Ads

حلوہ کھا نے والے

آئین کے آرٹیکل 91(6)کے مطابق ’’کابینہ اور وزراء مملکت مشترکہ طور پر سینٹ اور قومی اسمبلی کو جوابدہ ہوں گے‘‘۔آئین صرف وزیر اعظم‘ کابینہ‘ مرکزی وزراء اور وزراء مملکت کو تسلیم کرتا ہے‘ وزیراعظم کے زیادہ سے زیادہ پانچ مشیروں کو بھی آئین تسلیم کرتا ہے ‘جو اس وقت موجود ہیں لیکن آئین وزیر اعظم کے کسی بھی سپیشل اسسٹنٹ کو تسلیم نہیں کرتا‘وزیر اعظم کے سپیشل اسسٹنٹ کے تقرر کے لیے کوئی واضح قانون بھی موجود نہیں ہے‘ کسی بھی بیوروکریٹ کو کسی خاص کام کے لیے یہ عہدہ دیا جا سکتا ہے۔یہ بھی ایک قانونی مسئلہ ہے کہ کیا وزیر اعظم کسی بھی غیر منتخب فرد کی تقرری کرنے کے بعد اس کو کابینہ کا ممبر بناکر اس کو پارلیمنٹ کے منتخب ممبر کے برابر مراعات اور حیثیت دے سکتا ہے؟۔

اب یہ امر واضح ہوچکا ہے کہ وزیر اعظم امور مملکت کے سارے کام اپنے ان چودہ غیرمنتخب مشیروں اور نائبین کے ذریعے چلا رہے ہیں‘یہ تمام پارلیمنٹ کے منتخب ارکان نہیں ہیںلیکن وہ کابینہ ارکان کے مراعات حاصل کر رہے ہیں‘جو واضح طور پر خلاف آئین ہے۔اس وقت آئین میں دیے گئے حدود کے مطابق کابینہ کی تعداد 50ہے ‘اس میں تمام غیر منتخب مشیران وغیرہ بھی شامل ہیں‘یہ ارکان پارلیمنٹ کو خطاب نہیں کر سکتے اسی لیے دوسرا بجٹ ہے جو تیار تو حفیظ شیخ کرتے ہیں لیکن اسمبلی کے اندر پیش حماد اظہر کرتے ہیں‘ یہ صورت حال دونوں کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ وزیر داخلہ تو بریگیڈئر اعجاز شاہ صاحب ہیں لیکن ان کے اوپر داخلہ امور کے نائب خصوصی شہزاد اکبر کو مقرر کر دیا‘بے چارے علی محمد نے بڑی منت سے پارلیمانی امور کی وزارت مملکت حاصل کی لیکن ان کے اوپربابر اعوان صاحب کو مقرر کرکے اختیارات ان کو دے دیے‘ پاکستان حقیقت میں شہر ناپرسان بن گیا ہے۔

سارا قصہ فواد چوہدری کے امریکی ٹی وی کو انٹرویو سے شروع ہوا تھا‘اس انٹرویو کے ان حصوں کو میڈیا نے اہمیت دی جس میںبعض وزراء کے درمیان اندرونی جھگڑوں کا ذکر تھا‘حالانکہ اس انٹرویو میں فواد چوہدری نے یہ اہم انکشاف کیا تھا کہ ’’حکومت غیر منتخب افراد کے ہاتھوں چلائی جا رہی ہے‘‘ ان افراد کی کوئی دلچسپی یا مفاد اس حکومت کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے ‘یہ انکشاف بہت اہم ہے اور اس عمل کی وجہ سے ملک کے جمہوری عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

آئینی پوزیشن یہ ہے کہ اگر کوئی فرد دہری شہریت کا مالک ہو تو وہ قومی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا ‘پاکستان کے اندر کوئی الیکشن نہیں لڑ سکتا‘اگر کوئی فرد قانون سے بچ کر ایسا کرتا ہے تو اس کو بعد میں عدالتیں نا اہل قرار دے دیتی ہیں لیکن ریاست مدینہ کے قانون کے مطابق ‘ وہ فرد وزیر اعظم کا مشیر بھی بن سکتا ہے ‘کابینہ کا ممبر بھی بن سکتا ہے ‘فارن نیشنل کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں بیٹھنے کا حق نہیں لیکن وہ کابینہ کا ممبر بن کر ایوان میں بھی بیٹھ سکتا ہے ‘ملک کے اہم فیصلوں میں شریک بھی ہو سکتا ہے ‘ بشرط یہ کہ وہ خان صاحب کا دوست ہو‘یہ صرف عمران خان کی سربراہی میں ہو سکتا ہے جنہوں نے ماضی میں ہمیشہ فارن نیشنل کو غدار اور وطن دشمن کہا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ٹی وی پر ایک مزاحیہ خاکہ دیکھا‘ ایک نشئی انٹرویو دے رہا تھا‘اپنی بات کرتے کرتے اچانک بولتا ہے کہ میں بڑا اہم فرد ہوں، یاد رکھو میں وزیر اعظم بھی بن سکتا ہوں‘؟ انٹرویو لینے والا ہنس کر بولا ،آخر کیسے؟وہ جواب میں جیب سے شناختی کارڈ نکالتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ بھی ہے جب کہ نگران وزیراعظم کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں ہے‘ اس کا اشارہ محترم معین قریشی کی طرف تھا‘اس ملک خداداد میں عجیب واقعات ہوتے رہتے ہیں‘پاکستان کی سیاست کا  ایک پرانا لیکن سبق آموز خبر لیکن اس سے پہلے ایک سبق آموز کہانی قارئین کی دلچسپی کے لیے حاضر ہے۔

پرانے زمانے میں‘ ایک ملک میں انتقال اقتدار کا عجیب طریقہ رائج تھا‘۔ جب بادشاہ فوت ہوجاتاتو صبح شہر کے بڑے دروازے کے کھلتے ہی جو مسافر پہلے شہر میں داخل ہوتااس کو تاج پہنا کر بادشاہ بنا لیا جاتا‘بادشاہ سلامت کی موت کے بعد‘رواج کے مطابق صبح سویرے تمام وزراء اور امراء سلطنت کی موجودگی میں جب دروازہ کھولا گیا تو صرف ایک فقیر باہر بیٹھا تھا‘ درباریوں نے دوڑ کر اس کو کندھوں پر اٹھا لیا‘ڈھول بجنے لگے اور ’’بادشاہ سلامت زندہ باد‘‘کے نعروں میں فقیر کو شاہی محل پہنچا دیا گیا‘ وزیر با تدبیر نے انھیں بادشاہ بننے کی مبارک باد دی اور ان کو بادشاہی کے طور طریقے بتائے۔

ملازم شاہی خلعت لے کر آیا‘ اس نے ملازم کو اپنی فقیری کی گدڑی اورکشکول دے کر سنبھال کر رکھنے کی تاکید کی ‘شاہی خلعت زیب تن کیا‘چونکہ بھوکا تھا اس لیے حکم صادر کیا کہ ناشتہ لے آؤ مگر اس میں حلوہ ضرور ہو۔بادشاہ سلامت کو حلوہ بہت پسند تھا ‘اس لیے قسم قسم کے حلوے کھانے کی فرمائش کرتا رہتا۔ایک دن وزیر نے ان سے کہا کہ بادشاہ سلامت دشمن سرحد پر فوج جمع کر رہا ہے‘ ہمارے جاسوسوں نے اطلاع دی ہے کہ ان کے ارادے اچھے نہیں ہیں‘ بادشاہ سلامت نے نوکر کو آواز دی ‘حلوہ لے آؤ۔

وزیر نے ان سے پھر پوچھا کہ ان حالات میں کیا حکم ہے ‘بادشاہ سلامت نے کہا کہ وزیر صاحب ان معاملات میں جو تمہارے دل میں آئے کرو‘ہفتے کے بعد وزیر نے کہا کہ دشمن کی فوج نے سرحد پار کرکے ہمارے شہروں پر قبضے کرنا شروع کر دیے ہیں‘بادشاہ سلامت نے سنی ان سنی کرکے نوکر کو آواز دی !حلوہ ‘ چند دنوں کے بعد خبر آئی کہ دشمن کی فوجیں شہر پر شہر فتح کرتے ہوئے دارالحکومت کی طرف بڑھ رہی ہیں‘ایک دن وزیر نے پریشانی کے عالم میں کہا‘ بادشاہ حضور دشمن نے شہر پر قبضہ کر لیا ہے اور اب اس کی فوج محل کی طرف آرہی ہیں‘اس نے نوکر سے کہا کہ جلدی سے حلوہ لے آؤ اور میری گدڑی اور کشکول بھی لے آؤ‘ حلوہ کھانے کے بعد گدڑی پہنی اور کشکول ہاتھ میں لے کر عقبی دروازے کی طرف بھاگا۔

وزیر اور مصاحبین نے آواز دی حضور کہاں جارہے ہیں‘اس نے جواب دیا کہ حضور گیا بھاڑ میں ‘میں تو حلوہ کھانے کے لیے یہاںٹہرا تھا‘اب جب دشمن آرہا ہے تو میں یہاں کیا کروں گا‘ اب تم جانو اور تمہارا ملک‘‘۔اب خبر کی کہانی‘ شوکت عزیز کوجنرل مشرف نے پہلے ممبر پارلیمنٹ اور پھر وزیر اعظم بنایا‘15نومبر 2007کو ان کی حکومت ختم ہوئی ‘ان کے بارے میں7جنوری 2008 کی ایک اخباری خبرملاحظہ کیجیے۔

’’پاکستان کے دوسرے سب سے زیادہ عرصہ وزیر اعظم رہنے والے شوکت عزیزصاحب اتوار کے روز لندن کے لیے روانہ ہوگئے ‘ان کی جلدی واپسی کا کوئی پروگرام نہیں ہے ‘انھوں نے وزارتی کالونی میں اپنی رہائش گاہ چھوڑ دی ہے‘ تمام بل ادا کردیے اور اپنے اسٹاف کو الوداع کہا‘ان کی اہلیہ بیگم رخسانہ عزیز بھی ان کے ہمراہ تھیں‘وہ لندن میں اپنی بیٹی کی رہائش گاہ میں قیام کریں گے۔

وہ دو ہفتے کے بعد سوئیٹزر لینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم (WEF)کے اجلاس میں بطو ر مہمان خصوصی شرکت کرینگے‘وہ اگلے مہینے انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے بھی پاکستان میں موجود نہیں ہوںگے کیونکہ ڈیواس (Devas) کانفرنس میں شرکت کے بعد وہ اگلے ماہ سعودی عرب جائینگے ‘شوکت عزیز صاحب جاتے ہوئے پارٹی کے کسی رہنما سے بھی نہیں ملے ‘حالانکہ انھوں نے ان کو وزیر اعظم منتخب کیا تھا‘انھوں نے بیرون ملک جانے سے قبل صرف صدر مشرف سے ایک دن قبل الوداعی ملاقات کی۔‘‘

ماضی کی اس کہانی اور حال کے حکومتی طرز عمل میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے‘ ماضی میں عمران خان دہری شہریت اور اقامہ ہولڈروں کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے تھے۔فرمایا کرتے کہ ’’ دہری شہریت والے ایک بریف کیس مافیا ہے ‘یہ ملک کو نقصان پہنچانے ‘ملک کو برباد کرنے آتے ہیں‘ان کی مثال ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہے ‘یہ آتے ہیں سسٹم کو تباہ کرتے ہیں‘ اپنے اور دوستوں کو مالامال کرتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں‘ جن لوگوں کے بچے ‘دولت اور اثاثے باہر ہوں ان کو پاکستان پر حکومت کا کوئی حق نہیں۔باقی قصہ بعد میں۔

The post حلوہ کھا نے والے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Eoxdmz
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment