Ads

جو بیچتے تھے دوائے دل۔۔۔۔ (حصہ اول)

میر حاصل بزنجو مزاحمتی تحریک کا ایک اہم ستون تھے۔ وہ جرات واستقامت کا ایسا استعارہ تھے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ حاصل بزنجو نے آخری مزاحمت پھیپھڑوں کے کینسر کے خلاف کی۔

گزشتہ سال پاکستان کے ڈاکٹروں کی طرف سے اس بارے میں مایوسی کا اظہار کیا گیا۔ پھر امریکا کے کینسر کے انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ ان کی زندگی چند ماہ کی ہے مگر حاصل نے ڈاکٹروں کی بات کو اپنے ذہن پر سوار نہیں کیا۔ اپنی موت سے چند دنوں قبل انھوں نے وفاقی حکومت کے یکساں نصاب تعلیم کے بارے میں ایک وڈیو کانفرنس میں کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت صوبائی خود مختاری کو ختم کر رہی ہے جس سے مذہبی انتہاپسندی کو تقویت ملے گی اور وفاقی اکائیوں میں محرومی بڑھے گی۔

حاصل بزنجو 1958ء میں بلوچستان کے پسماندہ علاقہ خضدار کی تحصیل نال میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن غربت کا بچپن تھا۔ میر غوث بخش بزنجو کو جنرل ایوب خان کی حکومت نے کرنسی نوٹ پر نعرے لکھنے کے جرم میں کئی سال قید کی سزا دی تھی۔ میر بزنجو کے خاندان کا انحصار زراعت پر تھا، یوں محدود آمدنی کی بناء پر گزارہ مشکل تھا۔ حاصل بزنجو نے اپنے سوانح لکھواتے ہوئے حسن جاوید کو بتایا کہ گھر میں سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہ تھا۔

ایک کمرے میں سارے بہن بھائی گڑھا کھود کر لکڑیاں جلاتے اور اس کے گرد جمع ہو جاتے تو سردی سے تو بچ جاتے مگر انگاروں سے نکلنے والے دھویں سے سب کی آنکھیں متاثر ہوتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر میں ایک ریڈیو تھا۔ اس ریڈیو پر والدہ بی بی سی کی اردو خبریں ضرور سنتیں۔ خبروں سے معلوم ہو جاتا تھا کہ میر صاحب جیل میں ہیں یا رہا ہو گئے۔ حاصل بزنجو نے گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے انٹر کا امتحان پاس کیا اور پھر کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں بی اے آنرزکے طالب علم ہوئے۔

وہ بچپن میں بی ایس او کے رکن بن گئے تھے، یوں کارل مارکس کے فلسفہ اور قومیتوں کے حقوق سے واقف ہوئے۔ کراچی یونیورسٹی میں ان کے قریبی ساتھی نیرجن تھے جو کیمونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیم سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس کے فعال کارکن تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیم، ترقی پسند طلبہ کے مدمقابل تھی۔ اس وقت بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں پروگریسو فرنٹ میں متحد تھیں ۔

80ء کی دھائی کے آغاز پر کراچی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں میں تصادم ہوا۔ پھر حکومت کی رجعت پسند پالیسی کے باعث گریسو فرنٹ کی قیادت منتشر ہوگئی۔ کراچی یونیورسٹی میں بائیں بازو کے طلبہ کے لیے انتہائی مشکل وقت تھا۔ضیا الحق کے دور پی آئی اے کے طیارہ کے اغواء کے نتیجہ میں اغواء کاروں کے مطالبہ پر چند طلبہ کو دمشق بھیجا گیا تھا، ان میں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم بھی شامل تھے۔ ایک طرف کراچی یونیورسٹی میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیم نے بائیں بازو کی تنظیموں کی سرگرمیوں کو مفلوج کر رکھا تھا۔

دوسری طرف نامعلوم افراد بائیں بازو کے طلبہ کو ہراساں کرتے تھے۔ حاصل بزنجو کی قیادت میں چند طلبہ نے بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کا متحدہ محاذ بنانے کے لیے کوشش کی، یوں یونائیٹڈ اسٹوڈنٹ موومنٹ (U.S.M) کا قیام عمل میں آیا۔ حاصل بزنجو یو ایس ایم کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ حاصل بزنجو نے طلبہ یونین کے انتخابات میں کامیابی کے لیے انتھک کوشش کی۔ اس وقت آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (A.P.M.S.O) قائم ہوچکی تھی۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے رہنما اے پی ایم ایس او سے کسی قسم کے روابط کے لیے تیار نہیں تھے۔ اے پی ایم ایس او بھی تنہا پرواز کرنے کی خواہاں تھی ۔

حاصل بزنجو نے اے پی ایم ایس او کو تیار کیا کہ وہ یو ایس ایم کی حمایت کریں۔ حاصل بزنجو کی متحدہ محاذ بنانے کی یہ کوشش کامیاب ہوئی اور یو ایس ایم اور اے پی ایم ایس او میں اتحاد قائم ہوگیا۔ کراچی یونیورسٹی کے سیاسی منظرنامہ میں یہ تبدیلی نمایاں نظر آنے لگی۔ دائیں بازو کی طلبہ تنظیم نے طاقت کااستعمال بڑھادیا۔ کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ، پولیس اور کراچی انتظامیہ مارشل لاء حکام کے دباؤ پر خاموش تھی۔

پھر ایک حملے میں پیپلز اسٹودنٹس فیڈریشن کے ایک کارکن قدیر عابد جاں بحق ہوئے۔ کچھ افراد نے حاصل بزنجو کو آرٹس لابی میں گھیر لیا۔ یہ چاہتے تھے کہ حاصل بزنجو ان سے معافی مانگے اور چلا جائے مگر حاصل بزنجو نے معافی مانگنے سے انکار کردیا، ان کی آواز لابی میں گونجی، ’’مجھے گولی ماردو، میں بھاگوں گا نہیں۔‘‘ ان افراد نے گولی چلائی جو حاصل بزنجو کے گھٹنے میں لگی۔ حاصل کچھ دیر تک لابی میں گرے رہے۔ بعد میں انھیں اسپتال پہنچایا گیا جہاں انھیں ایک آپریشن سے گزرنا پڑا۔ 1980ء میں سندھ میں کمیونسٹ پارٹی کے خلاف آپریشن ہوا۔ پروفیسر جمال نقوی، جام ساقی، سہیل سانگی، احمد کمال وارثی، شبر شر اور سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر نذیر عباسی گرفتار ہوئے۔

نذیر عباسی تشدد سے انتقال کرگئے۔ پھر سندھ این ایس ایف کے رہنما ڈاکٹر جبار خٹک اور آرٹسٹ بدر جمال ابڑو بھی گرفتار کرلیے گئے۔ حاصل بزنجو کو صفائی کے گواہ کے طور پر فوجی عدالت میں طلب کیا گیا۔ اس مقدمہ میں محتربہ بینظیر بھٹو، خان ولی خان، حاصل بزنجو کے والد میر غوث بخش بزنجو سمیت سینئر سیاسی رہنماء، وکلاء صفائی، اساتذہ صفائی کے گواہ کے طور پر پیش ہوئے تھے۔ حاصل بزنجو واحد طالب علم تھے جو بغاوت کے الزام میں گرفتار افراد کا دفاع کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر پیش ہوئے۔

مظہر عباس جو اس زمانہ میں انگریزی کے شام کے اخبار میں رپورٹنگ کر تے  تھے نے لکھا ہے کہ ایک فوجی افسر کے لیے اس مقدمہ میں ایک طالب علم کی گواہی حیرت انگیز امر تھی۔ مظہر عباس کا کہنا ہے کہ فوجی افسر نے حاصل سے کہا آپ کیوںاس خطرناک مقدمہ میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے پر زور دے رہے ہیں؟ حاصل کا جواز تھا کہ طلبہ نے ہمیشہ جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حاصل بزنجو نے اپنے صفائی کے بیان میں کہا کہ وہ کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کے محاذ یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ کے چیئرمین ہیں اور ان مبینہ ملزمان نے عوام کے حقوق کے لیے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف مزاحمت کی ہے۔

(جاری ہے)

The post جو بیچتے تھے دوائے دل۔۔۔۔ (حصہ اول) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3lehw2r
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment