Ads

یاد ماضی عذاب ہے

ماضی کی بعض یادیں دماغ کے ساتھ چپک جاتی ہیں‘ان میں25جولائی کے واقعات بھی شامل ہیں۔ 25جولائی 2018کی شام جب انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے تو ملک میں سناٹا چھا گیا ‘نتائج اکثر لوگوں کے تجزیات کے برعکس تھے ‘صبح تک نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے دھاندلی اور مداخلت کا اعلان کردیا‘ اس طوفان میں کم از کم مجھے کوئی حیرانی نہیں تھی کیونکہ واقعات کا تسلسل میرے ذہن میں تھا‘ اس روز کے بعد ملک کے بہت سے رہنماؤں کو ٹی وی پر دیکھتا رہا ہوں۔

مولانا فضل رحمن صاحب گرجدار آواز میں میڈیا سے مخاطب ہو کر انتخابات میں دھاندلی اور اسمبلیوں میں جانے کی مخالفت کرتے رہتے ‘ان کے ساتھ محترم سراج الحق صاحب ‘ جناب آفتاب شیر پاؤ ‘اسفندیار ولی خان ‘محمود خان اچکزئی ‘شہباز شریف‘ فاروق ستار ‘اکرم درانی‘شاہ جی گل ‘پروفیسر ساجد میر سمیت بہت سے قابل احترام اور جمہوریت پسند رہنماء کھڑے ہوتے‘اچھا ہوا کہ حزب اختلاف نے پارلیمنٹ کے اندر کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا ورنہ زیادہ شرمندگی ہوتی۔ انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیابی دلوانے کی واردات کا جہاں تک تعلق ہے ‘ مستقبل کی تصویر واضح نظر آرہی تھی ‘ان کو دیکھ کر مجھے پچھلے ایک سال کے واقعات یاد آرہے تھے ‘جو شکست خوردہ حزب اختلاف پر صادق آنے والے ایک حسب حال شعر سے واضح ہیں ۔

؎  وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔۔حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔

جھگڑا سول بالادستی‘ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ جدوجہد کا تھا‘جس کی وجہ سے پاکستان دنیا میں بدنام ہو رہا تھا‘ اس ’’بیانیہ‘‘ کی قیادت میاں نواز شریف کر رہے تھے‘ اس گستاخی کے پاداش میں ان کوسخت سزا دینے کا فیصلہ ہوا ‘پاناما پیپرزکیس میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں انہیں تاحیات نااہل کیا گیا ‘ یوں وہ پارٹی قیادت سے بھی محروم ہوگئے‘ نواز لیگ کے رہنما مختلف الزامات کے تحت نا اہل قرار دیے گئے۔

جنوبی پنجاب کے موقع پر ست سیاستدان نواز لیگ کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل  ہوگئے ‘ نواز شریف کو بالآخر ایون فیلڈ کیس میں دس سال کے لیے قید کی سزا سنا دی گئی ‘نہ صرف ان کو بلکہ ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد صفدر کو بھی اڈیالہ جیل میں بند کردیا گیا۔ ملک میں یہ تاثر ابھرا کہ ان اقدامات کا مقصد ایک پارٹی کو اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کرنا تھا‘ایک طرح کے مقدمات  میں عمران خان صادق و امین قرار پائے جب کہ نواز شریف کو  تاحیات نا اہلی کا سامنا کرنا پڑا‘ان تمام واقعات کو دیکھتے ہوئے بھی ہمارے جمہوریت پسند سیاسی رہنماء خاموش رہے بلکہ سراج الحق صاحب تو فخر سے کہتے تھے کہ پاناما کیس میں انھوں نے ملک کے سب سے بڑے چور اور ڈاکو نواز شریف کو سزا دلوائی ہے۔

ملک کے اہم وکلاء عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے رہے۔ جمہوریت پسند سیاست دان اس وقت‘ اقتدار میں کچھ حصہ پانے کی لالچ میں خاموش رہے۔ 17جولائی  2018 کوحقوق انسانی کمیشن نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی اور اخباری اطلاعات کے مطابق ’’حقوق انسانی کمیشن نے انتخابی عمل پر اپنے تحفظات سے چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کردیا ‘ ان انتخابات کے لیے منصوبہ بندی پہلے سے ہو رہی تھی اس کا پہلا مرحلہ میاں نواز شریف کو ہٹانا تھا ‘جب یہ مرحلہ طے کردیا گیا تو نصف جنگ جیت لی گئی اور باقی نصف سفر آسان تھا جسے مختلف مرحلو ں میں طے کیا گیا لیکن سب کچھ سمجھنے کے باوجود سب خاموش رہے۔ایک جرمن فلاسفر کی شہرہ آفاق نظم۔

Martin Niemoellerایک جرمن مذہبی پیشوا‘ جنگ اور نازیوں کا سخت مخالف تھا‘انھوں نے ایک مشہور نظم لکھی۔ وہ لکھتے ہیں ’’وہ سوشلسٹوں کو گرفتار کرنے آئے ‘میں کچھ نہ بولا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا ‘پھر وہ ٹریڈ یونینز کے لیڈروں کو پکڑنے آئے‘ میں خاموش رہا کیونکہ مزدور رہنماء نہیں تھا‘وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے ‘میں پھر بھی چپ رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا ‘آخر میں وہ مجھے پکڑنے آئے ‘میں نے مدد کے لیے چاروں طرف دیکھا لیکن مدد کے لیے کوئی نہیں بچا تھا ‘‘۔تو جناب پاناما سے چلنے والی گاڑی آخر سراج الحق صاحب کے حلقے میں آکر رکی۔ جنوبی افریقہ کے بڑے لیڈر اور آزادی کے ہیرو بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو کا قول ہے کہ۔جب نا انصافی ہو رہی ہو اور تم خاموش رہے تو اس کا مطلب ہے کہ تم ظالم کے طرفدار ہو۔

کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں کے علاوہ مختلف غیرجانب دار اور غیر سیاسی شخصیات اور دانشوروں نے اس ایک سال میں حالات کی نزاکت پر تبصرے بھی کیے اور حالات کو ٹھیک کرنے کی التجائیں بھی کیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور وہ بھی لکھ لکھ تھک گئے۔ قومی قیادت بننے میں وقت لگتا ہے ‘یہ گملوں میں اگائے گئے موسمی پودوں جیسی نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں مقام افسوس ہے کہ جب کوئی قیادت سیاسی بلوغت کے بلند مقام پر پہنچتی ہے تو کچھ عناصر اس کا تیا پانچہ کرنے پر تل جاتے ہیں‘ اس بدقسمت ملک کی 70سالہ تاریخ اسی ظلم سے بھری پڑی ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی مثال لے لیں‘جب تلخ تجربات کی بھٹی سے گزر کر انہیں ملک و قوم کے حقیقی ایشوز اور عالمی ترجیحات کے ساتھ مستقل قومی مفادات کے مطابقت میں شعوری آگاہی ہوئی تو بعض کی نظروں میں ناکارہ ہوکر رہ گئے اور ان کو منظر سے ہٹا دیا گیا‘ اب اگر پیپلز پارٹی کی قیا دت حقیقت میں بلاول بھٹو کو دی جاتی ہے اورمحترم زرداری اور فریال تالپو ر ذرا پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پھر بلاول سے عر ض کیا جا سکتا ہے کہ محترمہ نے جہاں تک جمہوری سفر پہنچایا تھا وہاں سے آگے ان کو سفر کرنا ہے۔محترمہ نے تمام تر تلخ تجربوں سے گزر کر‘حقائق کو سمجھ کر اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف کے ساتھ ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘پر دستخط کیے تھے ‘بلاول نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’آئین‘ پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھنے والی تمام چھوٹی بڑی جمہوری قوتوں کو ’’ نئے سوشل کنٹریکٹ ‘‘ کے لیے یکجا ہونا چاہیے۔

اس نئے سوشل کنٹریکٹ کے لیے میثاق جمہوریت ہی ایک بہترین بنیاد بن سکتی ہے ‘ اس میثاق سے ہٹ کر پیپلز پارٹی آج تک کافی نقصان اٹھا چکی ہے‘ان غلطیوں کا ازالہ اسی میثاق جمہوریت پر چلنے سے ہو سکتا ہے ‘محترم قائدین کی خدمت میں عرض ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو آپ خاموش تھے ‘بلکہ زرداری صاحب تو کسی اور کھیل میں مصروف تھے۔ ‘بقول شخصے ’’اب کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت‘‘۔

پشتو میں ایک مثل ہے کہ انگلیوں سے لگائی گئی سخت گانٹھ کو کھولنے لیے مضبوط دانتوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور یا یہ مثل (cut the evil in the bud)کہ برائی کو ابتداء سے روکنا ضروری ہے ’اب تو یا ایک مضبوط تحریک چلانی ہے یا پرانی تنخواہ پر گزارہ کرنا ہے ‘آپ اپنی کمزور سیاسی پارٹیوں کے بھروسے پر کیا کر سکتے ہیں؟جمہوری دور میں آگ برسانے والی قیادت آج اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہیں اور ان کی بے عملی کی وجہ سے عوام مستقل عذاب میں ہیں۔میثاق جمہوریت پر متفق ہونے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔

The post یاد ماضی عذاب ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34i86No
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment