Ads

سندھ کا مسئلہ

بڑا انتظار تھا اس دن کا جب وفاق اور سندھ کے درمیان اختلافات ختم ہوں اور دونوں حکومتیں ساتھ مل کر صوبہ سندھ کی بھلائی اور عوام کی خوشحالی کے لیے کام کریں، انتظار ختم ہوا اور وفاق اور سندھ نے متحد ہو کر ایک چھ رکنی کمیٹی بنائی جو کراچی سمیت صوبائی مسائل حل کرنے کے لیے کام کرے گی۔

ہماری دیسی جمہوریت میں اس قسم کے اختلافات عام ہیں۔ یہ اتحاد اس وقت قابل مبارکباد ہے جب اتحاد برقرار رہے اور کسی طرف سے کسی حوالے سے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کی جائے۔ سیاست میں سیاسی اتحاد کے پیچھے ہمیشہ پیسہ ہوتا ہے خواہ اس کو کتنے پردوں کے پیچھے چھپائیں۔ یا سیاسی مفادات ہوتے ہیں جس کے پیچھے بھی کسی نہ کسی طرح مالی امور ہوتے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی پہچان ہیں خواہ اس قسم کے مسائل کسی حکومت میں کیوں نہ ہوں۔ پاکستان اگرچہ ایلیٹ کی چراگاہ ہے لیکن رکھ رکھاؤ کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ جمہوریت ہمیشہ عوامی مفادات کی ترجمانی کرے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو سال سے سندھ اور وفاق کو اس یکجہتی کا خیال کیوں نہ آیا اگر یہ اتحاد دو سال پہلے ہوتا تو آج سندھ کا نقشہ بدل چکا ہوتا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری جمہوریت صرف اوپر سے نظر آنے والی جمہوریت ہے ورنہ اندر سے سخت قسم کی آمریت ہے جو دیدہ بینا کو نظر بھی آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 72 سالوں میں کبھی یہاں وہ جمہوریت نظر ہی نہیں آئی جو کتابوں میں لکھی ہوتی ہے۔

یہاں عام طور پر خاندانی حکمرانیوں کا دوسرا دور دورہ رہا ہے اس کو جمہوریت کا نام دے دیا جاتا ہے۔ہم جس نظام سے گزر کر یہاں تک آئے ہیں وہ جاگیردارانہ تھا اور اب بھی پاکستان کے دو صوبوں میں یہ وحشی نظام جزوی سہی باقی ہے اور اس کی تابانیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جاگیردارانہ نظام ’’میں‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور ’’میں‘‘ پر ہی ختم ہوتا ہے۔

اس میں جمہوریت سما ہی نہیں سکتی ہے۔ پاکستان کو وجود میں آئے 72 سال ہو رہے ہیں اس عرصے میں جمہوریت نام کی چڑیا کبھی پاکستان کی فضاؤں میں دیکھی ہی نہیں گئی۔ بس چند خاندان ہیں جو عوام پر حکومت کر رہے ہیں۔ خاندان اور نام بدلے جاتے ہیں نظام وہی رہتا ہے سکہ شاہی۔ حکمرانوں کے خیر خواہ ایک ڈھونڈو ہزار مل جاتے ہیں جو سارا کام آنکھ بند کرکے کرتے ہیں۔

اصل میں ابتدا ہی سے اشرافیہ پردے کے اندر یا پردے کے باہر رہ کر نظام کو چلا رہی ہے اور جمہوریت چل رہی ہے۔ اس جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ’’عوام لیس‘‘ ہوتی ہے اشرافیہ کے کچھ کاریگر اس ہوشیاری سے گلشن کا کاروبار چلاتے ہیں کہ کسی کو شک نہیں ہوتا کہ گدھا ہے یا گھوڑا ہے۔ جمہوریت میں حکمران عام طور پر ہر ٹرم کے بعد بدل جاتے ہیں جب کہ ہماری جمہوریت میں اللہ کی پناہ صرف دو خاندان عشروں سے چلے آرہے ہیں۔

کیا جمہوریت میں خواہ لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہو انتخابات میں حکمران عام طور پر بدل جاتے ہیں اگر کوئی حکمران کوئی کارنامہ انجام دے تو اسے عوام دوبارہ منتخب کرتے ہیں۔ ورنہ باپ گیا بیٹا آیا کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس کا مشاہدہ ہم پاکستان میں مدتوں سے کر رہے ہیں اور عوام کی بیداری کا یہی حال رہا تو مزید سالوںتک یہی جمہوریت چلتی رہے گی اور عوام کی کھال کھینچی جاتی رہے گی۔ اس کا انحصار عوام کی سمجھ بوجھ اور شعور پر ہے۔

بات چلی تھی سندھ اور وفاق میں ’’عوامی بھلائی‘‘ کے حوالے سے۔ وفاق اور سندھ میں قربت کی جسے ہم نے اتحاد کا نام دے دیا ہے۔ یہ اتحاد ہو یا انڈر اسٹینڈنگ اگر فریقین کی نیت نیک ہے تو چلے گا بھی اور عوام کو فائدہ بھی دے گا لیکن اگر اس کے پیچھے سیاسی مفادات ہیں تو پھر یہ چار دن کی چاندنی والا معاملہ ہوکر رہے گا۔ اس خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں میں کوئی اتحاد نہیں ہوا بلکہ دونوں جماعتیں ’’یکجا‘‘ ہوئی ہیں۔

یہ یکجائی سلامت رہے لیکن ہر جماعت میں ہرجائی بھی ہوتے ہیں جن سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ہرجائی اگر متحرک ہوگئے تویکجائی کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ یہ باتیں ہم ازرائے احتیاط کر رہے ہیں کہ یہ تو یکجائی ہے پکے پکے اتحادوں کا جو حشر ہم نے دیکھا ہے اس کے پیش نظر یکجائی کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔

بات نیت کی ہے اگر نیت نیک ہوگی تو منزل آسان والا معاملہ ہوتا ہے اگر دل میں کچھ زبان پر کچھ ہے تو دس بار کی یکجائی بھی مفید ثابت نہیں ہوتی۔ آج پاکستان سر سے پاؤں تک قرض میں جکڑا ہوا ہے ایسے حالات میں سیاسی جماعتوں میں غیر ذمے داری اور ٹالو کریسی ملک کو سخت نقصان پہنچا سکتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ سرحد پر جب ایک انتہائی دشمن پڑوسی موجود ہو تو ایسے ناموافق حالات میں سیاسی جماعتوں کے درمیان نااتفاقی بلکہ دشمنی انتہائی ناموافق حالات کا سبب بن سکتی ہے حالات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی تحفظات کا شکار ہے اور اعتماد کے فقدان کا بھی شکار ہے جو آج کے پرخطر حالات میں بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

سندھ کو ایک متنازعہ صورتحال کا سامنا ہے مسئلہ بہت جذباتی ہے سیاسی پارٹیوں کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ قومیت کا مسئلہ اندر سے بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ ایسے نازک مسئلے پر کھلی بحث کی جائے۔ سندھ میں اختلاف اصل میں اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان ہے اور اختلاف اتنا شدید ہے کہ اس کو حل کرنے کے لیے بڑے وسیع ظرف کے گفتگو کاروں کی ضرورت ہے، مسئلہ بڑا نازک اور حساس ہے۔

مقامی سندھیوں میں بہت اچھے لوگ بھی ہیں جو دونوں زبانیں بولنے والوں کے بہی خواہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ اردو اور سندھی اسپیکنگ بھائیوں کی طرح مل جل کر رہیں۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ انصاف سے پیش آئیں۔ خاص طور پر ملازمتوں کے حوالے سے نوجوان طبقہ بہت جذباتی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اور کشادہ دل گفتگو کاروں کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے بدگمانیوں کو دور کرنے کے لیے سندھ خصوصاً کراچی کا سروے کیا جائے کہ کسی ادارے میں اردو اور سندھی اسپیکنگ کا تناسب کیا ہے؟ خاص طور پر انتظامی اداروں میں۔

The post سندھ کا مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Qj0rWP
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment