Ads

کیا یہ ضروری تھا ؟

چوتھی صدی کے اوائل تک عیسائیت کے ماننے والوں پرسختیاں عام تھیں۔ روم کے Pagan بادشاہ کانسٹنٹائن CONSTANTINEنے تختِ سلطنت سنبھالا اوراپنے اقتدار کے ابتدائی سالوں ہی میں اس نے ایک فرمان کے ذریعے یہ سختیاں ممنوع قراردے دیں ،عیسائیوں کے دو گروہوں میں اس دور میں شدید کشمکش جاری تھی۔

ایک گروہ وہ تھا جو سیدناعیسیٰ  ؑ کی الوہیت کا دعوے دار تھا۔دارالحکومت روم میں زیادہ تر عیسائی اسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔دوسرے گروہ کے لوگ سیدنا عیسیٰ  ؑ کی الوہیت کو نہیں مانتے تھے۔یہ ایک بڑا گروہ تھا جس کے پیرو کار مصر، افریقی ممالک اور انطاکیہ میں پھیلے ہوئے تھے۔کانسٹنٹائن کے اقتدار کے دوران اس کے سب سے بڑے بیٹے شہزادہ کرسپس کو عوام میں بہت مقبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی۔

کہا جاتا ہے کہ کرسپس بلا کا تیغ زن اورنڈر تھا۔ایسا لگتا ہے کہ بادشاہ نے اپنے بڑے بیٹے کی مقبولیت کو اپنے اقتدارکے لیے خطرہ جانتے ہوئے،قتل کروا دیا۔ کرسپس کے قتل سے بے چینی نے جنم لیا۔بادشاہ نے اس کے تھوڑے دنوں بعد اپنی پہلی ملکہ فائسٹا کو بھی ایک الزام لگا کر قتل کروا دیا۔شہزادے کے قتل سے جس بے چینی نے جنم لیا وہ ملکہ کے قتل سے ایک گونہ بڑھ گئی۔

بادشاہ نے دونوں کی ہر نشانی مٹوا دی اور ذکر تک ممنوع قرار دے دیا۔ان حالات میں بادشاہ کو اپنی افواج کے علاوہ عیسائیوں کو اپنے ساتھ ملانے کا خیال آیا ادھر عیسائیوں کے لیے یہ ایک نادر موقع تھا کیونکہ اب تک انھیں کار گاہِ شیشہ گری میں سانس بھی آہستہ لینا پڑتا تھا۔کانسٹنٹائن یہ بھی چاہتا تھا کہ عیسائیوں کے دونوں گروہ اس کی حمایت پر یکساں کمربستہ ہوں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بادشاہ نے عیسائی مذہب کی تاریخ کا اہم اور مشہور اجلاس کونسل آف نیسیا 326عیسوی میں منعقد کیا۔

اس کونسل کے فیصلے نیسین کرِیڈNicean Creed  آج تک عیسائییت کی بنیاد ہیں۔ کانسٹنٹائن نے ایک غیر عیسائی حکمران ہوتے ہوئے اس اجلاس کی خود صدارت کی۔ بادشاہ جو لباس پہن کر صدارت کرنے کے لیے آیا وہی لباس سکارلٹ جوتوںسمیت اب تک روم میں پوپ کا لباس ہے۔اس اجلاس میں بائیبل کے تین سو سے اوپر مختلف نسخے زیرِبحث تھے۔بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ تمام نسخوں کو میزوں کے اوپر رکھ کر اجلاس کے شرکاء باہر چلے جائیں اور اگلے دن مزید کارروائی کے لیے دوبارہ جمع ہوں۔ اجلاس گاہ کی چابی شاہی اہلکاروں کو دے دی گئی۔

اگلی صبح جب شرکاء واپس لوٹے تو بائیبل کے صرف چار نسخے ، میتھیو،مارک، لُوک اور جان ، میز کے اوپر پڑے ہوئے تھے باقی سب زمین پر تھے۔بادشاہ نے کہا کہ بس فیصلہ ہو گیا یہی چار نسخے بائیبل کے نئے عہد نامے کی بنیادی کتابیں ہوں گے۔بادشاہ کی طرف سے حکم نامہ جاری ہو گیا کہ ان چار نسخوں کے علاوہ باقی تمام نسخے تلف کر دیے جائیں ۔اسی اجلاس میں سورج دیوتا اور متھرا دیوتا کی تاریخ پیدائش پچیس دسمبر کو یسوع کی تاریخ پیدائش قرار دیا گیا۔اسی طرح سورج دیوتا کی پوجا کے دن اتوار کو عیسائی عبادت کا دن قرار دیا گیا۔

2003میں ترک قبرصی شہر فاماگسٹا میں ایک کانفرنس منعقد ہونا تھی لیکن ایک کنفرمیشن کی کمی سے کورم پورا نہیں ہو رہا تھا اس لیے ترکی نے پاکستان کو شرکت یقینی بنانے کی درخواست کی۔ ضروری منظوری کے بعد میں استنبول کے راستے فاماگستا روانہ ہو گیا۔فاماگستا سے چند کلومیٹر دور وروشا کے تاحدِنگاہ ریتلے ساحل پر ایگور ہوٹل میں ٹھہرنے کا بندوبست تھا۔  ترک وفد کے ہمراہ مصطفیٰ پاشا مسجد دیکھی۔پتہ چلا کہ اس کو 1278 عیسوی میں ایک چرچ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔

یہ عمارت گوتھک طرزِ تعمیر کا لاثانی نمونہ تھی اور فرانس سے باہر اس طرزِ تعمیر کا یہ سب سے بڑا چرچ تھا۔ پہلے اس کا نام کیتھڈرل آف سینٹ نکولس تھا جو بعد میں بدل کر کیتھڈرل آف صوفیہ کر دیا گیا۔ عثمانی سلطنت کے زیرِ نگیں آنے پر اس کے اوپر ایک چھوٹا سا مینار تعمیر کر کے اور اس کے اندر سے قربان گاہ، مجسمے۔ فریسکوز اور عیسائی تصویریں ہٹا،مٹا اور پلاسٹر کر کے ایک مسجد بنا دیا گیا۔ مغرب کی نماز اس مسجد میں ادا کی لیکن اچھا نہیں لگا کیونکہ ابھی بھی وہ شاندار عمارت مسجد کم اور گرجا زیادہ لگ رہی تھی۔یہی حال نکوسیا کی سب سے بڑی مسجد کا تھا اسے بھی چرچ سے مسجد بنایا گیا تھا۔

کانفرنس کے اختتام پر واپس استنبول پہنچ کر آیا صوفیہ دیکھا اور پھر کئی بار دیکھنے کا موقع ملا۔یہ ایک بہت بڑی اور کافی شاندار عمارت ہے۔اس کے نچلے حصے میںتو عیسائیت کے اتنے آثار نہیں لیکن اوپر گیلری میں جابجا تصویریں،میورلز،فریسکوز اور عیسائیت کے بے شمار آثار نظر آ رہے تھے۔چونکہ یہ عمارت ایک لمبے عرصے تک مسجد رہی اس لیے منبر کے ارد گرد اسلامی کتبے آویزاں تھے لیکن مجموعی طور پر عمارت کسی طور بھی مسجد نہیں بلکہ غیر اسلامی شعائر کی حامل نظر آئی۔

استنبول میں بیشمار مساجد ہیں۔آیا صوفیہ سے چند گزکے فاصلے پر اپنے طرزِ تعمیر اور خوبصورتی میں یکتا بلیو مسجد ہے۔میں مانتا ہوں کہ میں اسلامی علوم کا ہرگز ماہر نہیں ہوں لیکن ایک عمومی خیال ہے کہ ہمارے پیارے دین نے بچوں ،بوڑھوں، خواتین، درختوں، کھڑی فصلوں اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے اور تصرف میں لینے سے اجتناب کرنے کی ترغیب دی ہے۔یہ غیروں کی روایت رہی ہے کہ ان کا جہا ں بھی بس چلا مسلمان مساجد کو بزور تباہ کر دیا۔قرطبہ او ر یورپ کی بیشمار مساجد اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ صلیبی جنگوں میں عیسائیوں نے یہی سلوک مسجد اقصیٰ کے ساتھ کیا۔

مسلمانوں کا اتنا خون بہایا گیا کہ ایک فرانسیسی عیسائی مورخ نے لکھا کہ قتلِ عام اس وقت رکا جب کوئی مسلمان قتل ہونے کے لیے باقی نہ رہا۔لیکن خاتم النبینﷺ کے پیارے اسوہ کی روشنی میں مسلمانوں نے بہت کم ایسا کیا۔روم سے باہر استنبول میں تعمیر ہونے والا یہ پہلا چرچ ہے اس لیے اس کی ایک مذہبی اور تاریخی اہمیت ہے۔اﷲ کے آخری نبی کو یہ خصوصیت بخشی گئی کہ ان جگہوں کو چھوڑ کر جہاں گندگی ہو یا غیر اﷲ کی پوجا کی جاتی ہو باقی ساری روئے زمین عبادت کے لیے پاک ہے،ایسے میں آیا صوفیہ جو بنا ہی غیر اﷲ کی عبادت کے لیے تھا، دوبارہ مسجد بنانے کی آخر کیا ضرورت تھی ۔دوسرے اگر ناپسندیدہ کام کریں تو ہمیں اچھے کام سے اچھی مثال قائم کرنی چاہیے۔

The post کیا یہ ضروری تھا ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Po9Snz
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment