Ads

پانی پانی …….اور پانی!

 زباں فہمی نمبر 62

رکھ نہ آنسو ‘سے وصل کی امید

کھاری پانی سے دال گلتی نئیں

قدرت اللہ قدرتؔ (۱۴/۱۷۱۳ء تا ۹۱/۱۷۹۰ء) جیسے غیر معروف شاعر کا یہ شعر ہم ایسے ’’غم زدگان ِ کراچی‘‘ کے لیے ہر لحاظ سے معنی خیز ہے جنھیں آسمان سے برسنے والے بے حساب پانی کے باوجود، پانی کی طلب ہے (پینے کے لیے)۔ اپنے میرؔ صاحب جنھوں نے کسی ایسے ہی وقت کے لیے ، کسی ایسی ہی سرکار کے لیے کہا تھا، ؎ مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا، عمر میں قدرتؔ سے کوئی دس برس چھوٹے تھے، مگر شہرت میں اُن سمیت بے شمار شعراء سے بہت آگے نکل گئے۔ خاکسار نے ’’غم زدگان ِ کراچی‘‘ کی اصطلاح وضع کی ہے ، اگر اجازت ہو تو اسے ’’باراں زدگانِ کراچی‘‘ کرلوں؟؟ بات چلے گی تو پھر سیاسی ہوجائے گی اور سیاسی گفتگو کرنا محض عوام کے لیے ممنوع ہے۔

یہ ہدایت ایک مدت سے گھٹیا قسم کے چائے خانوں اور سرائے نُما ہوٹلوں میں دیواروں پر لکھی ہوئی اَب بھی موجود ہے۔ راقم یہ کہے کہ اس پانی نے ’’محمودوایازکو ایک ہی صف میں ‘‘ لاکھڑا کیا ہے تو کچھ بے جانہ ہوگا۔ فلیٹ میں رہنے والے ہوں یا مکان میں، ڈیفنس، کلفٹن اور پی ای سی ایچ ایس کے امیرباشندگان ہوں یا ناجائز (غیرقانونی) تجاوزات کے بظاہر غریب مالک و مکین……..سبھی ڈوبے، کم۔یا۔ بیش۔ ہاں نہیں ڈوبے تو وہ جنھیں بقول کسے شرم سے ڈوب جانا چاہیے تھا، یا اسی سیلاب میں غرق ہوجانا چاہیے تھا۔

جن کے آباء و اجداد نے کبھی پکے مکان میں رہنے کا خواب بھی شاید ہی دیکھا ہو، وہ آج عوام کے پیسے پر عیاشی کرتے ہوئے، محلات کے مالک بن بیٹھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ’’مفت کی پیتے ہیں‘‘ اور غالبؔ نہیں، بلکہ اُن کے معاصر، استادِشاہ، شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کی زبان میں یہ کہتے ہیں: زاہد! شراب پینے سے کافر ہوا مَیں کیوں+کیا ڈیڑھ چُلّو پانی میں ایمان بہہ گیا؟……لطف کی بات یہ ہے کہ اگر ایسے ’’مہان‘‘ پکڑے بھی جاتے ہیں تو اِن کی بوتل سے شہد برآمد ہوتا ہے، مگر اِن کے طفیل متعدد تشہیری ادارے، اخبارات اور ٹی وی چینلز زیرِعتاب آجاتے ہیں، مالکان کی تو خیر ہے، ملازمین تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔

ہائے ہائے……آج کا کالم خواہ مخواہ سیاسی ہورہا ہے، بلکہ ہوچکا ہے۔ ان جیسے ناعاقبت اندیش (عاقبت نااندیش کہنا اور لکھنا زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے) یہ نہیں جانتے کہ اردو کے قدیم پنجابی شاعر، حضرت عبدالرّضا رضاؔ تھانیسری نے مدتوں پہلے کہہ دیا تھا: آدمی بلبلہ ہے پانی کا+کیا بھروسا ہے زندگانی کا۔ یہی شعر، ترتیب بدل کر میرؔ سے یوں منسوب کردیا گیا، کیا بھروسا ہے زندگانی کا+آدمی بلبلہ ہے پانی کا…..اور اپنے وقت کے ذی علم سخنور امیرؔ مینائی نے یوں کہا تھا: زیست کا اعتبار کیا ہے امیرؔ+آدمی بلبلہ ہے پانی کا!۔ یہاں اہل سیاست کو کچھ دیر کے لیے فراموش کرکے، کچھ اور خیال آرائی یا قیاس آرائی کرلوں؟ مجھے یوں لگتا ہے کہ چونکہ مولوی عبدالرّضا رضاؔ تھانیسری، مریدِامام بخش تھانیسری قادری المتخلص بہ تھانیسریؔ (زمانہ بارھویں صدی ہجری یعنی تین سو سال پہلے) اپنے عہد میں ممتاز ہونے کے باوجود، اردوئے قدیم میں اتنے معروف نہ تھے اور اُن کا یہ شعر مشہور ہوگیا تھا تو کچھ بعید نہیں اساتذہ نے اسے اپناتے ہوئے طبع آزمائی کرلی ہو۔ فارسی اور اردو کے اساتذہ سخن میں توارد، سرقے اور چربے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور اس ضمن میں، (جنھیں خاکسار کہتا ہے کہ ہر دور میں غالب اور ہر دور پر غالب ہیں)، میرزا غالبؔ بھی پیچھے نہیں رہے۔ {ان صوفی بزرگ اور ان کے مرید رحمہم اللہ کا کلام ’پنجاب کے قدیم اردو شعراء از خورشید احمدخان یوسفی، ناشر مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، مطبوعہ ۱۹۹۲ء میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمارے سو سالہ مشفق ومہربان، کرم فرما، محقق ِ شہیر، محترم محمد شمس الحق صاحب نے اپنی کتاب ’اردو کے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں‘ میں رضاؔ تھانیسری کا ایک ہی شعر نقل کیا ہے جو خاکسار نے یہاں پیش کردیا}۔

پانی، عناصر ِ اربعہ (تخلیق کائنات کے چار عناصر) میں شامل (دیگر مٹی، ہوا اور آگ) ہے اور اس کرّہ ارض پر موجود ہر مخلوق کے لیے بہت اہم ہے اور ہر زبان کے ادب میں اس سے جڑے ہوئے الفاظ، تراکیب اور محاورے نیز کہاوتیں اس کی اہمیت اجاگر کرتی ہیں۔ سنسکِرِت ، اردو کی ماؤں میں شامل ہے۔ اس زبان سے، پانی کے لیے لفظ ’جَل‘ (قدیم ہندی اور) قدیم اردو میں داخل ہوا۔ یہ لفظ آج بھی پوری طرح متروک یا نامانوس نہیں۔ ہندوستانی فلمیں اور ٹی وی ڈرامے دیکھنے والے ’’گنگاجَل‘‘ (یعنی دریائے گنگا کا پانی) جیسی ترکیب سے آشنا ہیں۔ اہل زبان آج بھی ’جَل کُکڑی‘ بمعنی جلنے کڑھنے والی عورت یا لڑکی جیسا مرکب لفظ (ترکیب) بولتے ہیں جو لغوی اعتبار سے پہلے جل کُکّڑ (دونوں کاف پر پیش اور آخری کاف پر تشدید کے ساتھ) یعنی سیاہ سرَ والی مُرغابی (مُرغ ِ آبی) تھا۔ {ہندی اردو لغت از راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ}۔ عربی لفظ ’ماء‘ ہمارے یہاں قرآنی آیات اور بعض ادویہ کے ناموں کے طفیل جانا جاتا ہے۔

گو محدود سطح پر۔ فرہنگ آصفیہ ہمیں بتاتی ہے کہ (قدیم) اردو میں ’مرد میں پانی پڑنا‘ اور ’عورت میں پانی پڑنا‘ بھی محاورے کے طور پر بولا جاتا تھا جس سے مراد، ان کا بلوغت کی عمر کو پہنچنا ہوتا تھا۔ آج شاید کوئی سو سالہ بزرگ ہی اس کے استعمال سے واقف ہو۔ اس لفظ کے لغوی اور اصطلاحی معانی بھی کثیر ہیں۔ بہت زیادہ بارش کے لیے کہا جاتا تھا کہ بڑا پانی پڑا۔ اصل نسل، رونق، تازگی، عزت، آبرو سمیت متعدد معانی لغات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

فعل کی گردان ملاحظہ ہو تو پانی اُتارنا، پانی اُترنا، پانی اُٹھانا ، پانی اُٹھنا، پانی باندھنا، پانی بجھانا، پانی برسنا، پانی بڑھنا، پانی بَلانا، پانی بہانا، پانی بھرنا، پانی پانی کرنا، پانی پانی ہونا، پانی پر بنیاد ہونا، پانی پڑنا، پانی پِلانا، پانی پھِرجانا، پانی پھُوٹنا، پانی پھونکنا، پانی پھیردینا، پانی پی پی کر دعا دینا، پانی ………….اوہ اوہ………….پانی ہی پانی ہے جدھر دیکھو، کئی صفحات تک پھیلا ہوا ہے، لغات میں۔ پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات+تُو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ من تیرا نہ تن۔ علامہ اقبال نے اگر یہ شعر (موجودہ سیاسی صورت حال کے تناظر میں) وطن عزیز کے لیے (پیش بینی کے طور پر) کہا تھا تو بالکل ٹھیک کہا تھا۔

پچھلے تہتر سالوں میں کم وبیش ستر سال ، غیروں کے آگے جھکتے ہوئے ہی گزرے ہیں اور آگے بھی یہی آثارہیں۔ اب آپ سوچ میں پڑگئے ہوں گے کہ بھئی یہ کہاں سے مطلب نکال لیا ، علامہ کے شعر کا؟؟ جناب یہی تو کمال ہے کہ شعر کسی بھی پس منظر میں کہا گیا ہو، ایک ذرا سی ہوشیاری سے اس کی تشریح ، سیاق وسباق سے ہٹ کر، کی جاسکتی ہے ۔…..مزید کچھ کہنے سے پہلے ایک دل چسپ نکتہ عرض کروں۔ کسی سیاست داں سے پوچھیے کہ حضور! یہ سیاست کا کیا مطلب ہے تو وہ بڑے Style سے کہے گا، عوام کی خدمت۔ حالانکہ سیاست کے لغوی معنی ہیں، حکومت کرنے کا علم۔ یہ اور بات کہ اب ہمارے یہاں سیاست، سیاہ۔ ست ہوچکی ہے، کسی زہریلے پھل کا سَت۔ سیاست کی سیاہی پر ہر قلم کار، قلم کی سیاہی خرچ کرتا ہے اور صفحہ قرطاس سیاہ کرتا ہے، مگر چونکہ خاکسار نے ایک مدت سے قلم میں سیاہی (یعنی روشنائی) ہی نہیں بھری اور یہ کالم (نیز اکثر مضامین اور ٹیلی وژن، ریڈیو کے مسودات) براہ راست کمپیوٹر کے ’’چوہے‘‘ (معاف کیجئے گا Mouse) کی مدد سے لکھتا یا ٹائپ کرتا ہے تو اس کالک پر مزید کالک مَلنا، غیرضروری سمجھتا ہے۔ پانی میں آگ لگانا، فعل متعدی ہے جس کے معانی ہیں: ناممکن بات کرنا، جہاں لڑائی نہ ہوتی ہو (یعنی سدا امن ہو)، وہاں لڑائی کرادینا، لگائی بُجھائی کرنا، بقول میر یار علی ؎ لگایا کرے آگ پانی میں سوکن +کبھی میری، اُن کی جُدائی نہ ہوگی۔

نیز اس کے معانی میں شعبدہ بازی کرنا، شعبدہ دِکھانا، فتنہ خُفتہ کو بیدارکرنا اور سوتی راڑ جگانا شامل ہیں، بقول ناسخؔ، نہیں ہے بادۂ گل رنگ یہ خَمّار نے، رِندو!+دِکھایا شعبدہ تازہ لگاکر آگ پانی میں۔ (فرہنگ آصفیہ کا مطالعہ اس ساری تفصیل کے لیے مفید ہے)۔ اس تفصیل سے قطع نظر، موسیقی کے ماہر افراد، زمانہ قدیم میں اپنے فن سے پانی میں آگ لگا کر دکھایا کرتے تھے۔

راقم نے اسی تناظر میں یہ ہائیکو کہی تھی: دیپک راگ سُنا/مَن بَگیا میں ہلچل ہو/جَل میں آگ بَپا۔ سانپ کے کاٹے اور نہایت تیز تلوار کی تعریف میں کہتے ہیں، پانی نہ مانگنا، بقول مُنیر شکوہ آبادی ؎ اَلاماں کیوں نہ دل اِس تیغ سے جانی مانگے + جس کا مجروح نہ لے سانس، نہ مانگے پانی۔ یہ وہی شاعر ہیں جن کا ذکر آپ نے میرے کالم زباں فہمی نمبر ساٹھ بعنوان ’کالاپانی کہاں کہاں ہے؟‘ مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ نو اگست سن دوہزار بیس میں ملاحظہ فرمایا ہوگا۔ لفظ پانی ارد و ہی نہیں، بلکہ اس کی ہم رشتہ دیگر زبانوں کی شاعری میں بھی عہد قدیم سے مستعمل ہے (جنھیں ہم اردو کی ماں بہن کہہ سکتے ہیں)۔ خوشحال خان خٹک (۱۶۱۳ء تا بیس فروری ۱۶۸۹ء) کے استاد اور مددگار، فارسی اور ہندکو کے شاعر، استاد صاحب حق (پشاوری) رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: گھار ہمیش اے دوزخ اسدا+جس نُوںبجھاوے نہ کوئی پانڑی]پانی [، (یعنی اس کا گھر ہمیشہ کے لیے دوزخ کی آگ والا ہوگیا، جس آگ کو کوئی پانی ٹھنڈا نہیں کرسکتا)۔ {اردو زبان کا ماخذ ہندکو از پروفیسر خاطرغزنوی}۔ }یہاں وضاحت ضروری ہے کہ ہندکو اور گوجری میں نون کو ’’ن+ڑ=نڑ‘‘ بولتے ہیں، مگر رسم الخط یکساں ہونے کی وجہ سے نون لکھ دیا جاتا ہے، جبکہ سندھی میں اس کے برعکس، نون اور نڑ جدا جدا ہیں۔

سرائیکی رسم الخط سے پوری طرح آشنائی نہ ہونے کے باوجود، راقم کو یہ علم ہے کہ اس کے رسم الخط میں بھی یہ مخصوص آواز لکھی جاتی ہے۔ کچھ گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ اردوئے قدیم کی بعض زندہ اور بعض متروک یا مردہ بولیوں میں بھی یہ آواز پائی جاتی ہے{۔ اچھا تو قارئین کرام اور ناقدین باتمکین! آج کا موضوع ہے، پانی۔ وہی مایع جسے انسان کی اور کائنات کی تخلیق میں بنیادی عنصر کا درجہ ملا۔ سورہ الفرقان کی آیت نمبر چوون(54)کے مفہوم پر غور کریں، اللہ تعالیٰ نے انسان کو پانی کے مانند نطفے سے پیدا کیا۔ سورہ الطارق میں یہاں تک واضح کیا گیا کہ انسان کو قوت سے، اچھلتے ہوئے پانی یعنی قوی ومتحرک مادّہ تولید سے پیدا کیا گیا جو پیِٹھ اور کولھے کی ہڈیوں کے درمیان یعنی پیڑو سے نکلتا ہے۔

قرآن اور سائنس کے موضوع پر تحقیق کرنے والے بھی، کائنات میں زندگی کی ابتداء، پانی سے ہونے کے قائل ہیں۔ سیارہ زمین کا اکہتر فی صد ( 71%) پانی پر مشتمل ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر ساری زمین ہی خشکی پر مشتمل ہوتی تو کیا ہوتا؟؟ باقی باتیں تو ایک طرف، ہمیں سمندر، دریا، جھیل، ندی، چشمے، جھرنے، نالے اور نہریں دیکھنے کو نہ ملتیں، محض پہاڑ ہوتے، میدان ہوتے یا ریگستان ……وہ بھی کسی قسم کے سبزے کے بغیر، کیونکہ نباتات، خواہ خشکی پر ہوں یا تہہ ِ آب میں، انھیں پانی ہی سینچتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا یہ دنیا، جا بجا قدرت کی صناعی کی ایسی تصویر ہوتی کہ بے ساختہ حضرت انسان کے دل سے صدا آتی: اگر فردوس بر روئے زمینست، ہمینست و ہمینست وہمینست (اگر جنت زمین پر ہے تو یہی ہے، یہی ہے، یہی ہے) {خاکسار نے صوتی ادائی کے اعتبار سے املا ء لکھا ہے} اور ایسے کتنے ہی مقامات ہیں جہاں ہمارے دل سے یہ صدا نکلتی ہے۔

انسان نے زمین پر صدیوں مزے کرنے کے بعد، یہ سوچا کہ کسی اور سیارے کی تلاش کی جائے جہاں زندگی کے آثار بھی ایسے ہی ہوں یعنی سب سے پہلے تو پانی موجود ہو اور وافر ہو، خواہ کوئی اور مخلوق ہو نہ ہو، وہاں رہنا ممکن ہو۔ اس تلاش میں جہاں چاند پر ڈورے ڈالے گئے، مریخ کی خوب خبر لی گئی، دیگر سیاروں کے متعلق بھی تحقیق کی گئی اور اب تک کی جارہی ہے، وہیں یہ کرشمہ بھی ہوگیا۔2007ء میں Gliese 581dنامی، زمین نما سیارہ دریافت ہوگیا جو ہماری زمین سے بیس اعشاریہ تین نوری سال (20.3 Light years)کے فاصلے پر ہے یعنی 192ٹریلین کلومیٹر……..اف اف اف! پھر کیا خیال ہے، چلیں وہاں؟؟ }چلو کہیں دور، یہ سماج چھوڑدیں{۔ (ویسے راز کی بات بتاؤں، ستارہ سہیل [Canopus] بھی زمین سے بہت دور واقع ہے اور سورج سے 355گُنا بڑا ہے۔ سہیل ہماری کائنات کا دوسرا سب سے روشن ستارہ ہے اور یہ موسم خزاں کے اوائل میں نکلتا ہے….. باقی تفصیل لکھوں گا تو زباں فہمی کی بجائے سہیل سرائی ہوجائے گی…..ہاہاہا)۔ اب ملاحظہ فرمائیے پینے کا پانی فروخت کرنے والی دو کمپنیوں کے اشتہارات اور دیکھیں کہ کیسے زبان وبیان کی صحت کا خیال رکھا گیا ہے:الف)…….(نام)۔ پینے کا (کے) معیاری پانی کی ترسیل کا کام آپ کے (آپ کے) علاقے میں شروع کیا جارہا ہے۔

اعلیٰ معیار کی نئی بوتل، نئے فلٹریشن پلانٹ اور بااخلاق عملے کے ساتھ۔ ہماری بھرپور کوشش ہوگی کہ صارف کو اعلیٰ معیار، بیکٹیریا سے پاک اور غیرضروری کیمیکلز کی آمیزش سے مبرہ، انسانی جسم کی ضروریات سے مطابقت کا حامل پانی فراہم کیا جائے، کیونکہ پانی کا ہماری جلد، بالوں، معدے اور سب سے بڑھ کر ہمارے گُردوں پر اثر ہوتا ہے۔ ہمیں خدمت کا موقع دیں۔ (ب)۔ پانی ہر ذی روح کا بنیادی حق ہے۔

صاف پانی کا استعمال انسانی صحت کے لئے (لیے) بنیادی جُز (جُزو) ہے۔ صاف پانی ایک صحت مند زندگی کی علامت ہے۔ روزآنہ (روزانہ) 8-10گلاس صاف پانی آپ کو بے شمار پریشانیوں سے بچاتا ہے۔ ہمارے ملک، خصوصاً شہر ِکراچی میں صاف پانی کا حصول ناپید (ناممکن) ہوتا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ نہ جانے کتنی نام نہاد کمپنیاں صاف پانی کی آڑ میں نہ صرف مُضِرّصحت پانی کو (کو غیرضروری ہے) فروخت کررہی ہیں، بلکہ انسانی جانوں کو لگنے والی کئی مُہلک بیماریوں کا سبب بھی ہیں۔ (……صاف پانی کی آڑ میں، مُضِرّصحت پانی فروخت کرکے کئی مُہلک بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بن رہی ہیں)۔

حالیہ دنوں میں (حال میں) جاری ہونے والی خوفناک انکشافات کی رپورٹ (حال میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے خوفناک انکشافات نے ) نہ صرف (ناصرف) اہلیان کراچی (اہل کراچی) کو شدید ہیجان میں مبتلا کردیا ہے (پریشانی میں مبتلا کردیا ہے)، بلکے (بلکہ) وہ (یہ) سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہزاروں روپے ماہانہ خرچ کرکے بھی وہ اپنے اہل خانہ کے لیے (لیے) مُضِرّصحت پانی ہی حاصل کرپا رہے (کررہے) ہیں۔ PSQC سے منظورشدہ…………..(نام) نے عوام الناس کا دیرینہ مسئلہ حل کردیا ہے۔ اب انتہائی کم لاگت میں صاف وشفاف (صاف شفاف) R.O water پانی اَب آپ کے (آپ کے ) گھر کی دہلیز پر……(نام) انتہائی جدید پلانٹ پر پانی کو تمام بیکٹیریا سے پاک کیا جاتا ہے۔ بعدازاں (بعدازآں) PSQC کی تمام جانچ پڑتال اور تصدیقی سرٹیفکیٹ کے بعد آپ تک پہنچایا جاتا ہے۔ آپ کے

اعتماد کا اولین نشان…..(نام)۔

آج کا مفصل کالم پڑھ کر آپ کی آنکھوں سے پانی (یعنی آنسو) جاری ہوا تو سمجھوں گا، محنت وصول ہوگئی، اور جن کے دِیدوں کا پانی مرگیا ہے، خدا انھیں اگلی برسات میں شرم سے پانی پانی کردے اور عوام کے مسائل حل فرمانے کا وسیلہ عطا فرمائے۔ کہیے آمین!

The post پانی پانی …….اور پانی! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32gJ2nd
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment