Ads

لاک ڈاؤن پر پالیسی واضح ہو!

دنیا کورونا وائرس کے حوالہ سے ایک عجیب وبائی، اعصابی، معاشی اور انتظامی بحران میں مبتلا ہے، ایک طرف دنیا بھر میں مہلک کورونا سے وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 16  لاکھ جب کہ اموات ایک لاکھ سے بڑھ گئیں، اٹلی اب بھی اموات کی تعداد میں سر فہرست ہے، امریکا کے بارونق اور متحرک شہر نیویارک میں اجتماعی قبروں کے بارے میں میئر نیویارک نے کہا ہے کہ عارضی تدفین کی جارہی ہے، بعد میں لواحقین سے رابطہ کیا جائے گا ، چین میں اب تک اس وبا سے 3336 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

سلامتی کونسل کی پہلی ویڈیو کانفرنس ہوئی ہے جب کہ چین نے کورونا وائرس سے متعلق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے وائرس سے متعلق معلومات کی شفافیت کے بارے میں تبصرے کی تردید کی اور وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤلی جیان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ چین وہ پہلا ملک ہے جس نے عالمی ادارہ صحت کو نوول کورونا وائرس کی سب سے پہلے اطلاع دی اور کورونا سے متعلق معلومات کا شفاف تبادلہ کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کورونا کے سیاق وسباق میں پہلا از خود نوٹس لے لیا۔ کورونا وائرس سے متعلق حکومتی اقدامات پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ آیندہ پیر کو سماعت کرے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے کورونا سے نمٹنے کی محدود صلاحیت کا گلہ کرتے ہوئے کہا کہ ایٹم بم بنانے والا ملک وینٹی لیٹر اور اور کٹس نہیں بنا سکا، انھوں نے کہا کہ یکدم لاک ڈاؤن سے غربت بڑھی، غریب متاثر ہورہے ہیں، وزیراعظم نے کورونا ریلیف فنڈ کے حوالے سے براہ راست ٹیلی تھون میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ کورونا وائرس پوری دنیا کے لیے آزمائش ہے، حالات مزید بگڑیں گے، قوم احتیاط کرکے یہ جنگ جیتے گی، ہمارے پاس وسائل نہیں، جو دستیاب ہیں انھیں بروئے کار لارہے ہیں، انھوں نے کہا کہ میں اچانک لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں، ہمارے حالات دوسروں سے مختلف ہیں، بہر حال ہم اس مشکل وقت سے سرخرو ہوکر نکلیں گے۔

آئی ایم ایف کا انتباہ ہے کہ دنیا میں اقتصادی بحران آسکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ کورونا سے نمٹنے میں مشکلات کا دائرہ وسیع تر ہے، بڑے اور ترقی یافتہ ممالک تک پریشان ہیں، صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی صدارت کا سب سے اہم سوال معیشت کی بحالی ہے۔ معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ احتیاط نہ کی تو کیسز بڑھ سکتے ہیں، معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ مشکل حالات میں حکومت قوم کو تنہا نہیں چھوڑے گی، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے کورونا سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

تاہم بنیادی حقائق سخت دہشت ناک ہیں، دنیا ایک کولیٹرل بحران میں مبتلا ہے، پاکستان کوئی الگ جزیرہ نہیں، حکمران ابھی تک ٹیسٹنگ اور کیسز کی درست تشخیص کے مسئلہ میں الجھا ہوئے ہیں، وفاق لاک ڈاؤن میں نرم گوشہ رکھتا ہے، سندھ حکومت سخت ترین لاک ڈاؤن پر یقین رکھتی ہے، بیانات اور پالیسی میں یہ تضاد مزید ابہام کا باعث بنا تو معاشی صورت حال کنٹرول سے باہر بھی ہوسکتی ہے، اقتصادی ماہرین نے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے مابین تناؤ کا خدشہ ظاہر کیا ہے، معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ کورونا کے عمومی اثرات تو پوری معیشت کو ڈانواڈول کرنے کی سمت جاتے نظر آرہے ہیں، محض خدشات کافی نہیں بلکہ عوام غربت، بیروزگاری، ذہنی اور شدید اعصابی دباؤ میں مبتلا ہیں، کورونا سے نمٹنے میں عوام نے اپنی بساط سے بڑھ کر حکومتی ایس او پیز اور دیگر ہدایات پر عمل کیا ہے۔

پورا ملک سنسان جنگل بن چکا، زندگی کے معمولات درہم برہم ہوچکے، جو لوگ کورونا کے اثرات مابعد کو ایک نئے عہد کی ابتدا قرار دیتے ہیں وہ نائن الیون کے بارے میں بھی وہی انداز نظر پیش کرتے رہے ہیں لیکن دنیا نائن الیون کے بعد کتنی محفوظ، مستحکم اور امن کا گہوارہ بنی ہے اس پر ’’کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ ‘‘ کا منظر نامہ نوشتہ دیوار بنا ہوا ہے، اہل وطن کو کورونا نے نیم جان کردیا ہے، لوگ چاہتے ہیں کاروبار اوپن ہو۔ پورے پاکستان میں ہلاکتیں ہولناک اور امریکا، اٹلی، ایران، اسپین سے زیادہ نہیں، اللہ نے قوم پر رحم کیا ہے، ارباب اختیار اس حقیقت کا ادراک کریں کہ کورونا کے متاثرین اور کروڑوں پاکستانی ڈنڈے، دھونس، دھمکی اور قانون کی غیر انسانی سختیوں سے صحت یاب نہیں ہونگے، انھیں خوف نہیں اعتماد، ہمدردی، رحم دلی اور اخلاص و امداد کی ضرورت ہے، کورونا سے نمٹنے میں طبی، سیاسی، نفسیاتی اور انتظامی تدبر و حکمت درکار ہے۔

قوم کو ان دیکھا معاشی پہاڑ گرنے کا دھڑکا لگا ہوا ہے، معاشی حالت بگڑی تھی تو سوویت روس کی طاقت زبوں بوس ہوئی، ایسی خبریں نہ دیں کہ مہنگائی میں 8.2 فیصد کمی آئی ہے، جہاں خلق خدا کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں، روزگار کے دروازے بند اور آدمی گھر میں قید ہو وہاں کون سی خوشحالی آئے گی، دودھ اور شہد کی نہریں کیسے بہیں گی، وزیراعظم جس غربت اور حالات کی خرابی پر دل گرفتہ ہیں، ویسی ہی انسان دوستی صوبائی حکومتوں کی طرف سے وفاق کے ہمرکاب چلنے کو تیار ہو، عوام کی مسیحائی جبر سے ممکن نہیں، عوام کو اس قابل بنائیے کہ وہ ماضی کی طرح آج بھی کورونا سے نمٹنے کے لیے حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، چاہے زیر زمین معاشی ارتعاش ہو کورونا وائرس سے نمٹنے میں کسی جبر اور پولیس کے لاٹھی چارج، جرمانوں اور سزا کی قطعی گنجائش نہیں۔ وزیراعظم یہ انتباہ دے چکے ہیں کہ صرف لاک ڈاؤن ہی پر انحصار اقتصادی صورتحال کو گمبھیر بنا دے گا۔

بینک دولت پاکستان نے کورونا وائرس کی وبا کی بنا پر معاشی مشکلات سے نبرد آزما کارکنوں کے روزگار کو سہارا دینے کے لیے ’’پیمنٹ آف ویجز اینڈ سیلریز ٹو دی ورکرز اینڈ ایمپلائز آف بزنس کنسرنس‘‘ کے نام سے کاروباری اداروں کے لیے ایک عارضی ری فنانس اسکیم متعارف کرائی ہے، اس سہولت کا بنیادی مقصد کاروباری اداروں کو ترغیب دینا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران ملازمین کو برطرف نہ کریں۔ یہ اسکیم پاکستان کے تمام کاروباری اداروں کو بینکوں کے توسط سے دستیاب ہوگی اور اس میں مستقل، کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز سمیت ہر قسم کے ملازمین نیز آؤٹ سورس کارکن بھی شامل ہوں گے، اس اسکیم کے تحت ان کاروباری اداروں کو جو اپریل تا جون 2020 کے دوران اپنے ملازمین کو برطرف نہیں کریں گے اِن تین مہینوں کی اجرتوں اور تنخواہوں کے اخراجات کے لیے فنانسنگ فراہم کی جائے گی، اسکیم کے تحت لیے گئے قرضوں پر مارک اپ 5 فیصد تک ہوگا۔

قرض لینے والے جو افراد ایکٹیو ٹیکس پیئرز لسٹ میں شامل ہیں وہ مزید کم یعنی 4 فیصد مارک اپ ریٹ پر قرضے حاصل کرسکیں گے، یہ اسکیم چھوٹے کاروباری اداروں کو ترجیح دینے کے لیے تیار کی گئی ہے جن کاروباری اداروں کی تین ماہ کی اجرتوں اور تنخواہوں کا خرچ 200 ملین روپے تک ہے وہ اس پوری رقم کی فنانسنگ حاصل کرسکیں گے جب کہ وہ کاروباری ادارے جن کی اجرتوں اور تنخواہوں کا خرچ 500 ملین روپے سے زیادہ ہے، وہ اس خرچ کے 50 فیصد تک فنانسنگ حاصل کرسکیں گے، درمیانی کٹیگری میں آنے والے تین ماہ کی اجرتوں اور تنخواہوں کے خرچ کے 75 فیصد تک فنانسنگ حاصل کرسکیں گے، بینک اس اسکیم کے تحت قرضے کی پروسیسنگ فیس، کریڈٹ لمٹ فیس، پری پیمنٹ پینالٹی چارج نہیں کریں گے، قرض کی اصل رقم کی ادائیگی دو سال میں کرنی ہوگی جب کہ قرض لینے والوں کو چھ ماہ کی رعایتی مہلت بھی دی جائے گی۔

بینک اس اسکیم کے استعمال پر اسٹیٹ بینک کو ہفتہ وار رپورٹنگ فراہم کریں گے خصوصاً اس اسکیم کے تحت فنانسنگ کی درخواستیں رد کرنے کی وجوہات بتائیں گے، اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ اس اسکیم کا ایک بڑا فائدہ یہ پہنچے گا کہ جو آجر اپنے پے رول پر ملازمین کو برقرار رکھیں گے وہ صورت حال معمول پر آنے پر جلد اپنی پیداوار بحال کرسکیں گے یا اس میں اضافہ کرسکیں گے، اسکیم سے کاروباری اداروں کے لکویڈیٹی کے مسائل کم ہوں گے اور وہ دستیاب مالی وسائل کو ورکنگ کیپٹل کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرسکیں گے۔ دلچسپی رکھنے والے کاروباری ادارے اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر تفصیلات جان سکتے ہیں۔ اقتصادی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک صرف قیمتوں میں استحکام کی پالیسی اپنانے کے لیے کوشاں ہے، ذرائع کے مطابق بعض سابق گورنرز کا کہنا تھا کہ ترمیمی ایکٹ سے بینک کا خود احتسابی نظام متاثر ہوگا۔

بلاشبہ کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال میں گھبرانے کی ضرورت نہیں، قوم ہر صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے مگر ملک کے فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ کورونا روٹین کے وبائی امراض کا تسلسل ہے، یہ روٹین کی آزمائشیں ہیں، عوام سبز پتوں والی سبزیاں کثرت سے استعمال کریں۔ بل گیٹس نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کو ہر20 سال بعد کورونا جیسی وبا کا خطرہ رہے گا توکیا قوم اس خوف میں اپنے یہ سارے قیمتی ماہ وسال کورونا کے پاس گروی رکھ دے۔ ایسا ممکن نہیں۔ اہل وطن انشا اللہ کورونا کو شکست فاش دے کر رہیں گے۔

The post لاک ڈاؤن پر پالیسی واضح ہو! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2UZS99i
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment