وزیر اعظم عمران خان نے پاک فوج کوکراچی کی صفائی میں ہاتھ بٹانے کا کہا ہے۔ اپنے ٹویٹ میں انھوں نے چیئرمین این ڈی ایم اے کو بھی فوری کراچی پہنچ کر صفائی کا عمل شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
کراچی میں بارش کے بعد جو المناک صورتحال رونما ہوئی ہے، وہ انتہائی پریشان کن ہے،ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کراچی کی ذمے داری لینے کوکوئی تیار نہیں ہے۔تمام اسٹیک ہولڈرز نے غفلت کا مظاہرہ کیا جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا ہے ،جان ومال کا ضیاع بہت بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف نظرآئیں جب کہ عوام بے بس اور لاچارنظر آئے ہیں۔
اس تاثر نے تقویت پائی کہ کراچی کا کوئی وارث نہیں، ہر سرکاری ادارہ ایک دوسرے پر ذمے داری ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتا نظرآیا۔اسی تناظر میں سندھ ہائیکورٹ نے کچرا اٹھانے اور برسات کے بعد شہر میں نکاسی آب کا نظام متاثر ہونے سے متعلق سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ،کے ایم سی، ڈی ایم سی اور دیگر اداروں سے 13 اگست کو رپورٹ طلب کرلی ہے۔ جسٹس خادم حسین ایم شیخ نے ریمارکس دیے ہر طرف غیر قانونی تعمیرات اور کچرا نہ اٹھانے کی وجہ سے کراچی ڈوب گیا ہے۔
وفاقی، صوبائی اور شہری حکومت کہیں بھی فعال نہیں تھی۔ نہ ہی عوام کی مدد کو پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنان پہنچے،اس بات پرجتنا دکھ کا اظہارکیا جائے وہ کم ہے، اب اگر وزیراعظم نے اس صورتحال پر عملی اقدامات کو فیصلہ کیا ہے تو اسے خوش آیند امر قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے مطابق وفاقی حکومت کراچی کے عوام کو اس مشکل صورتحال میں تنہا نہیں چھوڑے گی، یہ بیان عوام کے زخموں پر پھاہا رکھنے کے مترادف ہے۔
سندھ کے صوبائی وزراء سعید غنی اور ناصر حسین شاہ نے تمام اسٹیک ہولڈرزکو دعوت دی ہے کہ وہ تنقید برائے تنقیدکے بجائے شہرکی تعمیرکی جانب آئیں اور ملکراس شہرکی خدمت کریں۔ سیاسی بیانات اپنی جگہ لیکن ہر فرد، ہرجماعت کو شہرکراچی کو بچانے میں اپنا کردار اداکرنا ہوگا تب کہیں جا کر صورتحال قابو میں آئے گی۔
اگر ہم لاہورکی بات کریں تو وہاں کا سیوریج کا نظام انتہائی بوسیدہ ہوچکا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے اپنے دورحکومت میں اس حوالے سے کافی کام کروایا تھا، ورنہ اس مون سون سیزن میں لاہور بھی کراچی کی طرح ڈوب جاتا، ماہرین پاکستان بڑے شہروں کے سیوریج سسٹم کی تاریخ سے واقف ہونگے، لاہور میں سیوریج سسٹم بھی برٹش دورکے زمانے سے چلا آرہا ہے، اسے دو سو سال ہوگئے ہیں۔
شہرکے انسانی پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے ماہرین اور انجینیئرز کو سیوریج سسٹم کی فرسودگی کاخاتمہ کرکے شہری ضروریات کے تحت اسے جدید بنانا چاہیے تھا، آبادی میں اضافہ اور ہزاروں لاکھوں عمارات کی تعمیر کے ساتھ ہی سیوریج سسٹم کی تبدیلی اور توسیع ناگزیر تھی، مگرکوئی کام نہیں ہوا، آج زیر زمین پانی کی سطح میں کمی بھی تشویشناک ہوچکی ہے،ایک گھنٹے کی بارش سے لاہور اورکراچی میں تالاب کا سماں ہوجاتا ہے، سیوریج سسٹم درست اور فنکشنل نہیں ہوگا وہ شہرکی ضروریات پوری نہیں کرسکے گا، شہر میں غلاظت اورکوڑے کے ڈھیر لگ جائیں گے۔
آج کراچی اور لاہورکے بلدیاتی کاموں کے تقابل سے پتا چل جاتا ہے کہ صحت وصفائی کے ناقص نظام کی وجہ سے ملک کے یہ بڑے شہرکیسے مقام سے گرگئے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ لاہورکے ساتھ پنجاب کے بڑے شہروں میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے انڈرگراؤنڈ ٹینک بنائے جائیں گے، ذخیرہ کیے گئے پانی کو ہارٹیکلچر کے لیے استعمال کیا جائے گا، بارش کے پانی کو صاف کرکے پینے کے قابل بھی بنایا جاسکے گا۔
صوبائی اور شہری حکومتوں کواپنے فرائض سے غفلت کے چلن کو ترک کرنا ہوگا، تب ہی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں،حکومت کے موثر اقدامات کی وجہ سے ملک میں کورونا وبا کی صورتحال میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں، شرح اموات میں نمایاں کمی آئی ہے، لیکن کورونا کی وبا ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ عید قرباں کے موقعے پرکورونا وائرس کے پھیلاؤکا شدید ترین خطرہ موجود ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی صورتحال گرم موسم میں بہتر ہونے سے متعلق نظریات کی تردید کردی۔ ترجمان ڈبلیو ایچ اوکا مزید کہنا تھا کہ کورونا سے بری طرح متاثرہ ممالک میں مختلف موسم ہیں، لوگ کورونا کو فلوکی نظر سے دیکھ رہے ہیں جوکہ غلط تصور ہے، ترجمان ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ سماجی دوری،ہاتھ دھونا اورماسک پہننے سے ہی اس وائرس سے بچاؤممکن ہے۔
دوسری جانب آغا خان یونیورسٹی اور چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کی ایک مشترکہ تحقیق کے مطابق پاکستان کے ہر 6 میں سے ایک خاندان کو یہ یقین ہے کہ وہ کورونا کے خطرے سے محفوظ ہیں خواہ وہ کوئی احتیاطی تدابیراختیار نہ کریں۔ یہ رجحان انتہائی افسوس ناک ہے کیونکہ ہم بحیثیت قوم تاحال کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر ابہام کا شکار ہیں ، عیدالفطر پر ہم نے جس بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا تھا،اس کی وجہ سے کئی ہزار قیمتی جانیں نہ صرف ضایع ہوئیں بلکہ ہزاروں متاثرہ مریض بھی سامنے آئے۔
درحقیقت پاکستان میں احتیاطی تدابیر اور وائرس تشخیص کے لیے اہم علامات کے متعلق معلومات کے حصول کا رجحان بھی کم دیکھا گیا ہے۔ سروے کے مطابق پاکستانی مردوں میںکورونا سے منسلک خطرات، خوف کی شرح خواتین کے مقابلے میں کم پائی گئی،لاک ڈاؤن کے اعلان کے باوجود 71 فیصد مردوں نے گھر سے باہرجانے سے احترازکیا جب کہ خواتین میں یہ شرح 87 فیصد رہی۔ لہٰذا عید قربان پرحد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے، ذرا سی غفلت ، موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے۔
وزارت خزانہ نے کورونا وبا کنٹرول نہ ہونے اور معاشی غیریقینی کی صورتحال برقرار رہنے کی صورت میں نئے مالی سال 21-2020 کے دوران مہنگائی میں اضافے کی شرح بجٹ میں مقررکردہ ہدف 8.2 سے بڑھ کر 9.3 فیصد تک جانے کا خدشہ ظاہرکیا ہے۔
اکنامک آؤٹ لک برائے جولائی میں کہا گیا ہے کہ 3 بڑے عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستانی معیشت کا ابتدائی جائزہ مکمل کرنے کے بعد اپنی تازہ ترین اسیسمنٹ میں کہا ہے کہ پاکستان نئے مالی سال کی پہلی ششماہی میں کورونا کے اثرات سے باہر نہیں آسکے گا۔ا سٹاک مارکیٹ کی صورتحال کے پیش نظر معاشی غیریقینی کی صورتحال برقرار رہنے کے خدشات ہیں۔ایک جانب کورونا وباء کے باعث انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہیں تو دوسری جانب ملکی معیشت بھی ہچکولے کھا رہی ہے۔
شہ دماغوں کے لیے اس صورتحال پر قابوکسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ ملک میں مہنگائی کا جن حکومتی قابوسے باہر ہوگیا ہے،کورونا وبا کی آڑ میں مختلف مافیاز نے اپنے کام دکھا دیا ہے۔ ہر شئے کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، ملک میں بیروزگاری کی شرح بڑھنے سے خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے ، بیرون ممالک سے بھی ہزارہا افراد بے روزگار ہوکر وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ملکی معیشت کے استحکام میں ان ہی لاکھوں مزدوروں کا حصہ تھا جو پردیس سے بھاری رقوم اپنے وطن بھیج کر ملک کومعاشی طور پر چلا رہے تھے۔ اندرونی حالات کی بات کریں تو مارکیٹ میں چینی سرکاری نرخوں پر دستیابی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے، حکومت نوٹس لیتی ہے اور چینی مزید مہنگی ہوجاتی ہے، دکانوں پر چینی 95 روپے فی کلو تک فروخت ہورہی ہے۔
شوگرملز کے خلاف کارروائی جس سست روی کا شکارہے،اس سے بھی عوام میں مایوسی پھیلی ہے۔مرے پرسو درے کے مصداق اوگرا نے یکم اگست سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ساڑھے نو روپے فی لٹر تک بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ سمری کے مطابق پٹرول سات روپے فی لٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل ساڑھے نو روپے، لائٹ ڈیزل اورمٹی کا تیل چھ روپے فی لٹر مہنگا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
کورونا وبا کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی تھی تو پٹرول بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتا رہا اور عوام اس کے حصول کے لیے در درکی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ہرچیزکے دام بڑھ جاتے ہیں،لہذا وفاقی حکومت کو عوام پر تھوڑا سا ترس کھاتے ہوئے،اس اضافے سے گریزکرنا چاہیے۔ملکی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالیں تو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹرظفرمرزا اور معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایڈروس سے استعفے لے لیے گئے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا ادویات کی قیمتوں سے متعلق الزامات کی زد میں تھے، انھوں نے مختلف ڈونر ایجنسیزکے نو مشیر رکھے تھے ،اس کے باوجود وزیراعظم ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ تانیہ ایڈروس نے ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن کو ای سی پی میں بطور پرائیوٹ کمپنی رجسٹرڈ کروایا تھا،اس معاملے پر تانیہ ایڈروس انکوائری میں تسلی بخش جواب نہ دے سکی تھیں۔ خود احتسابی کا ایک اچھا عمل ہے، جو حکومتی سطح پر اسی طرح جاری رہنا چاہیے۔
قومی اسمبلی نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2020 اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل ایکٹ 1948میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظورکرلیا ہے، جب کہ دوسری جانب سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) پر ایک بار پھر برہمی کا اظہارکیا اور ریمارکس دیے ہیں کہ نقائص پر مبنی تحقیقات کو ریفرنس میں بدل دیا جاتا ہے ،30 روز میں ریفرنس پر فیصلہ کو یقینی بنایا جائے۔ ایک ماہ کے اندر فیصلہ قانون میں لکھا ہے۔
تبدیلی کے نام پر عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے تھے، حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی معیشت میں استحکام کے ساتھ عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ عوام کو تبدیلی کے حقیقی ثمرات مل سکیں۔
The post سیوریج سسٹم کی فرسودگی اور حکومتی کارکردگی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3gfA1Rh
0 comments:
Post a Comment