پاکستان کے چاروں صوبوں ‘شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے جہاں ندی نالوں میں طغیانی آئی ہوئی ہے وہیں دریاؤں میں بھی سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی سطح مسلسل بلند ہوتی جا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں بارشوں کے ساتھ دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی سے سیلاب بھی آ سکتا ہے۔
ادھر ملک بھر میں مون سون بارشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔پنجاب کے بالائی علاقے ‘ آزاد کشمیر ‘خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں شدید بارشوں کی لپیٹ میں ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ تیز ہے اور کئی علاقوں میں سیلاب کی کیفیت ہے ‘ کئی علاقوں میں کچے گھر گرنے کے باعث جانی نقصانات بھی ہو رہے ہیں۔
سندھ کا ذکر کیا جائے تو حالیہ مون سون میں یہاں ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں۔کراچی کا حال تو سب کے سامنے ہے‘ کراچی میں مون سون بارشوں کا 7واں اسپیل شروع ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق رواں مون سون سیزن میں اب تک کراچی میں معمول سے 220 فیصد زائد بارشیں ہوچکی ہیں جب کہ اگست میں بارشوں کے کئی ریکارڈ بھی ٹوٹ چکے ہیں۔کراچی میں حالیہ بارشوں سے شہر کا تقریباًسارا انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز گورنر ہاؤس سندھ کے قریب سڑک زمین میں دھنس گئی،جس کی وجہ سے وہاں ایک ٹریلر پھنس گیا ، کورنگی انڈسٹریل ایریا، جام صادق پل اور کازوے پر ٹریفک بری طرح جام ہو گئی۔ کے پی ٹی انٹرچینج اور قیوم آباد میں بھی گاڑیوں کی لمبی قطاریںلگی رہیں ۔
اداروں کی ناکامی ‘وفاقی اور سندھ حکومت کی چپقلش اور وزراء کی بے تکی بیان بازیوں نے شہریوں کو اس قدر ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا کہ تنگ آ کر گزشتہ روز کراچی کلفٹن اور ڈیفنس کے رہائشی سڑکوں پر آ گئے۔انھوں نے شدیدحکومتی اداروں کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرہ کیا،شہریوں کی سی بی سی کے عملے سے تلخ کلامی بھی ہوئی‘مظاہرین کنٹونمنٹ بورڈ کے دفتر میں گھس گئے اور حکام کے خلاف شدید نعرے بازی کی،مشتعل شہری نو مور ٹیکس اور پولیس کے خلاف نعرے بلند کرتے رہے اوران کی پولیس کے ساتھ دھکم پیل بھی ہوئی ۔پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کرتی رہی تاہم مظاہرین کی جانب سے بھرپور مزاحمت کی گئی۔بعض اطلاعات کے مطابق پولیس نے شہریوں پر لاٹھی چارج بھی کیا۔ بہر حال معاملات سدھر گئے ۔
یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی‘اسے سمجھنے کے لیے کسی سائنسی یا حساب کے سوال کو حل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ذرا سوچیے کہ کراچی کے جن علاقوں میں بارشوں کے بعد سڑکیں تالاب بن جائیں‘بارش کا پانی شہریوں کے گھروں میں داخل ہو جائے‘ان کا قیمتی سامان بارش کے پانی کی نذر ہو جائے اور اوپر سے ظلم یہ ہو کہ پانی کا نکاس بھی نہ ہو اورپھر بجلی بھی بند ہو جائے ‘وہ متعلقہ اداروں کے دفاتر میں شکایت درج کرانے کے لیے ٹیلی فون کریں تو وہاں کوئی اٹھانے والا نہ ہو تو پھرشہریوں کی ذہنی حالت کیا ہو گی اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔کراچی میں گزشتہ روز جو کچھ ہوا‘یہ ہمارے حکمران طبقوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔
یہ عوام کے غیض و غضب کا ایک معمولی سا مظاہرہ ہے۔ کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں خود کو سیاسی قائدین کہلانے والوں اور ان کے حاشیہ برداروں کے لیے وارننگ ہے کہ عوام ان کی جھوٹی اور الزام تراشی کی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ اسی طرح سرکاری اداروں میں بیٹھی افسر شاہی اور سرکاری ملازمین کے لیے بھی یہ وارننگ ہے کہ اگر انھوں نے ایمانداری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تنخواہوں کو حلال ثابت نہ کیا تو ایک دن وہ آ جائے گا جب کراچی ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر شہر کے لوگ سڑکوں پر آ کر سیاستدانوں اور افسر شاہی سے اپنا حساب خود کریں گے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کراچی میں بارشوں سے نقصانات اور متعلقہ اداروں کی ناقص کارکردگی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔’’میڈیا اطلاعات کے مطابق درخواست گزار نے حکومت سندھ، کے ایم سی، ڈی ایم سیز اور کنٹونمنٹ بورڈز کو فریق بناتے ہوئے کہا کہ طوفانی بارش کے باوجود ادارے متحرک نہیں ہوئے، ان کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا جس کے باعث لوگوں کا زیادہ نقصان ہوا، سندھ ہائی کورٹ میں کئی روز پانی کھڑا رہا اور درجنوں گاڑیاں ڈوبی رہیں۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کراچی میںشہر کی صفائی کے ذمے دار اداروں کی کارکردگی صفر رہی ہے۔سندھ حکومت بھی عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتری۔وفاق میں برسراقتدار پی ٹی آئی میںکراچی سے منتخب ہونے والے ایم این ایز‘وزراء اور ایم پی ایز نے بھی اپنے ووٹروں کو مایوس کیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان جو مرکز میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے‘ اس نے بھی کراچی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی عوامی سطح پر سیاسی جدوجہد نہیں کی۔ جس کے باعث سندھ حکومت اور شہر کے انتظامی اداروں پر دباؤ بڑھتا۔ یہی وجہ ہے کہ تنگ آ کر لوگ خود سڑکوں پر آنا شروع ہو گئے ہیں اور معاملات اسی طرح جاری رہے تو صورت حال مزید خراب ہوتی جائے گی۔
مون سون کی شدید بارشوں کے باعث پورا کراچی شہر تالاب کی شکل اختیار کرگیا، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں، بارشوں کا پانی گلیوں اور گھروں سے اب تک نہیں نکالا جاسکا۔کئی علاقوں میں چار چا ر روز سے بجلی بھی بند ہے اور انھیں پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کراچی شہر کی تباہی کے ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے ‘ اس میں کسی قسم کی مصلحت یا تعصب کا مظاہرہ کیے بغیر سب کو قانون کے مطابق عدالتوں میں طلب کیا جانا چاہیے۔
کراچی کی شہری انتظامیہ کی بیوروکریسی ہو ‘سندھ حکومت کے وزیراعلیٰ اور وزراء ہوں ‘ وفاقی اداروں کی بیوروکریسی ہو اور وفاقی وزراء ہوں جن کا بھی کراچی کے کسی معاملے سے کوئی تعلق بنتا ہے ان سب کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے بلکہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو قانون سازی کرنی چاہیے کہ گزشتہ چالیس برس میں کراچی ‘ لاہور‘ راولپنڈی‘اسلام آباد‘پشاور اور دیگر شہروں میں بغیرنقشے منظور کرائے جو خود رو آبادیاں قائم ہوئیں‘ اس کی اجازت کن افسروں نے کن با اثر سیاستدانوں یا وزراء کے کہنے پر دی۔اسی طرح سرکاری زمینوں پر جو قبضے ہوئے یا الاٹمنٹیں ہوئیں ‘ وہ کن کن خاندانوں کو عطا کی گئیں۔ اس معاملے میں جو جو ذمے دار ثابت ہوجائے ‘ اس سے ساری رقم واپس لی جائے اور اس کی ریٹائرمنٹ کو ڈسمثل میں تبدیل کر دیا جائے۔
سندھ میں کراچی کے علاوہ دیگر شہربھی ہیں۔ وہاں بھی کوئی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں۔ گزشتہ روز میر پور خاص، تھر اور عمر کوٹ میںشدید بارش ہوئی ہے جب کہ سکھر، گھوٹکی، میرپور ماتھیلو، اوباڑو، شکارپور، کندھکوٹ اور پنوعاقل بھی بارش کی زد میں ہیں۔شدید بارشوں کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔
ان شہروں میں بھی سیوریج کا نظام بیٹھ گیا ہے جس کی وجہ سے گندا پانی بھی بارش کے پانی کے ساتھ مل گیا ہے۔ شہریوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔جوہی میں کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے سے آنے والے پانی کے باعث نئی گاج ندی میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بارش اور سیلاب کے باعث 300 دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔
کراچی کے بعد لاہورپاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس شہر میں بھی جگہ جگہ کچی بستیاں آباد ہیں۔حالت یہ ہے کہ گندے نالوں کے عین کناروں کے اوپر بھی آبادیاں قائم ہیں۔نجی ہاؤسنگ سوسائٹیاں جن کی حدود میں کوئی گندا نالہ یا برساتی ڈرین آتی ہے تو وہ بھی پیسوں کے لالچ میں گندے نالوں کے قریب بھی پلاٹنگ کر دیتے ہیں۔
برساتی ڈرینز کو سیمنٹ کی سیلیبوں سے ڈھک دیتے ہیں۔ ماحولیات کے اصول کے تحت ایسا نہیں ہو سکتا۔ گندے نالوں کے دونوں کناروں پردو ڈھائی سو فٹ کے چوڑائی کے ساتھ پورے نالے پر ایسے موسمی درخت لگائے جاتے ہیں جو گندے نالوں سے اٹھنے والے تعفن کو جذب کر لیتے ہیںاور صبح صبح تازہ آکسیجن چھوڑتے ہیںاس سے کسی قسم کی بدبو نہیں آتی اور ماحول اور فضابھی صاف ستھرے رہتے ہیں۔
The post بارشیں اور سیلاب appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3jv87ll
0 comments:
Post a Comment