Ads

کورونا کے بعد بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے چیلنج کا سامنا

 اسلام آباد:  ملک سے ابھی کورونا کی تباہ کاریوں کے اثرات زائل نہیں ہوئے تھے کہ سیلاب نے آن لیا ہے اور اس وقت ملک  کے شہری علاقے تاریخ کی ریکارڈ ترین بارشوں سے زیر آب ہیں تو دوسری جانب دیہی علاقے سیلاب کے زیر آب ہیں جس سے ملک بھر میں بڑے زرعی رقبے کو نقصان پہنچا ہے جس کے یقینی طور پر آنے والے دنوں میں ملکی معیشت پر منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہوں گے اور حکومت کو ابھی سے اس طرف توجہ دینا ہوگی اور اگر ماضی کے معاملات کی طرح اس بار بھی پہلو تہی سے کام  لیا گیا تو پہلے سے بحرانوں میں گھری ہوئی حکومت کاایک ایسے بڑے بحران سے دوچار ہونے کا خطرہ ہے جو شائد حکومت کیلئے ایسا سونامی ثابت ہو جو حکومت کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا کیونکہ حکومت مخالف سیاسی قوتیں پہلے سے ہی حکومت کے خلاف پرتول رہی ہیں۔

ایسے میں اگر مزید مہنگائی اور خوراک کا بحران جنم لیتا ہے تو حکومت مخالف قوتوںکو حکومت کا بوریا بستر گول کرنے کیلئے باآسانی ایندھن میسر آسکے گا کیونکہ اس وقت پہلے سے سبزیوں سمیت دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اور سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے ملک کے زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصانات سے یقینی طور پر مستقبل میں پھلوں، سبزیوں سمیت دیگر اشیائے ضروریہ و خورونوش کی مزید قلت پیدا ہونے کا خطرہ ہے جس سے نہ صرف مہنگائی کا طوفان آنے کا خطرہ ہے بلکہ خوراک کی قلت کے باعث دیگر سماجی مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں جبکہ آنے والے دنوں میں یوٹیلٹی بلوں کی مد میں عوام کی مشکلات میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔

ابھی تو وزیراعظم نے یکم سستمبر سے پٹرولیم مصبنوعات کی قیمتوں میں تجویز کردہ نو روپے فی لیٹر تک کا اضافہ روک دیا ہے جو یقینی طور پر عوام کیلئے ایک ریلیف ہے مگر وہیں حکومت کیلئے ایک بڑا امتحان بھی ہے کیونکہ اسی ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی رکے ہوئے پروگرام کی بحالی کیلئے اقتصادی جائزے پر مذاکرات متوقع ہیں اور آئی ایم ایف کی پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر یوٹیلٹیز پر دی جانیوالی  سبسڈیز بارے موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اگر آئی ایم ایے کے پروگرام سے باہر نکلتے ہیں تو یہ اس سے بڑا تباہ کن ہوگا جو قیمتوں کے بوجھ کو صارفین پر منتقل کرنے سے حکومت کو برداشت کرنا تھا۔

دوسری طرف لگ رہا ہے کہ اب مستقبل کی تبدیلی کیلئے ماحول بنایا جا رہا ہے یا بنانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں کیونکہ ایک جانب اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف صف بندی کیلئے کمربستہ ہیں تو دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن)کی رہنما مریم نواز نے بھی خاموشی توڑ کر سیاسی سرگرمیاں شروع کردی ہیں اگرچہ ابھی اس طرح سے تیزی دیکھنے میں نہیں آئی ہے لیکن محدود سرگرمیوں نے بھی مسلم لیگ (ن)کے مردہ سیاسی گھوڑے میں جان ڈال دی ہے اور منگل کو بھی مریم نوا ز کی عدالت پیشی کے موقع پر عوام کی ایک بڑی تعداد نے بارہ کہو میں ان کا استقبال کیا ہے اور سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ مریم نواز کی محدود سیاسی سرگرمیوں نے حکومتی ایوانوں اور مقتدر حلقوں میں بے چینی پیدا  کر دی ہے جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما میاں نوازشریف بھی وطن واپسی کی تیاریاں کر رہے ہیں اور وطن آمد سے پہلے لندن میں اہم پیشرفت ہو رہی ہیں اور بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ملک کے سیاسی ماحول میں جو گرمی پیدا ہوئی ہے وہ انہی سرگرمیوں کی حدت کا نتیجہ ہے جو لندن میں سیاسی الاو جلایا گیا ہے۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ میاں نوازشریف کی انٹری سیاسی درجہ حرارت کو نکتہ عروج پر لے جانے کیلئے ہو گی کیونکہ ملکی غیر ملکی سطح پر جو حالات بنتے جا رہے ہیں اس سے مقتدر حلقوں میں بھی پریشانی پائی جاتی ہے اور وہ بھی معاملات کو خوشگوار انداز سے سنبھالا دینا چاہتے ہیں۔

سیاسی، سفارتی و دفاعی سطح پر بڑے چیلنجز درپیش ہیں اور اس وقت ملک میں قاضی عیسٰی کا معاملہ، وزیراعظم کے معاون خصوصی عاصم سلیم باجوہ کے اثاثہ جات کا معاملہ، نواز شریف کی اپیل کی سماعت، اپوزیشن کی اے پی سی ممکنہ تحریک، آی ایم ایف کا ریویو، ایف اے ٹی ایف کی ڈیڈ لائنز اور سب سے بڑھ کر آفات  کا نہ تھمنے والا سلسلہ ہے جو حکومت اور مقتدرہ قوتوں کے سامنے ہے جس سے نمٹنا ہے  اور پھر احتساب کی آوازیں بھی سیاسی کٹہروں سے نکل کر گہری ہونا شروع ہوگئی ہیں اور جنرل(ر) عاصم باجوہ کے معاملہ پر بھی سیاسی جماعتیں کھل کر سامنے آگئی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی جنرل ر عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایک غیرملکی میڈیا آؤٓٹ لٹ میں وزیراعظم کے معاون خصوصی لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کی جائیدادوں اور کاروبار کے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

عاصم سلیم باجوہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جو گوشوارے جمع کرائے ہیں اس پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ اب تو سپریم کورٹ میں بھی وفاقی حکومت کی کارکردگی اور رٹ پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ منگل کو سندھ میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ازخود نوٹس کی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس  نے ریمارکس دیتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ وفاقی حکومت کی آخر رٹ کہاں ہے اور وفاقی حکومت کیا کر رہی ہے؟

حکومت بالکل بے بس ہے، معزز عدلیہ کی حکومت بارے یہ آبزرویشن بہت الارمنگ ہے کیونکہ  پچھلے دوسال کے دوران مہنگائی، بیروزگاری و غربت، قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم اور مسلسل گراوٹ کا شکار اقتصادی اعشاریوں کے باعث سیاسی و سماجی اور معاشی حلقوں و عوامی حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر پہلے سے ہی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں اور اپوزیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام حکومت قراردیا جا رہا ہے اور اسی حکومتی کارکردگی کو لے کر حکومت مخالف سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف صف بندی  میں کوشاں ہیں جسکے لئے اسی ماہ آل پارٹیز کانفرنس کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔

دوسری جانب نوازشریف کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے اوراسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو سرینڈر کرنے کا حکم دیتے ہوئے 9 ستمبر کو طلب کر لیا ہے اور اب  کئی روز تک تما م مسائل دب جائیں گے اور میاں نوازشریف کا معاملہ الیکٹرانک و پرنٹ پرنٹ کے ساتھ سوشل میڈیا اور عوامی و سیاسی حلقوں میں غالب رہے گا  اتنے عرصے کیلئے حکومت کو بھی عوامی ایشوز میں گرفت سے چھٹکارا حاصل رہے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بہت بڑا سوال ہے کہ کیا میاں نوازشریف نو ستمبر کو عدالت میں پیش ہونے کیلئے وطن واپسی کیلئے رخت سفر باندھتے ہیں یا انکے وکلاء کی جانب سے کوئی نئی درخواست دائر کی جائے گی۔

ادھر افغان طالبان وفد کے پاکستان کے دورے کے بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پیر کے روز پاکستان اور افغانستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی (اے پی اے پی پی ایس) کا دوسرا اجلاس ہوا جس میں پاکستانی وفد کی سربراہی سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے جبکہ افغان وفد کی قیادت نائب وزیر خارجہ میرویس ناب نے کی۔

پاکستان اور افغانستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی کا یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہوا جب گزشتہ ہفتے دوحہ سے افغان طالبان کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، اس دورے میں طالبان وفد نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات کے بعد وزیرخارجہ نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ اْنھیں اْمید ہے کہ اس دورے کے بعد افغان امن عمل کا دوسرا مرحلہ جلد شروع ہوجائے گا جبکہ تیسری بڑی سفارتی ڈویلپمنٹ چین اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے حوالے سے ہوئی ہے، بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے اور ابھی چین اور بھارت کے درمیان تازہ جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں بڑی تعداد  میں بھارتی فوجیوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں ۔ سفارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی محض دو ممالک کا معاملہ  نہیں ہے بلکہ اسکی تاریں عالمی بالادستی سے جڑی ہیں ۔

The post کورونا کے بعد بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے چیلنج کا سامنا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3lHMIqU
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment