی مدد میں تیزی لانی چاہیے یہی صورتحال کا تقاضا ہے۔

کورونا وائرس کے باعث کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں پھنسے سیکڑوں پاکستانی طلبا نے بتایا ہے کہ ہمارے پاس کھانے پینے کی اشیاء اور پیسے ختم ہوگئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات، قطر ، تھائی لینڈ اور ترکی سے سیکڑوں پاکستانی واپس آگئے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان ایئرلائن کی خصوصی پروازوں کے ذریعے شہریوں کو مرحلہ وار وطن واپس لارہے ہیں۔مختلف ممالک سے اب تک وطن واپس آنیوالے پاکستانیوں کی کل تعداد 1098 ہے۔گزشتہ روز سندھ حکومت نے کورونا سے متاثرہ کراچی کے ضلع شرقی کی11 یونین کونسلوں کو سیل کرنے کا حکم دیا تاہم یہ فیصلہ چندگھنٹوں میں ہی واپس لے لیا گیا۔

وزیر اطلاعات سندھ نے بتایا کہ جو علاقے یا گلیاں متاثر ہیں صرف انھیں ہی سیل کیا جائے گا۔ حکومت سندھ کے اقدامات درست سہی لیکن بعض اوقات انتظامی امور میں جلد بازی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے جیسے گزشتہ روز یوسیزکو مکمل سیل کرنے کے فیصلے سے شہریوں کو انتہائی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔کراچی شہرکی یونین کونسلزلاکھوں افرادکی آبادی پر مشتمل ہیں، انھیں مکمل سیل کرنے سے تو صورتحال مزید پیچیدہ ہوسکتی تھی،حد تو یہ تھی کہ جو سرکاری حکم نامہ جاری ہوا اس میں یونین کونسل کی حدود کئی برس پرانی ظاہرکی گئیں جس سے مزید کنفیوژن پھیلا۔

لاک ڈاؤن میں پولیس کی بھاری نفری کے باوجود کراچی شہر میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ، جب کہ پولیس کی تمام تر توجہ لاک ڈاؤن کے دوران دیے جانے والی رعایت میں سڑکوں پر لگنے والے ٹھیلوں اور چھپ کر پان اور گٹکا فروخت کرنے والوں سے مبینہ طور پر وصولی پر مرکوز رہتی ہے جس کا فائدہ اسٹریٹ کرمنلز اٹھا رہے ہیں۔ حکومت سندھ پر فرض ہے کہ وہ پولیس کو ہدایت جاری کرے کہ وہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ شہید بینظیر بھٹو ٹراما سینٹر میں چھ ڈاکٹر اور چار ملازمین کورونا وائرس سے متاثر ہوگئے۔

خبرکے مطابق انتظامیہ کی جانب سے حفاظتی سامان فراہم نہ کیے جانے کے باعث ڈاکٹر اور طبی عملے کے ارکان کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔کراچی سمیت سندھ بھر میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ20سال سے29سال کی عمر کے افراد متاثر ہوئے ہیں، متاثرین میں خواتین 30 فیصد جب کہ مرد 70 فیصد ہیں، سندھ بھر میں سب سے زیادہ کورونا وائرس نے کراچی ڈویژن کو متاثر کیا، کراچی کے علاقے گلشن اقبال اور صدر میں سب سے زیادہ کورونا وائرس کے کیس رپورٹ ہوئے، گلشن اقبال سے 132 اور صدر سے 130 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت نے کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال میں صحافیوں کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کر دیا ہے، یہ اعلان مشیر برائے اطلاعات اجمل وزیر نے گزشتہ روز میڈیا سیل محکمہ اطلاعات میں صحافیوں سے ملاقات کے موقعے پرکیا، پیکیج کے مطابق اگرکوئی صحافی یا کارکن کورونا وائرس سے متاثر ہوتا ہے تو اس کا علاج سرکاری خرچے پرکروایا جائے گا جب کہ اس دوران اس کے اہل خانہ کو راشن اور دیگر اخراجات کے لیے ایک لاکھ روپیہ نقد ادا کیا جائے گا۔

یہ ایک انتہائی صائب فیصلہ ہے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی طرح سندھ اور بلوچستان حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ صحافیوں کے لیے پیکیج کا اعلان کریں،کیونکہ انتہائی مشکل حالات سے دوچار صحافی اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے درست معلومات عوام تک پہنچا رہے ہیں۔اس وقت ملکی صورتحال انتہائی مشکلات سے دوچار ہے، لیکن سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نظر نہیں آرہی ہیں۔ حکومتی ترجمان توسب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتیں حکومتی کارکردگی پر کھل کر تنقید کررہی ہیں۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت اس مشکل ترین وقت میں فہم وفراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی سیاسی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے ، وزیر اعظم کو خود تمام سیاسی رہنماؤں سے رابطہ کرنا چاہیے۔حکومت کے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطے کے فقدان کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔

احساس پروگرام کے تحت  رقوم کی تقسیم کے انتظامات میں بہت سی خامیاں نمایاں ہوئی ہیں، دھکم پیل سے لوگوں کے کچلے جانے کے متعدد افسوس ناک واقعات سامنے آچکے ہیں۔امدادی رقم کی تقسیم کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔ تقسیم میں حفاظتی تدابیرکو یکسر نظراندازکیاجا رہا ہے،حکومت کو سنجیدگی سے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے امدادی رقوم کی تقسیم میں ہونے والی کوتاہیوںکو فوری طور پر دورکرنا چاہیے۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے جیل کے عملہ اور قیدیوں میں سینی ٹائزر ، صابن ، حفاظتی کٹس سمیت دیگر حفاظتی سامان تقسیم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی بند ہیں، جیلوں میں وبا پھیل گئی تو قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں سے مل کر نیشنل ایکشن پلان بنایاجائے۔ سراج الحق کی بات میں وزن ہے حکومت کو ان کی صائب تجاویز پر عمل کرنا چاہیے۔

یہ بات واضح ہے کہ ملک میں کورونا وائرس پھیلنے کی شرح بہت زیادہ اور خطرناک حدود کو پار کررہی ہے، حکومت اقدامات توکررہی ہے لیکن عوامی تعاون کے بغیر یہ اقدامات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ عوام پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے عمل کوکامیاب بنائیں ، حکومت اور ماہرین صحت کی بتائی ہوئی ہدایت پر سختی سے عمل کریں تاکہ اس وائرس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا جاسکے۔

The post کورونا، حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر کیوں نہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Vhza96
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment