Ads

نئی دنیا نیا نظام 

انسان بڑا باکمال باصلاحیت بڑا ذہین ہے، اس نے ایٹم بم بنایا، اس نے ایٹمی میزائل بنائے‘ اس نے زہریلی گیسیں بنائیں،اس نے ٹینک بنایا اس نے بکتر بند گاڑیاں بنائیں، غرض اس نے انسان کو مارنے کے لیے اتنے ہتھیار بنائے کہ ان کو  شمار کرنا مشکل ہے اس نے صرف یہ ہتھیار بنائے ہی نہیں بلکہ انھیں آزمایا اور استعمال بھی کیا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران اس نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما، ناگاساکی پر استعمال بھی کیا جس سے لاکھوں انسان موت کے منہ میں چلے گئے شہر کے شہر جل کر خاک ہوگئے۔ انسان بڑا عظیم ہے خدایا ،دوسری عالمی جنگ کو ختم ہوئے سو سال سے زیادہ عرصہ ہوا لیکن انسان کے بنائے ہوئے ایٹم بم سے کٹے پھٹے انسانوں کے نشان آج بھی موجود ہیں ۔ اس نے کوریا کی جنگ لڑی اس نے ویت نام کی جنگ لڑی اس نے افغانستان کی جنگ لڑی اور ابھی تک لڑ رہا ہے ان جنگوں میں لاکھوں انسان مارے گئے ان جنگوں میں اربوں ڈالر خرچ ہوئے۔

ملا کیا لمبے لمبے قبرستان اور ان جنگوں میں بہادری کے کارنامے انجام دینے والے مرحومین کی قبروں کے سرہانے وہ سنگ مر مر کے پتھر لگے ہوئے ہیں جن پر ان کی بہادری کے مختصر کارنامے لکھے ہیں۔ ان کی برسیوں پر جنگوں کی برسیوں پر ان مرحومین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بگل بجائے جاتے ہیں زندہ فوجی ان مرحومین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے المیہ دھنیں بجاتے ہیں ان بہادروں کی قبروں کو گلابوں سے ڈھانک دیتے ہیں۔

اب تک ہونے والی جنگوں میں انسان انسان کو قتل کرتا تھا لیکن پچھلے دو ماہ سے ساری دنیا میں جو جنگ جاری ہے اس میں بھی ہزاروں انسان مارے جا رہے ہیں لاکھوں انسان ’’زخمی‘‘ ہو رہے ہیں لیکن یہ جنگ کوئی فوج نہیں لڑ رہی ہے اس جنگ میں نہ ایٹم بم استعمال ہو رہے ہیں نہ ایٹمی میزائل نہ F-16، نہ B-52 اس میں جو سپاہی حملے کر رہے ہیں ان کا نام ’’کورونا‘‘ ہے یہ اتنے چھوٹے ہیں کہ نظر نہیں آتے دوربین سے بھی نظر نہیں آتے لیکن یہ فوج بڑے بڑے جرنیلوں بڑے بڑے حکمرانوں کو چیونٹیوں مکوڑوں کی طرح مار رہے ہیں۔ بہادر انسان عالمی جنگوں میں بہادری کے جوہر دکھانے جیسے انسان کورونا فوج کے سامنے اس قدر بے بس ہیں کہ اس کورونا نہ نظر آنے والی فوج سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ نیند سے ڈر ڈر کے اٹھتے ہیں۔

کورونا کے مارے ہوئے انسان بھی اتنے خطرناک ہیں کہ بہادر سے بہادر انسان بھی ان مرحومین کی لاشوں کو ہاتھ لگانے سے خوفزدہ ہو رہے ہیں۔ ان مرحومین کو دفنانا بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ انسان ان لاشوں کو ہاتھ لگانے سے خوفزدہ ہے۔ آج ساری دنیا اس جنگ سے خوفزدہ ہے بہادر سے بہادرانسان بھی ان کے قریب جانے سے خوفزدہ ہے۔ بڑے بڑے حکمران حتیٰ کہ امریکا کا صدر ٹرمپ بھی ان دشمنوں سے بچنے کے لیے قید تنہائی کا شکار ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فوج کہاں سے آئی اسے کس نے بھیجا؟دنیا پر ہزاروں سال سے لڑاکا مافیا حکومت کر رہی ہے اور اس مافیا نے لاکھوں زندگیاں، ہزاروں گھر اور بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں۔ پچھلے چند سو سالوں سے ایک نئی مخلوق سیاستدان دنیا پر حکومت کر رہی ہے اور اس کی تباہ کاریوں میں جنگوں کے علاوہ معاشی تباہیاں بھی شامل ہیں۔ سیاست دانوں کے برسر اقتدار آنے سے پہلے شاہوں، شہنشاہوں، راجوں مہاراجوں کا دور تھا۔ ان کے دور میں جنگوں کے لیے کسی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بس سلطنت کی حدود میں اضافے اور لوٹ مار کے لیے جنگیں کی جاتی تھیں اور ان جنگوں میں بھی ہزاروں انسان مارے جاتے تھے یعنی صدیوں پر پھیلا یہ کلچر انسانی خون سے اپنی پیاس بجھاتا تھا۔

اب ان حکمرانوں اور طرز حکمرانی میں تبدیلی کی ضرورت ہے ہر ملک میں ہزاروں دانشور، مفکر، ادیب، شاعر اور فنکار موجود ہیں جو جنگوں ظلم اور ناانصافیوں کے سخت خلاف ہیں۔ ان میں باصلاحیت اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل ہیں۔ اب دنیا کے عوام کی ذمے داری اور فرض ہے کہ وہ دانشور، مفکروں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو حکومت میں لائیں۔ اور  انھیں موقع دیں کہ وہ دنیا کو جنگوں کی بھٹیوں سے نکال کر امن، شانتی اور رواداری کے کلچر کو فروغ دیں۔ جنگ پسندوں کو لمبی لمبی سزائیں دے کر جیلوں میں ڈال دیں۔ اس طرح پوری دنیا جنگوں کے کلچر سے نجات حاصل کرلے گی اور انسان سکون سے زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے گا۔

جب مندرجہ بالا اکابرین اقتدار میں آئیں تو ان کا پہلا کام ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کرنا ہوگا، ان کا دوسرا کام روایتی ہتھیاروں سے جان چھڑانا ہوگا۔ موجودہ اقوام متحدہ تشکیل دینا جو دنیا میں امن کو حقیقی بنائے اور جنگوں کو ماضی کی یادگار بنادے۔ سائنسی ٹیکنالوجی اور زندگی کے ہر شعبے میں تحقیق کو رواج دے تاکہ کورونا سمیت ہر بیماری کا علاج موجود ہو۔

آج ساری دنیا جس کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہی ہے اس کا علاج دریافت کرے یا کورونا جیسے تمام اقدام کے وائرس سے دنیا کو نجات دلائے۔ ہر ملک میں ضرورت کے مطابق اسپتال تعمیر کروائے جن میں ضرورت کے مطابق جدید دوائیں موجود ہوں ان اسپتالوں کا انتظام ایسے اہل علم کے ہاتھوں میں سونپا جائے جو اس قسم کے اداروں کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ تعلیم عام لازمی اور مفت ہو۔

دنیا میں ہر قسم کے انسان موجود ہیں جن میں امن دشمن بھی شامل ہیں۔ دنیا میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے اقوام متحدہ (جو اہل فکر اہل علم) پر مشتمل ہو، کی نگرانی میں اتنی فوج رکھے جو ملک کے اندر ملک کے باہر امن دشمنوں سے نمٹ سکے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کو عوام منتخب کریں جو دنیا میں امن کو یقینی بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ان میں اہل علم ہوں، اہل فکر ہوں، دانشور ہوں، طریقہ انتخاب عام جیسا ہے لیکن انتخابات ایماندارانہ ہوں یہ ایک خاکہ ہے اگر اس نظام کو بہتر سمجھا جائے تو پھر اس کا مکمل ڈھانچہ بنایا جاسکتا ہے۔

The post نئی دنیا نیا نظام  appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XwMQA8
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment