جاندار اشیاء جتنی بھی ہیں ، ان میں اگر کوئی بیرونی چیز اضافی ڈال دی جائے توان کا نہ صرف مزاج ہی بلکہ عادات و کیفیات بدل جاتی ہیں۔ مثلاً نابالغ بچے کو ہارمون کا استعمال کرائیں تو نہ صرف اس کے چہرے پر تبدیلی کے آثار رونما ہوں گے بلکہ آواز اور عادات بھی بدل جائیں گی۔
پودے بھی جاندار ہوتے ہیں۔حیوانوں میں حرکت مکانی (پورے جسم کا حرکت کرنا) واضح طور پر محسوس ہوتی ہے، اور نباتات میں حرکتِ وضعی محسوس ہوتی ہے مثلاً کلی چٹکنا، پھول کھلنا، بیج سے پودے کا اُگنا وغیرہ۔اس لیے جاندار انسان کے علاج کے لیے جاندار (پودے جڑی بوٹیاں) اگر درست طور پر استعمال کی جائیں تو بہت کم نقصان کے ساتھ مکمل علاج ہو جاتا ہے ۔
برعکس ازیں کیمیاوی ادویات کابے جا استعمال انسانی صحت پر ویسا ہی اثر کرتا ہے جیسے بچے پر ہارمون۔ پودوں کو بھی جلدی بڑھا نے کے لیے کچھ اشخاص مختلف ہارمونز کا استعمال کرتے ہیں ،کچھ لوگ اس دعوے کے ساتھ پودوں پر مختلف چھڑکاؤ کرتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے نہ لگیں مگر ایک بات ضرور اذہانِ انسان میں آنی چاہیے کہ جس چیز کے ذریعے کیڑے مکوڑے بھاگتے ہیں وہ انسان کو بھی تو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ مثلاً کمرے میں مچھر کو بھگانے کے لیے جن کیمیائی اشیا کا استعمال کرتے ہیں ، کچھ حساس لوگوں کو ان سے نیند آجاتی ہے اور سُستی ہو جاتی ہے۔ جب ایسا ہو تو روغنِ صندل کی خوشبو سونگھ لینی چاہیے۔
اس طرح جب پودوں کو جلدی کھانے کے قابل بنانے کے لیے کیمیاء کا استعمال کیا جائے تو پودوں کی عادت بدل جاتی ہیں جس کام کے لیے پہلے استعمال کیا جاتا تھا، اب اس کا کام بدل جاتا ہے۔ مثلاً ٹینڈے کا شوربہ بول آور ہے، پوٹاشیم کافی رکھتا ہے، مگر آج کل ٹینڈوں کا استعمال فشار الدم (بلڈ پریشر) بڑھا دیتا ہے۔اگر آڑو کا جائزہ لیا جائے ، اس میں سیب اور آڑو کی جینز کا ملاپ ’جینٹک انجنیر نگ ‘ کے ذریعے عمل میں لایا گیا ہے اب آڑو کی عادت تبدیل ہو چکی ہے۔
اب آڑو شوگرکے مریضوں کے لیے موزوں نہیں رہا، حجم زیادہ ضرور ہوا، ذائقہ بھی بہتر ہوا مگر افادیت بدل گئی۔کیلے آئرن کا معدن (ذریعہ) ہیں مگر انہیں جلدی لمبا اور کھانے کے قابل جلدی بنانے کے لیے سپرے کیا جاتا ہے، نتیجہ کے طور پر یہ بڑا بھی ہوجاتا ہے، میٹھا بھی لیکن حساس مزاج اشخاص کو ریح بناتا ہے اور قے لا دیتا ہے۔ دراصل اب ان کی شکل کیلے ،ٹینڈے اور آڑو سے مشابہت ضرور رکھتی ہے مگر ان کی افادیت اور مزاج کے لیے نئی تحقیق کی ضرورت ہے ۔
جس طرح ’اجوائن خراسانی‘ ’میتھی‘ سے مشابہت رکھنے والا بیج اور ’اجوائن دیسی ‘ ’انیسون‘ سے ملتا ہوا بیج ہے مگر نہ میتھی اجوائن خراسانی ہے اور نہ انیسون اجوائن دیسی ہے، غرض بوقتِ ضرورت اِن چاروں کا کام مختلف ہوگا، ان کا مزاج بھی مختلف ہے ، اسی طرح نئے آڑو، نئے ٹینڈے یا نئے کیلے کا و ہ کام اور وہ غذائیت نہیں ، جو اس نام سے موسوم پرانے پھل،سبزی میں تھی۔ تجزیہ سے معلوم ہونا ہے کہ نئے آڑو کی افادیت میں پتّے کی پتھری توڑنا اور ناتوانوں کو توانائی دینا مجرب ہے ، نئے ٹینڈے رنگت کو صاف کرنے کے لیے موزوں ہیں،نئے کیلے مرچ کے اثر کو دور کرنے کے لیے معاون ہیں۔ ’جینٹک انجنیرز ‘کے نزدیک یہ افادیت ان کی پرانے ’ورژن‘ پر ہے اسی لیے مستعمل ہیں۔
بعض سبزیوں کی کیفیت مختلف ہے۔ ان کی افادیت بدلی نہیں بلکہ مضرِ صحت ہو گئی ہیں مثلاً چائنیز گاجر، بندگوبھی، بھنڈی وغیرہ ۔ ’جینٹک انجنیرڈ ‘ سبزیاں ہماری ’جینز’ سے ٹکراؤ کرتی ہیں ، انسان میں کیمیاوی تبدیلی کے باعث انسانی مزاج کے لیے غیر مناسب ہیں، ان پر بھی سونڈیوں کے باعث سپرے کیے جاتے ہیں، نتیجے کے طور پر معدے میں السر، ریح، دل گھبرانا،دماغ میں بوجھل پن پیدا ہوتے ہیں ۔ گاجر عام طور پر بینائی کی تیزی کے لیے مستعمل ہے مگر چائینز گاجر بول آور کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتی، اسی کیفیت کی وجہ سے دماغ اور ہونٹوں میں خشکی پیدا ہوجاتی ہے۔
سبزی پر کیے گئے سپرے اگر پوری طرح پکانے سے پہلے نہ دھلے تو پکاتے وقت مصالحوں کے ساتھ مل کر ایک نیا ردِعمل (ری ایکشن)کرتے ہیں جس سے نائیڑروجن کیمیا پیدا ہوجاتا ہے، کچھ حصّہ ہوا میں ضرور اُڑ جاتا ہے، مگر جو حصّہ رہ جائے وہ دل ،شریانوں کونقصان دے دیتا ہے، اکثر ریح اور مروڑ کا باعث بن جاتی ہیں۔
اس کیفیت کی وجہ گاہے یہ ہے کہ انسان کے پاس وہ خامرات (انزائمز) نہیں جو انھیں ہضم کریں۔ گاہے معدے کی غشائے مخاطی کی کیفیت بدل دیتی ہیں، یعنی غشائے مخاطی (میوکس ممبرین) کے اجزاء سے ری ایکٹ کر کے معدے کے نظام ِہضم کی دیگر کیفیات کو تبدل کرتی ہیں کیونکہ جینز وہ شے ہے کہ انسان میں بھی پائی جاتی ہے اور انسان میں لحمیا ت (پروٹین) بناتی ہیں، اگر زہریلی جینز پیدا ہوجائے تو موروثیت پر ایسے اثر انداز ہوتی ہے جیسے چیچک جو کہ نسل در نسل اپنے اثرات چھوڑتی ہے۔
اب تک مصفی خون ادویہ تو دستیاب ہیں مگر مصفی موروثیت ادویہ میسر نہیں، البتہ ہاضم بوٹیاں کسی حد تک موروثیت پر بھی مثبت اثر رکھتی ہیں۔ ہماری غذاؤں میں خاص کر فاسٹ فوڈز میں ’اسٹیرائیڈ‘ کا استعمال کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں بچوں کی نشونما میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔نامعلوم طور پر جلدی بال نکل رہے ہیں ،بچیاں خاص طور پر متاثر ہیں،ظاہری طورپر نہیں پتہ ہوتا ہے جلدی بلوغت کیوں ہورہی ہے،مگر فاسٹ فوڈز میںموجود ’اسٹیرائیڈ‘ ان علامات کا ذمہ دار ہے۔
’جینٹک انجنیرڈ‘ غذاؤں کے نقصان سے کیسے بچیں:
1۔ کھانے کے چار گھنٹے بعد ورزش کریں تاکہ قوتِ مدافعت جسم میں غیر مناسب تبدیلی سے روک سکے۔
2۔کوئی علامت ظاہر ہوتے دیکھیں تو درگزر کرنے کی بجائے تدارک کی کوشش کریں۔
3۔ مصالحہ جات کا دھیان سے استعمال کریں۔
4۔جہاں تک ممکن ہو گھریلو سطح پر دیسی بیج سے خود اُگائی ہوئی سبزیاں اور پھل استعمال کریں۔
قہوہ
کیونکہ چائے(گرین ٹی، بلیک ٹی ، اُولونگ ٹی) کے گھر پر پودے لگانا مشکل ہیں ، لہذا قہوہ کا استعمال مناسب ہے۔ ادرک، پودینہ، لہسن، برگِ نیم کا قہوہ ہفتہ وار استعمال کریں۔ یہ مصفی خون اور ہاضم ہیں۔
ادرک زیرِ زمین سے نکالی جاتی ہے ، اس کی کیفیت چرپری ہے، اگر کوئی اسپرے (ہارمون) ڈالا جائے تو ذائقہ کھو دیتی ہے۔
پودینہ : پتے گھر پر اُگانا آسان ہے۔
لہسن: بغیر پکائے جلانے کی کیفیت رکھتے ہیں اور دافع زہر ہیں۔
برگ ِنیم : ہارمون اسپرے کی صورت میں پتوں کی شکل بدل جاتی ہے۔
The post ’جینٹک انجینئرڈ‘ غذاؤں کے نقصان سے کیسے بچیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31T4kbD
0 comments:
Post a Comment