Ads

جنسی مجرموں سے نمٹنے کی ضرورت

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بچوں اور خواتین سے زیادتی کرنے والوں کو سر عام پھانسی پر لٹکانا یا انھیں آپریشن کرکے جنسی طور پر ناکارہ بنا دینا چاہیے تاکہ آیندہ ایسی حرکت نہ کرسکیں، ریپ کرنے والوں کو کیمیائی یا سرجیکل طریقے سے نامرد بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے اور ایسا کئی ملکوں میں کیا جا رہا ہے۔

نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں وزیر اعظم نے اظہار حیرت کیا کہ جب پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تو آئی جیز کی بریفنگ سے حیران ہوا کہ بہت سے زیادتی کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ سرعام پھانسی یا سرجری کے ذریعے جنسی طور پر ناکارہ بنانے کی بات کی تو ہمیں بتایا گیا کہ اس سے ہمیں تجارتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا زیادتی کرنے والے جیل سے باہر آکر پھر وہی کام کرتے ہیں، موٹر وے گینگ ریپ کا مرکزی ملزم 2013 میں بھی ایک گینگ ریپ میں ملوث رہ چکا ہے۔ موٹروے واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس کی سب کو اتنی تکلیف ہوئی ہے کہ ہر کوئی سوچتا ہے کہ اس خاتون کی جگہ ہماری بہن اور بیٹی بھی ہو سکتی تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ معاشرے میں فحاشی بڑھے تو سیکس کرائم بڑھتا ہے، جس سے خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ انگلینڈ میں فحاشی بڑھنے سے اس وقت طلاق کی شرح 70 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے ان معروضات کے آئینہ میں عوام بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جرم وسزا، اخلاقیات، جنسی کجروی اور سماجی امن وآسودگی کے پیمانوں کے اعتبار سے ملکی اشرافیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں اور ہمارے سیاسی قائدین کا انداز نظر، ورلڈ ویو، عصری سوچ اور سیاسی و سماجی وژن کا حال کیا ہے، وہ انوکھے تحفظات میں گھرے ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کا ادراک و شعور ہی نہیں رکھتے کہ ملک کو چیلنجز نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور ملک جب جنسی انارکی، بداخلاقی، گراوٹ، جعلسازی، جھوٹ اور بہیمانہ جرائم کے جہنم میں جل رہا ہو تو ضرورت کس بات کی ہے؟ ملک کے سماجی اور شائستگی کے شیرازہ کو لگی اس آگ کو بچانے کے لیے حکومت و ریاست کی پہلی ذمے داری کیا ہونی چاہیے۔

کیا گربہ کشتن روز اول کی طرح مجرموں کا سر کچلنا ضروری ہے یا اس بات کا فیصلہ کرنا کہ وہ خاتون موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ سے روانہ کیوں نہیں ہوئی یا رات کو اس کے سفر کا وقت مناسب تھا یا نہیں۔ یہ دردناک حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ جمود، زوال اور دلدل نما فکری اور انتظامی سرنگ میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنے کے لیے ارباب سیاست کو سیاسی قوت فیصلہ کی اشد ضرورت ہے مگر اس میں بھی حکمران سیاسی بحران، انتشار اور الجھن کا شکار رہے ہیں۔ حکمت، دانش اور تدبر کی دولت کہاں غائب ہوگئی بلکہ موجودہ صورتحال میں ہمارے پارلیمنٹیرینز، دانشوروں اور اکابرین کی ذہنی حالت کیا ہوگئی ہے اس کی ایک ہلکی جھلک موٹر وے سانحہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو میں لگی لپٹے بغیر جنسی مجرموں کو سزائے موت دینے یا ان کی جنسی صلاحیت ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے، وہ ملکی سماجی صورتحال کا حوالہ پہلے ہی دے چکے، تاہم حالات ایک سانحہ کے باعث اس نہج تک نہیں پہنچے۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

بات جرم کی نوعیت، سفاک مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ہے، عوام مشتعل ہیں، سانحہ اس قدر درد انگیز ہے کہ ایک پولیس افسر کے غیر ذمے دارانہ تبصرہ سے آگ لگتے لگتے رہ گئی، اچھا ہوا کہ انھوں نے عدالتی اکابرین اور سماجی دباؤ کے تحت غلطی کی معافی مانگ لی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مجرموں کو سزا دینے کے بارے میں سیاست دان جن آراء کا اظہار کر رہے ہیں اس میں بھی توازن، اعتدال، سائنسی فکر اور دلیل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، اس ملک میں بہیمانہ جرائم کے تناظر میں سیاست دانوں اور جمہوری قوتوں کے ساتھ غیر جمہوری قوتوں نے کیا سلوک کیا۔

اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، یہاں قاتلوں، جنسی درندوں، ڈاکوؤں کو سر عام پھانسی دی گئی، سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے گئے، اہل پاکستان نے وہ دردناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے، اس لیے اس تحیر اور خوف سے نکلنے کی ضرورت ہے، زمینی حقائق کا ساتھ دینا ہوگا، وزیر اعظم نے مجرموں میں جنسی صلاحیت کے خاتمہ کے اہم مسئلہ کا ایک حل تجویز کیا ہے مگر اہل فکر ونظر اس موضوع پر دلائل کے انبار لگاسکتے ہیں،  مجرم کو سخت ترین سزا ضرور ملنی چاہیے، اس میں کوئی دو رائے نہیں، اہل فکر کا کہنا ہے کہ جن ملکوں میں کاسٹریشن کے طریقہ پر عمل کیا گیا ہے۔

ان کے تجربات سے استفادہ بھی کیا جانا چاہیے، ایک رائے یہ بھی ہے کہ انسانی طبعی ساخت کے سات مراحل ہیں، جو کسی انسان کی جنسی ضروریات اور اس کی کجروی کی شکل میں مسائل کو جنم دیتی ہیں، مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ تولیدی یا جنسی صلاحیت سے محرومی اس مجرم میں عمر بھر اس جنسی خواہش کے خاتمہ پر منتج بھی ہوگی یا نہیں، دیکھنا چاہیے کہ ایسے بہیمانہ جرائم کب سے ہو رہے ہیں۔

ملک کی جواں سال نئی نسل کی تربیت کہاں ہو رہی ہے، تفریحات کہاں ہیں، جنسی بھوک اور رزق کو اہل نظر نے جرائم کے سدباب کی کوششوں میں سے الگ نہیں رکھا ہے،  ارباب اختیار تو ایک مسئلہ کے حل میں مہینے لگا دیتے ہیں، وہ مجرموں کی جنسی صلاحیت کے خاتمہ کے لیے کیا ’’موڈس آپرینڈی‘‘ پیش نظر رکھیں گے، ہمارے پولیس افسران کے میڈیکل کور کی اس ضمن میں ڈاکٹروں سے مشاورت ناگزیر ہے، ماہرین جرمیات کا کہنا ہے کہ جنسی خواہش روکی جاسکتی ہے، ختم نہیں ہوتی۔

لہٰذا کاسٹریشن یا جنسی صلاحیت کے خاتمہ کے فیصلہ پر حکمراں تذبذب اور سانپ سیڑھی کے کھیل سے گریز کریں، اپنی سمت درست رکھیں۔ یہ ایک بنت حوا کی عصمت و آبرو اور اس کے معصوم بچوں کے مستقبل، ان کی خوشیوں اور خوابوں کے تاراج ہونے کا المیہ ہے، اگر حکومت مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے مجوزہ قانون لانے میں سنجیدہ ہے تو پہل کرے، مرکزی ملزموں تک قانون کے لمبے ہاتھ پہنچ گئے ہیں، ان کا ڈی این اے میچ کرچکا ہے۔

گرفتار مبینہ ملزمان کی کیس ہسٹری میڈیا میں آچکی، اب شفاف تحقیقات اور تفتیش کے قانونی مراحل طے کرنے ہیں، ہم جس بے انصاف معاشرے میں رہتے ہیں وہاں انصاف اور گواہی کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے ججز چشم کشا ریمارکس دے چکے ہیں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل پاکستان نے انصاف کے حصول اور دباؤ سے آزاد ججوں کی خود مختاری کی جو بات کی ہے وہ قوم کی آرزوؤں کی حقیقی ترجمانی ہے۔

اس وقت ملک کو انصاف میں تاخیر سے متعلق تاریخی پیش رفت کی ضرورت ہے، 72 سالوں کے روح فرسا قومی سفر میں 22 کروڑ عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں چاہئیں، اہل وطن ایک ایسی تبدیلی چاہتے ہیں جو اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا کرے۔ انصاف ایک پیمانہ اور معیار ہے جس میں عوام کی آج کی حسرتیں اور تمنائیں تلتی ہیں،  پاکستان کا نظام اس بد نصیب خاتون کو انصاف مہیا کرے گا تو اہل وطن کو یقین آئے گا کہ جمہوریت اور عوام کے مابین رشتہ ابھی قائم ہے۔

نیویارک ٹائمز نے 2016 میں لکھا کہ بعض ممالک نے جنسی مجرموں کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، اس سلسلہ میں مجرموں کی سزاؤں کے حوالے سے حقائق بھی بیان کیے، رپورٹ میں جن ممالک میں مجرموں کو تولیدی صلاحیت سے محروم کرنے کے طریقہ کار یعنی کاسٹریشن پر بحث کی تھی اس میں اسرائیل، انڈونیشیا، ارجنٹائن، آسٹریلیشیا، یورپ، بھارت، نیوزی لینڈ، روس، جنوبی کوریا سمیت امریکا اور دیگر بھی شامل ہیں۔

اخبار نے ان دواؤں کی تفصیل بھی دی جو مجرموں میں جنسی کجروی، خواہش اور ترغیب کو روکنے میں مفید ثابت ہوئی تھیں، لیکن بعض ادویات کو محتاط طریقے سے استعمال میں لایا گیا، 1944 میں کیمیکل کاسٹریشن کا تجربہ کیا گیا، مرد مجرموں پر ان دواؤں کے اثرات کا جائزہ لیا گیا، پھر1981 میں متعدد جنسی حملوں کے مرد مجرموں کی جنسی کجروی میں کمی کا مشاہدہ کیا گیا تو اس کے نتائج پر بھی سائنسی تحقیق ہوئی۔

ماہرین نے جیلوں میں ان جنسی مجرموں میں جنسی میلانات، خواہشات اور ہیجان میں بتدریج کمی کی کامیاب رپورٹیں دیں، آج بھی ایسی دوائیں سیکس آفنڈرز کو دی جاتی ہیں، بعض دوائیں مادہ حیوانات پر آزمائی گئیں، مگر کچھ کیسز میں مرد حیوانات کاسٹریشن کے بعد بھی جنسی عمل کی طرف رغبت رکھتے دیکھے گئے، ماہرین کا کہنا تھا کہ جنسی صلاحیت کے خاتمہ کا مطلب یہ نہیں کہ کاسڑیشن یا جنسی صلاحیت کا خاتمہ مرد مجرموں میں دنیا کا مکمل خاتمہ ہوگا، ان ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرت نے سیکس کی ضرورت، جبلت اور احتیاج انسان میں رکھی ہے، انسان بھی ایک حیوان ناطق ہے، سیکس انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

حکمرانوں کو موٹر وے سانحہ سے یہ حقیقت بھی نوٹ کرنی چاہیے کہ جن ملکوں میں جنسی صلاحیتوں کے خاتمہ کی کوشش کا آغاز ہوا وہاں یہ اصول سامنے رکھا گیا کہ تولید وتناسل فطرت کے نظام کا ایک حصہ ہے، مجرموں کے تولیدی صلاحیت کے خاتمے سے یہ معلوم ہوا کہ ایسے مجرم جو سنگین جنسی مسائل کا شکار تھے، ان کی سزاؤں میں کمی کی گئی، ان کے جنسی میلانات اور خواہشات کا بھی سدباب ہوا۔

بھارت میں دہلی گینگ ریپ لا کے حوالے  سے کاسٹریشن بل پیش کیا تھا اور ساتھ ہی سزا کی مدت 30 سال مقرر کی گئی، اسی طرح اسرائیل میں دو بھائیوں کو بچوں سے جنسی بدسلوکی پر ان کی تولیدی صلاحیت روکی گئی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت جنسی درندوں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں دیر نہ لگائے، اسے جو بھی قانون سازی یا اقدام اٹھانا ہے وہ فوری اٹھائے۔ موٹروے کیس اس کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔

The post جنسی مجرموں سے نمٹنے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35Ffovb
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment