گزشتہ روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں رینجرز اور پولیس حکام کی مشترکہ اور کامیاب کارروائی کے باعث جدید اسلحے اور دستی بموں سے لیس حملہ آور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق عمارت میں داخل ہوکر دہشت گرد کوئی بڑی کارروائی کرنا چاہتے تھے تاہم بروقت جوابی کارروائی نے نہ صرف ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیئے بلکہ قومی سلامتی پر مامور اہلکاروں کو یہ عزم اور حوصلہ بھی دیا کہ جب بھی دہشت گرد کسی قومی ہدف کو ٹارگٹ کریں گے وہ قانون نافذ کرنے اور وطن کے دفاع میں جاں نثار کرنے والے اہلکاروں کو ہمہ وقت چاک و چوبند، مستعد اور تیار پائیں گے اور ملکی سلامتی کے دشمن عناصر کی ہر سازش اور بزدلانہ واردات کا جواب پوری طاقت سے دیا جائے گا۔
تاہم دہشت گردی کی اس ہولناک واردات کو بروقت ناکام بناتے ہوئے چند باتوں کی طرف قومی سلامتی پر مامور قوتوں کو غور کرنا پڑیگا کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بیس ماہ کی مدت کے بعد پھر سے کراچی کو نشانہ پر لیا ہے، جو ان کے ماسٹر مائنڈز کے مطابق ان کے ٹارگٹ پر ہے، دہشتگرد نیٹ ورک کی طرف سے کہا گیا کہ ملکی معیشت اور چین کے منصوبوں کو نشانہ بنانا ان کا مقصد تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بھیجی گئی ایک ای میل میں کہا گیا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ہے، کالعدم تنظیم کے مطابق چین غیر منصفانہ طور پر بلوچستان کے معدنی وسائل اور ہائیڈروکاربن وسائل کو استعمال میں لا رہا ہے۔
ارباب اختیار اور سیکیورٹی حکام اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کے کئی غور طلب پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں، ایڈیشنل آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے کی اطلاعات تھیں، اسی باعث علاقے اور عمارت کی سیکیورٹی بڑھائی گئی، پاکستان رینجرز حکام کا بھی یکساں انداز نظر تھا، آئی جی نے کہا حملہ کسی ایک تنظیم کی جانب سے نہیں کیا گیا، مختلف گروپ اور سلیپنگ سیلز ایکٹیو ہیں، کراچی میں حملہ آوروں کو لاجسٹک سپورٹ ملی ہے، لیکن حملہ آوروں کے بیک اپ پر کوئی موجود نہیں تھا، حملہ آوروں سے ملنے والے اسلحہ اور ایمونیشن کی تحقیقات جاری ہیں۔
یاد رہے اس سے قبل 23 نومبر1918کو کلفٹن میں واقع چینی قونصلیٹ میں اسی تنظیم کی جانب سے کی جانے والی انتہا پسندانہ کارروائی میں 3 دہشت گرد ہلاک دو پولیس اہلکار اور دو شہری شہید ہوئے تھے، لہٰذا اسٹاک ایکسچینج واقعہ سے پہلے چند روز میں دہشتگردی کی بعض وارداتیں ہوئیں، جن میں رینجرز اہلکاروں پر حملے، لیاقت آباد میں احساس پروگرام سینٹر اور ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین کی رہائش گاہ پر دہشتگردی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں جب کہ اندرون سندھ بھی دہشتگردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اگرچہ ملکی صورتحال دہشتگردی کے بڑے بھیانک دورانیے بھی دیکھ چکی ہے۔
طالبان نے ریاست مخالف سرگرمیوں کے دوران آگ اور خون کا جو کھیل کھیلا اسے قوم اپنے لاشعور سے کبھی بھی نہیں نکال سکتی، اسی طرح بلوچستان کی سیاست بھی ملکی سیاست سے جڑی ہوئی ہے، بلوچستان میں گیم چینجر منصوبہ سی پیک سمیت دیگر داخلی سیاسی معاملات بھی سوالیہ نشان ہیں، علیحدگی پسندوں کے ذہن کو بھی پڑھنا ضروری ہے، گوادر پورٹ سے جڑی سیاسی صورتحال کا تعلق پورے ملک کی سیاسی معروضیت سے بھی ہے، اس لیے سیاسی رہنماؤں کو اسٹاک ایکسچینج واقعہ کو ایک ویک اپ کال کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
زمینی حقائق دہشتگردی کے واقعہ کی کڑی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سیاست کو تشدد، بلیم گیم، تضاد آرائی اور مسلسل کشیدگی کے بھنور سے نکالا جائے اور سیاسی معقولیت اور افہام و تفہیم کو جمہوری راستہ دیا جائے تاکہ عوام دوست پالیسیاں حکومتی اقتصادی ترقی کے لیے معاون ثابت ہوسکیں، خطرہ کسی بات کا نہیں صرف اس بات کا ہی ہے کہ کہیں دہشتگرد ہمیں پھر سے بند گلی میں نہ لے جائیں جہاں سے نکلنے میں ایک عرصہ لگ گیا۔
چشم تخیل کو بروئے کار لایا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت تک آنے میں دہشتگردوں کو کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی، وہ اپنے اسلحہ، ایمونیشن اور گاڑی کے ساتھ براستہ حب ٹاور کے راستے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت تک پہنچ گئے۔ باقی کارروائی تاریخ کا حصہ ہے لیکن ایک نکتہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، وہ دہشتگردوں کی فعالیت، ضد اور ہدف تک رسائی کا ہے، جیسا کہ پولیس چیف کا کہنا ہے کہ مختلف گروپ ایکٹیو ہیں۔
بلاشبہ مجرمانہ مافیاؤں کی نقل و حمل مشکل اس لیے نہیں ہے کہ کراچی ایک جنگل اور ہولناک کنکریٹ سٹی ہے، وہ زمانہ رخصت ہوگیا جب شہر قائد کے لیے منتخب لقب ’’عروس البلاد‘‘ استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ روشنیوں کا شہر تھا، ملک کے طول و عرض سے لوگ فکر معاش میں کراچی آکر بس جاتے تھے، یہ بندہ پرور میگا سٹی ہونے کا استحقاق رکھتا تھا، اسے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ وفاق کو 70 فیصد ریونیو دیتا ہے، لیکن عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایک دہشتگردانہ واقعہ سے شہر کے اعصاب تو شل ہوجاتے ہیں مگر سٹریٹ کرائم، شہریوں کی زندگی سے کھیلی جانے والی ظلم پرستی کو کوئی حکومت روک نہیں سکتی، سٹریٹ کرمنلز کی روایات کے عین مطابق مرکزی دروازے پر لگے بیریئر کے سامنے سرمئی رنگ کی ٹویوٹا کرولا کار رکتی ہے۔
اس میں سوار 4 دہشت گرد اترتے ہی وہاں مامور پولیس اور گارڈز پر فائرنگ شروع کر دیتے ہیں، ٹاور کا علاقہ ہے، شہر کا دوسرا مصروف ترین کاروباری مرکز اور تجارتی سینٹر۔ تاہم انھیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہیں سے سیکیورٹی فورس کی موجودگی اور جان نثاری کی کہانی شروع ہوتی ہے، چینی قونصل خانے پر حملے میں جو گاڑی استعمال کی گئی، وہ بھی کلیئر تھی اور تب بھی دہشت گردوں نے خرید کر استعمال کی تھی۔ ڈی جی رینجرز میجر جنرل عمر بخاری نے انکشاف کیا ہے۔
ماضی میں چینی قونصل خانے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے میں مماثلت ہے، جس میں ’’را‘‘ ملوث ہوسکتی ہے۔ انھوں نے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن کے ساتھ پریس کانفرنس میں بتایا حملہ انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں، رینجرز کی انسداد دہشت گردی فورس اور پولیس ریپڈ رسپانس فورس 10 منٹ میں وہاں پہنچی اور نجی گارڈوں کے ساتھ مل کر چاروں دہشت گردوں کو 8 منٹ میں مار گرایا، اگلے 25 منٹ میں پوری عمارت کلیئر قرار دے دی۔ دہشت گرد حصص گرانا چاہتے تھے لیکن ان کے پوائنٹس میں اضافہ ہوا۔ واقعہ کی چینی قونصل خانے پر حملے سے مماثلت اور ’’را‘‘ کی بے چینی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے جوابی آپریشن کرنے والی بہادر ٹیم کو 20 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
یہ دہشتگردی کے خلاف ایک مربوط کارروائی کی داستان ہے لیکن سیاست کے دیگر زمینی حقائق کی کہانی سب سے اندوہ ناک ہے، ذرا سنئے تو۔ قومی اسمبلی نے آیندہ مالی سال کے بجٹ کی کثرت رائے سے منظوری دیدی، اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں، سابق حکومتی اتحادی بی این پی مینگل نے بجٹ پر اپوزیشن کو ووٹ دیا۔ بجٹ منظوری کے وقت وزیر اعظم عمران خان ایوان میں موجود تھے، حکومتی ارکان نے خوشی سے نعرے لگائے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان نوٹس لینا چھوڑ دیں اور استعفیٰ دیدیں، اس کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دینگے۔عالمی یوم پارلیمان پر اپنے پیغام میں اسپیکر اسد قیصر نے کہا پارلیمنٹ کی مضبوطی ہی جمہوریت کی حقیقی روح ہے۔
ملک کو درپیش تمام مسائل کا حل پارلیمانی نظام کی مضبوطی میں ہی مضمر ہے۔ قوم وزیر اعظم عمران خان کے قومی اسمبلی میں طویل ترین خطاب اور اپنی مجبوریوں اور سماجی بدحالی اور غربت و بے روزگاری کے اژدہوں کو پھنکارتے ہوئے دیکھ رہی ہے، تجزیہ کار سوال کرتے ہیں کہ حکمران جن دعوؤں اور وعدوں کے ساتھ کنٹینر سے نیچے اترے تھے کیا انھیں اپنے نعرے آج یاد بھی ہیں، جس تبدیلی کے مشن کی تکمیل کا انھوں نے قوم سے کمٹمنٹ کیا تھا کیا اس عہد کو پورا کیا، لوگ کہتے ہیں کہ حکمرانوں نے بدترین عہد شکنی کی ہے۔
وہ آسمانی للکار پر کوئی توجہ نہیں دیتے، خلق خدا رُل گئی لیکن ان کی عیاشیوں میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا، مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے جو داستان سرائی کی، اس کا عوام کی زندگیوں سے کیا تعلق تھا، کیا ان کی قومی اسمبلی میں تقریر تاریخ کے عظیم مدبروں کی تقاریر سے بلند پایہ خطاب تھا۔
کیا نیا پاکستان بن گیا، کیا کرپشن اور احتساب کی شفافیت سے عام آدمی کے دن بدل گئے، عوام کے ہونٹوں پر جمہوریت کوئی نئی مسکان لے آئی، کہیں دور افتادہ گاؤں کی بے نام بوڑھی اماں کے جوان بیٹے کا قاتل کیفر کردار کو پہنچ گیا، کورونا کے خلاف ایک متحدہ قومی اور متفقہ لاک ڈاؤن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا؟ کیا نیچے سے کوئی غریب طبقہ حکومت کی مہربانیوں سے اوپر آیا؟ جوش ملیح آبادی نے کئی سال پہلے افتادگان خاک اور، بے منزل و مجبور لوگوں کے نام کچھ شعر کہے تھے جو ہوا کے گھوڑے پر سوار حکمران سے فریادی تھے، قارئین کرام آج وہ شعر سن لیں:
ادائے فقر میں عالم جہاں پناہوں کا
ترے گداؤں پہ دھوکا ہے بادشاہوں کا
عناں کشیدہ گزر اے خدیوِ کشورِ ناز
قدم قدم پر ہے اک شہر داد خواہوں کا
The post دہشت گردی سے فریادی عوام تک appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2BjycDE
0 comments:
Post a Comment