یہ بظاہر ایک معمولی سا واقعہ ہے لیکن یہ واقعہ قوموں کے عروج وزوال کا بنیادی اصول ہے‘ یہ اصول ثابت کرتا ہے کس قوم اور کس انسان نے آگے جانا ہے اور کس نے پیچھے‘ نوول کورونا کا سب سے بڑا اور پہلا ہدف سیاحتی انڈسٹری تھی۔
دنیا میں سیاحتی انڈسٹری کا والیم تین ہزار ارب ڈالر ہے گویا صرف ایک انڈسٹری ہر سال دنیا میں تین ہزار ارب ڈالر سرکولیٹ کرتی ہے‘ یہ رقم دنیا میں پچاس کروڑ لوگوں کی معاشی ضروریات پوری کرتی تھی‘ کورونا آیا اور اس نے پندرہ دن میں پوری دنیا کی سیاحت بند کر دی‘ جو شخص جہاں تھا وہ وہیں تک محدود ہو کر رہ گیا‘لوگ ائیرپورٹس اور ہوٹلوں میں پھنس گئے‘ میں مسافر بھی سیاحتی انڈسٹری کے متاثرین میں شامل ہوں۔
مسافرسیاحت کا دائمی مریض ہے‘ اس کے پائوں میں باقاعدہ خارش ہوتی رہتی ہے‘ یہ اگر دس پندرہ دن بعد اپنے کوکون سے باہر نہ جھانک سکے تو یہ ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ چھ ماہ سے مقید ہے لہٰذا آپ اس کی جذباتی حالت کا خود اندازہ کر لیجیے‘ ہمارا ہم خیال گروپ بھی ایسی ہی صورت حال کا شکار ہو گیا‘ ہمارے ایک سیاح دوست ہیں عامر قریشی‘ یہ کراچی میں اسکولز چلاتے ہیں‘ یہ ہم خیال کے نام سے متفق نہیں تھے چناں چہ انھوں نے اسے بدل کر ’’ہم قدم‘‘ رکھ دیا۔
ہمارے گروپ نے اسے بھی قبول کر لیا لہٰذا اب ہمارا گروپ کراچی میں ’’ہم قدم‘‘ اور اسلام آباد اور لاہور میں ’’ہم خیال‘‘ بن چکا ہے‘ ہم قدم کے ممبرز بھی ساڑھے چار ہزار ہو چکے ہیں گویا ہم اب ساڑھے نو ہزار سیاح ہیں‘ یہ سب بھی ’’خارش‘‘ کا شکار ہیں‘ یہ روز دعا کرتے ہیں کورونا ختم ہو اور یہ رسی تڑوا کر ملک سے باہر بھاگیں‘ گھومیں‘ پھریں‘ واپس آئیں اور پھر کسی اور طرف نکل جائیں لیکن سیاحت ابھی نہیں کھلی‘ یورپ نے صرف یورپی باشندوں کے لیے آمدورفت کھولی ہے‘ مصر‘ اردن اور مراکو بھی خاموشی سے کورونا کے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔
سینٹرل ایشیا میں بھی سناٹا ہے اور مشرقی یورپ میں بھی الو بول رہے ہیں چناں چہ دنیا ابھی تک بند ہے تاہم ترکی دنیا کا واحد ملک ہے جس نے سیاحتی سرگرمیاں بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ عید کے بعد یہ آہستہ آہستہ کھل جائے گا اور ترکش ائیر لائین سیاحوں کو لے جانا اور واپس لانا شروع کر دے گی‘ ہم خیال اور ہم قدم گروپ نے ترکی جانے کا فیصلہ کر لیا‘ مجھے ترکی ایمبیسی سے رابطہ کرنے کا حکم جاری ہوا اور یہاں سے وہ واقعہ شروع ہوتا ہے جس کا ذکر مسافر نے کالم کے شروع میں کیا تھا۔
میں نے ترک سفیر احسان مصطفی یارداکل کو میل کر دی‘ ہم نے اپنے گروپ کا تعارف کرایا اور سفیر سے درخواست کی ہم پانچ سو لوگ گروپس میں ارطغرل سائیٹس وزٹ کرنا چاہتے ہیں‘ ہم اس سلسلے میں آپ کے متعلقہ لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں‘ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے‘ ہمیں اسی دن سفیر کا جواب آ گیا‘ سفیر نے ہماری اگلے دن کے لیے قونصلر کے ساتھ ملاقات طے کر دی‘ شام تک ہمیں قونصلر کی طرف سے بھی میل آگئی اور ایمبیسی سے فون بھی‘ ہماری دوسرے دن صبح قونصلر سے ملاقات تھی‘ مسافر پہلی مرتبہ ترکش ایمبیسی گیا تھا‘ یہ نہ صرف ایمبیسی کے اسٹاف کا رویہ دیکھ کر حیران رہ گیا بلکہ جب ہم سے پوچھا گیا ’’آپ کے گروپ کو ہم سے کیا کیا مدد چاہیے‘‘ تو یہ پریشان ہوگیا۔
مسافر کا خیال تھا ایمبیسی لمبی چوڑی فہرست تھما دے گی لیکن الٹا ہم سے پوچھا جا رہا تھا ’’آپ کو کیا کیا مدد چاہیے‘‘ یہ حیران کن تھا‘ ترک قونصلر خاتون ہیں‘ ان کا نام سیوگی ارس آنر ہے‘ یہ باقاعدہ اسکارف اور اسلامی لباس میں تھیں‘ یہ پاکستان آنے سے پہلے سربیا میں کام کر چکی ہیں اور یہ ہمیں بہنوں جیسی محبت اور احترام کے ساتھ ملیں‘ ترکش کافی پلائی اور ترکی اور پاکستان کی باتیں کیں‘ آپ خاتون کا رویہ ملاحظہ کریں‘ اس نے بتایا‘میری مدت ملازمت ختم ہو چکی ہے‘ میں ستمبر میں ترکی واپس چلی جائوں گی لیکن میں جانے سے پہلے آپ کے گروپس کے زیادہ تر ویزے جاری کر کے جائوں گی تا کہ آپ لوگوں کو بار بار ایمبیسی نہ آنا پڑے۔
یہ پروفیشنل ازم اور ملک سے محبت کی علامت تھی‘ خاتون بڑے آرام سے کہہ سکتی تھیں میں ایک ڈیڑھ ماہ میں واپس چلی جائوں گی‘ آپ اگلے قونصلر سے ملاقات لیجیے گا لیکن اس نے ذمے داری کو ذمے داری محسوس کیا‘ ہم پاکستانی عام حالات میں بھی کام نہیں کرتے لیکن اگر ہماری مدت ختم ہو رہی ہو یا ٹرانسفر ڈیو ہو تو ہم چھ ماہ پہلے ہی کام بند کر دیتے ہیں‘ پاکستان کے کسی دفتر میں باس نے لطیفہ سنایا‘سارے ماتحتوں نے دل کھول کر قہقہے لگائے‘ صرف ایک ماتحت سنجیدہ منہ بنا کر بیٹھا رہا۔
افسر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا ’’کیا تمہیں یہ لطیفہ اچھا نہیں لگا‘‘ ماتحت ذرا سا مسکرایا اور بولا ’’سر میرا ٹرانسفر ہو چکا ہے‘ میں اب آپ کے فضول لطیفوں پر ہنسنے کا پابند نہیں ہوں‘‘ ہم لوگ مزاجاً ایسے ہیں‘ ہم ٹرانسفر کے بعد لطیفوں پر بھی ہنسنا بند کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے ترک بھائی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد بھی کام مکمل کرنا چاہتے ہیںاور یہ وہ اسپرٹ ہے جو قوموں کی منزل اور سمت طے کرتی ہے۔
سیاحت دنیا میں سب سے زیادہ منافع بخش انڈسٹری ہے‘ آپ دوسری انڈسٹریز کے لیے پہلے سرمایہ اکٹھا کرتے ہیں‘ کمپنیاں بناتے ہیں‘ فیکٹریاں یا کارخانے لگاتے ہیں‘ پڑھا لکھا اور کارآمد اسٹاف بھرتی کرتے ہیں‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کے بل بھرتے ہیں‘ اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرتے ہیں‘ ایکسپورٹ اور امپورٹ کے محکموں سے لڑتے ہیں اور پھر دو تین نسلوں کے بعد دوسرے ملکوں میں اپنی مارکیٹ قائم کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں جب کہ سیاحتی انڈسٹری میں آپ نے صرف مارکیٹنگ کرنی ہوتی ہے۔
ْآپ نے دنیا کو اپنے ملک‘ اپنی قوم کا اچھا چہرہ پیش کرنا ہوتا ہے اور دنیا بھر کا سرمایہ آپ کی طرف دوڑ پڑتا ہے اور سیاحت کی مارکیٹنگ ایمبیسیوں‘ ویزہ سروس اور ائیرپورٹس سے شروع ہوتی ہے‘ سیاحوں کو اگر ایمبیسیاں ریسپانس نہیں کریں گی‘ سیاحوں کواگر ویزوں کے لیے دو دو ماہ دھکے کھانا پڑیں گے اور یہ اگر ملک میں لینڈ کر کے ائیرپورٹس پر ذلیل ہوتے رہیں گے تو پھر یہ آپ کے ملک میں کیوں آئیں گے؟
ترکی اس سائنس کو اچھی طرح سمجھتا ہے چناں چہ اس نے یہ تینوں ایشوز دہائیوں پہلے ختم کر دیے‘ ہمیں صدر طیب اردگان کو بھی داد دینی ہو گی‘ یہ ترکی میں سیاحت کے ’’اتاترک‘‘ہیں‘ اردگان نے پندرہ برسوں میں ترکی کو پوری دنیا کے لیے کھول دیا‘ آپ آج آرمینیا کی سرحد سے ایران کی سرحد اور یورپ کی سرحدوں سے لے کر بلیک سی تک پورے ترکی کو دیکھ لیں آپ کو ہر شہر میں سیاحوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ ملیں گے‘ ٹھنڈے ملکوں کے سیاح استنبول‘ ازمیر اور اناطولیہ کے گرم ساحلوں کا رخ کرتے ہیں‘ یہ میڈی ٹیرین اور ایجین سی کے ساتھ ساتھ دکھائی دیتے ہیں جب کہ گرم ملکوں کے سیاح بلیک سی اور ترابزن جیسے ٹھنڈے شہروں میں نظر آتے ہیں۔
کیپا ڈوشیا اور قونیا کی تو کیا ہی بات ہے‘ دجلہ اور فرات دونوں دریا ترکی سے نکلتے ہیں‘ ان دونوں دریائوں کے درمیان میسا پوٹیما کی سولائزیشن پروان چڑھی تھی چناں چہ حضرت ابراہیم ؑ کا نمرود سے مقابلہ ہو یا پھر حضرت ایوب ؑ کے ابتلا کے 18 سال ہوں ان کے آثار ترکی میں ہیں‘ حضرت مریم ؑحضرت عیسیٰ ؑکے بعد ترکی شفٹ ہوگئی تھیں‘ آپ ؑ کا گھر آج تک ترکی میں موجود ہے چناں چہ سیاحوں کو تاریخ‘ ثقافت اور تفریح سے لے کر رقص تک سیاحت کی ساری سہولتیں ترکی میں ملتی ہیں اور ترکی ان سہولتوں سے ہر سال50 ارب ڈالر کماتا ہے جب کہ ہماری کل ایکسپورٹس 17 بلین ڈالر ہیں۔
آپ طیب اردگان کا کمال دیکھیے یہ ترکی کو دنیا کے دس بڑے سیاحتی ملکوں کی فہرست میں لے آئے ہیں‘ ترکی فرانس‘ اسپین‘ اٹلی اور برطانیہ کی ٹورازم انڈسٹری کو ٹف ٹائم دے رہا ہے لہٰذا یورپ اور عرب دنیا کے سیاحتی ملک ہر سال مارچ اپریل میں ترکی میں کوئی نہ کوئی دھماکا کراکر یا مغربی میڈیا میں ترکی کے بارے میں منفی خبریں پھیلا کر ترکی کی سیاحتی انڈسٹری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود ترکی کے سیاحتی اعصاب نہیں توڑ پا رہے‘ یہ ترک سیاحت کو نقصان نہیں پہنچا سکے۔
اس کی بے شمار وجوہات ہوں گی لیکن جہاں تک مسافر کا خیال ہے اس کی وجہ ترکی کا ٹورازم ماڈل ہے‘ یہ پہلا سیاحتی ملک تھا جس نے آن لائن ویزے کی سہولت دی‘ ایمبیسیوں کا عملہ مہمان نواز ہے اور یہ بہت جلد ریسپانس کرتا ہے اور پورے ملک میں سیاحوں کو عزت اور سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔
ہم پاکستان کو بھی سیاحتی ملک بنانا چاہتے ہیں چناں چہ مسافر کا حکومت کو مشورہ ہے ہم کچھ نہ کریں ہم بس ملک میں ٹورازم کا اردگان ماڈل متعارف کرا دیں‘ جو ترکی نے کیا اور جو ترکی کر رہا ہے ہم بس وہ کرتے چلے جائیں‘ پاکستان بھی چند برسوں میں سیاحتی ملکوں کی فہرست میں شامل ہو گا ‘ وزیراعظم ذلفی بخاری کو ترکی بھجوائیں‘ یہ انقرہ میں بیٹھ کر ترک ٹورازم ماڈل اسٹڈی کریں‘ سیاح کی حیثیت سے ترکی میں گھومیں اور پھر اردگان ماڈل پاکستان میں نافذ کر دیں‘ آپ یقین کریں ہمیں اس وقت کسی غیرملکی ماڈل کی ضرورت نہیں‘ہمارے لیے برادر اسلامی ملک کا تجربہ کافی ہوگا‘ طیب اردگان بھی ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں‘ آپ ان کا ہاتھ تھام لیں‘ آپ فائدے میں رہیں گے۔
نوٹ:آپ ان نمبروں پر رابطہ کر کے خود کو ہم خیال گروپ میں رجسٹرڈ بھی کرا سکتے ہیں اور ہمارے ساتھ ترکی بھی جا سکتے ہیں۔
+92-333-5990380, 0331-3334562, 0331-5637981
The post سیاحت کا اردگان ماڈل appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33cL2yQ
0 comments:
Post a Comment