وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیا میں لاک ڈاؤن کرتے وقت غریبوں کا نہیں سوچا گیا، کورونا وائرس کے بعد ہم نے وینٹی لیٹرز اوردوسرا طبی سامان بنانے کا سوچا۔
سچ تو یہ ہے کہ لاک ڈاؤن نے غریب اور مزدورطبقے کو دہری مشکلات سے دوچارکیا ہے ، بے روزگاری بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ روزانہ اجرت پرکام کرنے والوں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت پیدا ہوچکی ہے بھوک وافلاس کا بڑھ جانا خطرے سے خالی نہیں، اس کے نتیجے میں انتہائی المناک انسانی المیے جنم لے سکتے ہیں۔ پاکستان کا یہ بھی المیہ ہے کہ ماضی کی تمام حکومتوں نے صحت کے شعبے کو یکسر نظر اندازکیا ۔
آج بھی بائیس کروڑ عوام کے لیے علاج معالجے کی سہولتیںناکافی ہیں۔ ہماری ترجیحات میں کبھی تعلیم اور تحقیق شامل نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پاکستانی حکومت کے تمام تراقدامات کے باوجود خودکوغیرمحفوظ سمجھ رہا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اوران کے دو بچوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے، انھوں نے پوری قوم سے درخواست کی ہے کہ وہ احتیاط کریں۔ بلاشبہ عوام کو احتیاط کا دامن نہیں چھوڑناچاہیے، ورنہ غفلت اورلاپرواہی کے نتائج انتہائی سنگین برآمد ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق یکم مئی سے پٹرول کی قیمت 81 روپے فی لیٹر،ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 80 روپے فی لیٹر، مٹی کے تیل کی قیمت 47 روپے فی لیٹر جب کہ لائٹ ڈیزل کی قیمت 47 فی لیٹرکردی گئی ہے، بلاشبہ پی ٹی آئی حکومت کا یہ اقدام لائق ستائش ہے، پیٹرولیم مصنوعات میں تاریخی کمی کے مثبت اثرات ملکی معیشت اورعوام پر یقینا مرتب ہونگے۔دوسری جانب اس خدشے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ پٹرول پمپ مالکان اب مٹی کا تیل سستا ہونے کی بنا پر پٹرول میں اس کی ملاوٹ کریں گے،حکومت کوپٹرول پمپز پر بھی کڑی نظر رکھنی چاہیے تاکہ شہریوں کو ملاوٹ شدہ پٹرول نہ ملے۔
مہنگائی کی شرح بڑھنے کا ایک سبب ڈیزل اور مٹی کی تیل کی بلند سطح قیمتیں بھی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزیدکمی کی جاتی تو یہ زیادہ بہتر اقدام ہوتا، بہرحال قوی امید ہے کہ حکومت جلد اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے قیمتوں میں مزیدکمی کے لیے لائحہ مرتب کرے گی۔
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے مزدوروںکے عالمی دن کے موقعے پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن کے باعث محنت کشوں اوردیہاڑی دار طبقہ کو در پیش مشکلات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق پاکستان سمیت دنیا میں لاکھوں لوگ اس وبا کی وجہ سے بے روزگارہوچکے ہیں اور مزید ہونے کے واضح امکانات بھی نظرآرہے ہیں۔ مصور پاکستان،شاعرمشرق علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
توقادروعادل ہے مگرتیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدورکے اوقات
مزدور طبقے کے مسائل وآلام اور مشکلات میں جو اضافہ حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے اس کو بیان کرنے سے قلم قاصر ہے،لاک ڈاؤن کے باعث سب سے زیادہ مزدور طبقہ متاثر ہوا ہے۔ بعض کارخانوں اورفیکٹریوں کے مالکان مزدوروں کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں، تنخواہیں اور واجبات ادا نہیں کیے جا رہے ہیں، جو سراسر ظلم کے مترادف ہے،حکومت کی تمام ہدایات کو یکسر نظراندازکیا جا رہا ہے۔
مزدوروںکا عالمی یوم یکجہتی دنیا بھر میں منایا جاتا ہے لیکن اس بار لاک ڈاؤن کے باعث جلسے، جلوس اور تقریبات منعقد نہیں ہوسکی ہیں۔ یہ وہ تاریخی دن ہے جب شکاگو میں محنت کشوں نے ظلم وجبرکے سامنے سرجھکانے کے بجائے اپنی جانیں نچھاورکرکے ایک تاریخ رقم کی تھی۔ ایک ایسی مزدور تحریک جس نے بنیادی حقوق کی اہمیت کو نہ صرف اجاگرکیا بلکہ مزدورکی اہمیت وحیثیت کو دنیا بھرمیں منوایا۔اس مشکل کی گھڑی میں ہمارے ملک کا مزدور طبقہ،ہم سب کی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے، مزدور اوردیہاڑی دار افراد جو موسموں کی سختیوں کی پرواہ کیے بغیر رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں،آج کورونا وبا کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے ہیں ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اس ماہ مبارک میں مزدور طبقے کا ہرممکن خیال رکھنا چاہیے، یہ عمل بلاشبہ اللہ کی رضا کا سبب بنے گا۔
پنجاب کابینہ نے کورونا وباء سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر صوبے میں سخت مالیاتی ڈسپلن نافذ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے غیر ضروری اخراجات پر پابندی عائدکردی ہے، خیبرپختونخوا کابینہ نے کورونا سے شہید ہونے والے تمام اسکیل کے فرنٹ لائن ورکرزکے ورثاء کے لیے یکساں بنیادوں پر70لاکھ روپے پیکیج کی منظوری دے دی ہے، یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے، اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے، جب کہ وفاقی دارالحکومت میں کوروناوائرس کے کیسز سامنے آنے پر سیکٹر آئی ٹین ون اور آئی ٹین فورکو فوری طور پر سیل کردیاگیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کورونا وائرس کے خطرات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، لہذا ایسے اقدامات درست ہیں۔
سندھ میں سماجی، مذہبی،کاروباری اور عوامی سرگرمیوں پر پابندیوں کا اطلاق رمضان المبارک کے اختتام تک رہے گا۔ عوامی حلقوں نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر رمضان پیکیج کے تحت اشیائے خورونوش کی قلت کے بارے میں توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر نہ تو بیسن فراہم کیا جا سکا ہے اور نہ ہی دالیں جب کہ نجی کمپنی کی کھجوریں بھی مارکیٹ ریٹ سے زائد میں فروخت کررہی ہے۔ ماہ رمضان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کے لیے افطاری اور سحری کا انتظام کرنا مشکل بنادیا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے یوٹیلیٹی اسٹورزکے ذریعے عوام کو ماہ رمضان میں ریلیف دینے کے دعوے صرف دعوؤں کی حد تک نظرآتے ہیں، عوام کا کہنا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز پرلگژری آئٹمزکی تو بھرمار ہے مگر اشیائے ضروریہ ناپید ہیں۔یہ شکایت درست ہیں توسمجھ لیجیے کہ اربوں روپے کے ریلیف کا دعویٰ صرف کاغذوں کی حد تک محدود رہ جائے گا۔حکومت کو عوامی شکایت کا فوری طور پر ازالہ کرنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کرنا چاہیے۔
ماہر امراض خون پروفیسر طاہرشمسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں کورونا سے صحتیاب ہونے والے افرادکے پلازما میں وائرس دوبارہ فعال نہیں ہوا ہے، جب کہ چین اورکوریا میں صحت یاب ہونیوالے19فیصد افراد میں یہ وائرس دوبارہ فعال ہوگیا ہے۔ پاکستان میں 2 ماہ مکمل ہونے کے بعد اس کے رویے میں شدت نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ امر خوش آئند سہی لیکن پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ احتیاط سے زندگی گزاریں، سماجی رابطوں سے دوری وائرس کے پھیلاؤکوکم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ یہ بھی اچھی خبر ہے کہ جنوبی ایشیا میں ڈیڑھ ارب کی آبادی میں وائرس نے صرف31ہزار افراد کو متاثرکیا ہے، جب کہ شرح اموات بھی دو فیصد رہی ہے۔کورونا سیاسی وسماجی سطح پر موضوع سخن ہے۔
یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ وطن عزیز میں طبقہ اشرافیہ صرف لاک ڈاؤن کو ہی مسئلے کا حل سمجھتا ہے، جب کہ وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ اس لاک ڈاؤن کے بھیانک نتائج غریبوں پر مرتب ہونگے، ہمیں بحیثیت قوم ایک جانب تو اس وبا سے نبرد آزما بھی ہونا ہے تو دوسری جانب بھوک اور بیماری سے بھی، اس لیے کوئی درمیانی راستہ ہمیں نکالنا پڑے گا۔ حکومتی ترجمان نے ایکسپریس کے ایک ٹاک شو میں بتایا کہ وزیراعظم پہلے دن سے لاک ڈاؤن کے خلاف تھے لیکن جوکابینہ کی اکثریت کا فیصلہ تھا، وہی وزیر اعظم نے قبول کیا، وزیر اعظم چاہتے تھے کہ ہم ایس او پیز بنائیں، سافٹ لاک ڈاؤن کی طرف جائیں، مساجد ،شادی ہال اور اسکول وغیرہ بندکردیں جب کہ دیہاڑی دار اورچھوٹے چھوٹے کاروبار اورمعاشی سرگرمیاں چلتی رہیں۔گیند اب وفاقی حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ کتنی جلد معاشی اورکاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کا اعلان کرتی ہے اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کواختیارکرتی ہے۔
اس وبا کے خلاف لڑنے والے ڈاکٹرزاور طبی عملے کے لیے حفاظتی لباس اور سامان تک مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہ ہونے کی شکایات تواتر سے موصول ہورہی ہیں۔ طبی انتظامی اقدامات اگر جنگی بنیادوں پر نہ اٹھائے گئے تو وبا کے خلاف لڑنے والے ہراول دستے کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال موجود ہے، لہذا تمام طبی حفاظتی سامان ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو مہیا کرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری بنتی ہے، اس وبا سے لڑتے ہوئے بہت سے ڈاکٹرز جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ ہمیں اپنی طبی فرنٹ لائن کو ہر صورت میں بچانا ہے، تب ہی ہم یہ جنگ جیت سکیں گے۔
سیاسی سطح پر سندھ اور وفاق کے درمیان تاحال شکوے ،شکایات کا سلسلہ برقرار ہے، سندھ حکومت کو وفاق کے عدم تعاون اور فضائی اور زمینی راستوں سے بیرون ملک کی ٹریفک کے بروقت کنٹرول نہ کرنے کا شکوہ ہے تو دوسری جانب سپریم کورٹ راشن تقسیم سے مطمئن نظر نہیں آرہی اور سندھ حکومت سے جواب طلب کررہی ہے۔ وفاقی و صوبائی وزراء ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ان سطورکے ذریعے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ خدارا سیاست کو اس وقت بھول جائیں، ہم بحیثیت قوم حالات جنگ میں ہیں، لہذا وقت کی یہ اہم ترین ضرورت ہے کہ اپنی، اپنی انا کے بت پاش کرتے ہوئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے، اگر ہماری سیاسی قیادت ایک پیج پرآجائے تو عوام کا اعتماد متزلزل ہونے سے بچ جائے گا۔
The post کورونا کے خلاف جنگ اورسیاسی اختلافات appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VWZYgB
0 comments:
Post a Comment