شعیب اختر سے میری کبھی نہیں بنی، نہ تب جب وہ کرکٹ کے سپراسٹار تھے نہ اب جب وہ سوشل میڈیا کے سپراسٹار ہیں، آف دی فیلڈ حرکات کی وجہ سے مجھے وہ بالکل پسند نہیں تھے، اب وہ یوٹیوب پر سبسکرائبرز بڑھانے کیلیے جو بھارت کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں ان سے مجھے بڑی چڑ ہے، ٹویٹر پر میں نے اس پر شعیب اختر کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کیا تو انھوں نے مجھے بلاک کر کے اپنی ناراضگی ظاہرکی، یہ سب کچھ بتانے کا یہ مقصد ہے کہ آپ کہیں ایسا نہ سمجھیں کہ میں ان کیلیے نرم گوشہ رکھتا ہوں، شعیب کی سب سے بڑی خامی بہت زیادہ بولنا ہے، جیسے ان کی بولنگ بڑی طوفانی تھی ویسے ہی زبان سے نکلے الفاظ بھی شعلے برسا رہے ہوتے ہیں۔
شعیب کے باؤنسرز سے ماضی میں بھی بچنا مشکل تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے، البتہ ایک فاسٹ بولر کیلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھے، آپ اوورز کی ساری گیندیں باؤنسرز نہیں کر سکتے، امپائر نو بال کا اشارہ کر دے گا، دیکھ بھال کر جہاں ضرورت ہو وہاں اس کا استعمال کریں تو فائدہ بھی ہوتا ہے، مگر شعیب جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں جیسا کہ انھوں نے حال ہی میں کیا، ان کی باتیں بہت اچھی تھیں مگر درمیان میں ذاتی رنجش کی وجہ سے پی سی بی کے قانونی مشیر کو بھی لے آئے جس سے اصل ٹاپک سے توجہ ہٹ گئی، فکسنگ کے حوالے سے جو انھوں نے بہترین نکتے اٹھائے ان کی جگہ قانونی نوٹس بھیجنے کا ہی ذکر چل رہا ہے، پی سی بی نے بھی شعیب کے دور عروج کی کسی گیند کی طرح تیزی دکھائی، قانونی مشیر نے ذاتی حیثیت میں نوٹس بھیجا، بورڈ نے بھی ایسا ہی کرنے کا عندیہ دے دیا، بیان جاری کر کے پیسر کے الفاظ کو توہین آمیز بھی قرار دے دیا۔
اس سے پہلے کون سا شعیب اختر کی زبان سے پھول جھڑتے تھے، جب انھوں نے سرفراز احمد کو قابل اعتراض انداز میں وزن زیادہ ہونے کا طعنہ دیا تب بورڈ میں کسی کو ایسا نہ لگا کہ یہ کپتان کی توہین ہے، مگر اب غیرت جاگ اٹھی، شعیب جیسے بھی ہوں پاکستان کرکٹ کا بہت بڑا نام ہیں،وہ بڑبولے ضرور ہیں مگر انھیں سیریس لیں، ان سے اگر کوئی شکایت تھی تو ایک فون کر کے احتجاج ریکارڈ کرا دیتے یا خط ہی لکھ دیتے، مگر آج کل بورڈ کی پالیسی ایسی ہی جارحانہ ہے، فکسنگ کے خلاف قانون بنانے اور ماضی کے فکسرز کو واپس لا کر ہیرو بنانے کی نشاندہی بالکل درست ہے، مگر لگتا ہے شعیب نے کسی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا،کل سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود سے بات ہو رہی تھی، انھوں نے بڑی اچھی تجویز دی کہ پی سی بی فکسنگ کے واقعے پر خود ایف آئی آر درج کرائے یا کسی ایجنسی کو رپورٹ کرے،اگر بورڈ کے پاس تحقیقات کا اختیار نہیں تو ایجنسیز سے کیوں رابطہ نہیں کیا جاتا، کتنے کرکٹرز نے فکسنگ کی، چند ماہ کی پابندی بھگتی پھر قومی ٹیم میں آ گئے، کیا ان سے کرپشن کے پیسوں کا کوئی سوال ہوا، جائیدادوں کے حوالے سے کچھ پوچھا؟ کبھی ایسا نہیں ہوا، ان دنوں متواترمختلف حلقے پی سی بی پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔
ان سب کو نوٹس بھیجنے کے بجائے کیوں نہ اپنے گریبان میں جھانکا جائے کہ کیا غلطیاں سرزد ہوئیں، آگے کس طرح بہتری لائی جا سکتی ہے، افسوس بورڈ حکام طاقت کے نشے میں چور ہیں اور اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھ رہے، کیا احسان مانی نے یہ سوچا کہ شعیب اختر، یونس خان، محمد یوسف، عامر سہیل وغیرہ کیوں بورڈ سے ناراض ہیں، ان سے کبھی ملاقات کی؟ یونس اور یوسف پاکستان کے عظیم سابق کرکٹرز ہیں، ان کو کوئی لفٹ نہیں کرائی جاتی، جب لاک ڈاؤن نہیں تھا تو پوچھا تک نہیں اب آن لائن لیکچرز دینے کا کہا جا رہا ہے، یونس کو چند لاکھ کیلیے انڈر 19 ٹیم کا کوچ نہیں بنایا مگر مصباح کو32 لاکھ روپے سینئر ٹیم کی کوچنگ اور چیف سلیکٹر بننے کے دے دیے، وقار یونس کو مشکوک ماضی کی وجہ سے کرکٹ آسٹریلیا نے بولنگ کوچ نہیں بنایا ہم بار بار انھیں عہدے سونپ دیتے ہیں، وہ تنخواہ بھی ڈالرز میں لیتے ہیں اور جب دل چاہے اپنے دوسرے ملک آسٹریلیا چلے جاتے ہیں۔
ان دنوں بھی فیملی کے ساتھ وہیں ہیں، یونس وغیرہ کا مسئلہ یس مین نہ ہونا ہے اوربورڈ کوایسے لوگ پسند نہیں ہیں،2 سال سے زائد عرصے تک ٹی20میں پہلی پوزیشن پاکستان کے پاس رہی مگر اب انہی ناقص پالیسیز کی وجہ سے آپ دیکھ لیں چوتھے نمبر پر جانا پڑ گیا ہے، بورڈ کو چاہیے کہ زوال کی وجوہات پر توجہ دے، عمر اکمل کے حوالے سے دیکھتے ہیں تفصیلی فیصلہ کیا سامنے آتا ہے، اگر ان کی 2 سالہ سزا معطل ہوئی تو ڈیل کے خدشات درست ثابت ہو جائیں گے جس کے تحت بیٹسمین نے غلطی تسلیم کر لی، اس صورت میں وہ اگلی پی ایس ایل بھی کھیلتے نظر آئیں گے جو ہماری ’’زیرو ٹولیرنس‘‘ پالیسی پرزوردار طمانچہ ہوگا، ممکن ہے ایسا نہ ہو اور عمر تین سال کی سزا ہی مکمل کریں، اس کیلیے ہمیں تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا، بورڈ حکام نے عندیہ تو دیاکہ وہ فکسنگ کیخلاف قانون بنانے کیلیے حکومت کو تجویز دیں گے مگر دیکھتے ہیں ایسا ہوتا بھی ہے یا محض دباؤ کم کرنے کی کوشش ہے۔
جیسے ویمنز چیمپئن شپ میں بھارت کو جب آئی سی سی نے پاکستان سے نہ کھیلنے کے باوجود یکساں پوائنٹ دیے تو سخت احتجاج کا کہا گیا مگر کچھ نہیں ہوا، ٹھوس قدم اٹھائیں پھر اعلان کریں، عامر اور شرجیل جیسے کرکٹرز کا دوبارہ کھیلنا سسٹم کی ناکامی ہے، آپ نے انھیں نشان عبرت نہیں بنایا جس سے دوسروں کو بھی تحریک ملی، اب عمر اکمل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا، سب سے پہلے پتا لگائیں ہمارے کھلاڑیوں کو آفرز کرتا کون ہے، اس کی تفصیلات کے ساتھ پولیس میں رپورٹ کرائیں، میڈیا کو بھی بتائیں پھر کیس ہائی پروفائل بنے گا اور تحقیقات بھی ہوں گی، بکیز پکڑے جائیں گے تو شاید دوسرے ڈریں، بورڈ سے ایک بار پھر درخواست ہے کہ نائنٹیز کے نام نہاد سپراسٹارز کو زیادہ لفٹ نہ کرائیں، پوری دنیا کو ان کے ’’کارناموں‘‘ کا علم ہے، ملک میں کئی ایماندار سابق کرکٹرز بھی موجود ہیں انھیں موقع دیں، ایک بار نیت تو کریں ہماری کرکٹ بھی صاف ہو سکتی ہے، ورنہ ایسے ہی فکسنگ کیسز بدنما دھبہ بن کر نام پر لگتے رہیں گے۔
The post شعیب اختر کو بھی سیریس لیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YnJW0K
0 comments:
Post a Comment