Ads

جو بیچتے تھے دوائے دل۔۔۔ (آخری حصہ)

میرے نزدیک یہ افراد کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔ ان لوگوں کو رہا ہونا چاہیے۔ ان پر عائد کردہ الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں۔ اس مقدمہ میں دو نوجوان صفائی کے گواہ کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے۔ ایک محترمہ بے نظیر بھٹو اور دوسرے حاصل بزنجو تھے۔

حاصل بزنجو نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ سے ایم اے کیا اور اپنے والد کی جماعت نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے۔ وہ 1990ء اور 1997ء میں دو دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ انتخابی سیاست میں مسلم لیگ ن کے قریب ہوئے۔ ان کا مفروضہ تھا کہ میاں نواز شریف پنجاب کی ابھرتی ہوئی بورژوازی کے نمایندہ ہیں۔

نواز شریف کا جمہوریت کے استحکام کے لیے رویہ مثبت ہے اور میاں صاحب بھارت سمیت پڑوسی ممالک سے دوستی کے حامی ہیں، یوں جمہوریت کے استحکام کے لیے میاں صاحب کی حمایت کرنی چاہیے۔ حاصل بزنجو کی کوشش تھی کہ صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیار کے خاتمہ کے لیے پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کو راضی کیا جائے اور انھوں نے ایک نجی گفتگو میں بتایابھی تھا کہ میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ان کی اور محمود اچکزئی کی کوششوں سے بے نظیر اس بات پر آمادہ ہوگئی تھیں کہ آئین کے آرٹیکل 58(2)B کے خاتمہ کے لیے وہ وزیر اعظم نواز شریف کی تجویز کی حمایت کریں گے۔

جب بے نظیر بھٹو لندن میں مقیم تھیں تو حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی لندن گئے مگر اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کی ریشہ دوانیاں سرخ رو ہوئیں ، یوں یہ کوشش سبوتاژ ہوئی۔ پھر میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں حاصل بزنجو اور دیگر اکابرین نے کوششیں کیں، یوں بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی میں اس شق 58(2)B کے خاتمہ کی حمایت کی۔ پارلیمانی نظام کی بالادستی قائم ہوئی۔

جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو حاصل بزنجو پہلے رہنما تھے جنھوں نے قانونی حکومت کی برطرفی کو جمہوریت کے لیے نقصان قرار دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان کے سابق گورنر اکبر بگٹی کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا۔ اکبر بگٹی اور بزنجو خاندان روایتی حریف رہے ہیں مگر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ اکبر بگٹی کے قتل سے فیڈریشن مخدوش ہوئی ہے۔ بلوچستان کے عوام اور ریاست میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔

پھر بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا دور آیا۔ پنجاب سے آنے والے ڈاکٹر، وکلاء، اساتذہ، خواتین اور سرکاری افسران کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی اور بلوچستان کی علیحدگی کا معاملہ شدت اختیار کرگیا۔ حاصل بزنجو اپنے والد کی طرح پاکستان کی فیڈریشن میں پرامن جدوجہد کے حامی تھے۔ حاصل نے پرتشدد کارروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور ہمیشہ پرامن جدوجہد پر زور دیا۔ جب صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کیا اور وکلاء نے ان کی بحالی کی تحریک شروع کی تو حاصل بزنجو اس تحریک کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ اس دوران کراچی پریس کلب میں ایک احتجاجی جلسے میں سیکڑوں کارکن موجود تھے۔

پولیس نے کراچی پریس کلب کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔ کلب میں صحافیوں نے حاصل بزنجو کو پیشکش کی کہ کپڑے بدل کرپیچھے کے راستے سے فرار ہوجائیں مگر حاصل بزنجو نے کہا کہ وہ انڈر گراؤنڈ نہیں ہونگے اور گرفتاری دیں گے۔ اس تاریخی دن حاصل بزنجو کے ساتھ یوسف مستی خان وغیرہ گرفتار ہوئے۔ حاصل بزنجو 2009ء میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف اور حاصل بزنجو کے درمیان اتفاق رائے ہوا۔

بلوچستان کے پہلا متوسط طبقہ کا فرد ڈاکٹر مالک وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے ۔ڈاکٹر مالک نے بلوچستان میں امن و امان کو بہتربنانے اور تعلیم و صحت کے شعبوں کو فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حاصل بزنجو اور ڈاکٹر مالک بلوچ نے جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔ ابھی ان مذاکرات کے نتائج واضح ہورہے تھے کہ بلوچستان میں تبدیلی آگئی اور ڈاکٹر مالک کی حکومت ختم ہوگئی۔ یہ وہ دور ہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پرتشدد کارروائیاں بڑھ گئیں اور تنصیبات پر حملے ہونے لگے۔ پھر لاپتہ افراد کی لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جنگجوؤں نے ان کے کئی ساتھیوں کو قتل کیا۔

اس زمانہ میں حاصل بزنجو بائیں بازوکے دانشوروں اور قوم پرستوں کی تنقید کا نشانہ بنے۔مارکسسٹ صحافی عزیز سنگور حاصل بزنجو پر تنقید کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ عزیز سنگور نے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ حاصل نے کبھی اپنے والد کی سیاسی وراثت کا دعویٰ نہیں کیا۔ حاصل نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنائی۔

حاصل کبھی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں بنے،ہر ڈکٹیٹر کے خلاف آواز اٹھائی اور کبھی مالیاتی بدعنوانی میں ملوث نہیں ہوئے۔حاصل بزنجو اپنے والد کی طرح جمہوری رویے اور تنقید برداشت کرنے کا مظہر تھے۔گزشتہ سال کے اوائل میں نیشنل پارٹی کی کانگریس کوئٹہ میں منعقد ہ ہوئی۔کئی سو کارکنوں نے دو دن تک حاصل کی پالیسیوں پر تنقید کی،حاصل صدارت کر رہے تھے اور وہ خوش دلی سے سب کچھ سنتے رہے۔ پھر گزشتہ سال متحدہ حزب اختلاف نے میر حاصل بزنجو کو سینیٹ کے چیئرمین کے عہدہ کے لیے نامزد کیا۔ روایتی سازشوں کی بناء پر حاصل یہ انتخاب ہار گئے۔ انھوں نے اپنی شہرئہ آفاق تقریر میں جو کہا وہ اس ملک کی تاریخ تھی۔ حاصل بزنجو کی چار سال قبل انجیوپلاسٹی ہوئی۔

گزشتہ سال انھیں پھیپھڑوں کا کینسر ہوا۔ پاکستانی ڈاکٹروں نے ناامیدی کا اظہار کیا۔ نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر ایوب ملک حاصل بزنجو کو امریکا میں کینسر کے ریسرچ سینٹر یو سی ایل اے لے گئے۔ امریکا کے ڈاکٹروں نے کینسر کے علاج کے لیے تیار ہونے والی دوائی کے تجربات شروع کیے ہوئے تھے۔ حاصل نے رضاکارانہ طور پر اس تجربہ کے لیے خود کو پیش کیا۔ حاصل کا کہنا تھا کہ مجھے فائدہ نہ ہو مگر مستقبل میں یہ دوائی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

حاصل بزنجو کو امریکا کے ڈاکٹروں نے گزشتہ دسمبر میں جواب دیدیا تھا مگر حاصل نے حوصلہ بلند رکھا۔ انھوں نے موت کو جھٹکنے کی مشق بار بار کی۔ حاصل کی خواہش تھی کہ بائیں بازو کی تمام جماعتیں متحد ہو جائیں اور نیشنل عوامی پارٹی جیسی جماعت وجود میں آئے جو سیکولرازم ، قومیتوں کے حقوق اور سماجی انصاف کے لیے جدوجہد کرے۔ یہ خواہش کب پوری ہوگی یہ نہیں کہا جاسکتا مگر ملک ایک بہادر، جمہوری اور سیکولر نظریہ رکھنے والے انسان سے محروم ہوگیا۔

The post جو بیچتے تھے دوائے دل۔۔۔ (آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2EsmOXl
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment