Ads

جنسی جرائم کا سدباب ناگزیر

ملک میں جنسی زیادتی کے واقعات رونما ہونے کا ایک تسلسل ہے، جو رکنے یا تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے،ایسے واقعات کے تدارک اور ان پرقابو پانے کی تمام کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں۔

معاشرہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ کیا جنسی دیوانگی کی کوئی لہر wave  آئی ہوئی ہے، معاشرہ تہذیبی زوال کا شکار ہے، رشتوں کا مشرقی تقدس ختم ہوگیا ہے یا جنسی بھیڑیے ہر قسم کی پابندیوں سے چھوٹ کر انسانی آبادیوں پر حملہ آور ہورہے ہیں،آخر کیا  مسئلہ ہے؟

ماہرین معاشیات و نفسیات کا کہنا ہے کہ درحقیقت ہمارا سماجی ومعاشرتی ڈھانچہ زمین بوس ہو رہا ہے، عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے جب کہ کمزور تفتیش اور عدالتی نظام کے سقم سے فائدہ اٹھانے والے مجرموں کے دلوں سے قانون کا خوف جاتا رہا ہے۔

’’سزا‘‘ کا تصور ختم ہوچلا ہے، اگرصرف ایک دن کے اخبارات کی خبروں پر نظر ڈالی جائے،توہمیں بے شمار افسوسناک واقعات کی خبریں ملک بھرسے پڑھنے کو ملتی ہیں۔ قصور میں زینب کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کے بعد ملک بھر میں ایسے واقعات کے حوالے سے غصے کی لہر دوڑگئی تھی لیکن اس کے باوجود بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ جنسی زیادتی کا شکار پانچ سال کی بچی سے لے کر تمام عمرکی خواتین شکار ہو رہی ہیں،خواجہ سرا قتل ہورہے ہیں، چھوٹے بچوں اور لڑکوں سے بدفعلی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔

آخریہ سب کیا ہے، کیوں ہے اور اس رجحان پرکس طرح قابو پایا جاسکتا ہے،ان اسباب اور عوامل کو جاننے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جنسی زیادتی کے واقعات رونما ہونا کوئی آج یا کل کی بات نہیں۔ اس کی تاریخ کافی پرانی ہے اور اس کی بنیادیں بھی کافی گہری ہیں اور ہماری ہی نسلیں اس کی پرورش کرتی آئی ہیں۔ اس سے مراد ہر وہ عمل ہے جس میں عموماً ایک فرد اپنی عمر سے چھوٹے فرد (کو مرضی کے بغیر) یا بچے کو عملاً یا اشارتاً جنسی لذت کے لیے استعمال کرتا ہے۔

یہاں پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچوں پر ’’مرضی‘‘ والی شرط لاگو نہیں ہوتی، کیونکہ ان کی رائے ناپختہ ہی ہوتی ہے جو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دیکربآسانی بدلی جا سکتی ہے۔ جنسی زیادتی کا میسر ریکارڈ اگرچہ بہت کم ہے، کیونکہ اس طرح کے کیسز زیادہ تر رپورٹ نہیں ہوتے۔ پھر بھی ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق بچیوں میں ہر تین میں سے ایک اور بچوں میں ہر سات میں سے ایک کو 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کم ازکم ایک بار جنسی زیادتی کا شکار بننا پڑتا ہے اور ہم میں سے تقریباً ہر انسان کسی ایک ایسے شخص کوضرور جانتا ہے جس نے یہ گھناؤنا جرم کیا ہو اور اس سے بھی حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ نوے فی صد بچے ایسے لوگوں سے زیادتی کا نشانہ بنے جن کو وہ پہلے سے جانتے تھے اور جن پر ان کو اور ان کے والدین کو بھروسا تھا۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے۔

اس کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ جنسی لذت ہی اصل مقصد ہو، بلکہ جنسی زیادتی کے واقعات پیسہ کمانے، بلیک میل کرنے، دشمنی کا بدلہ چکانے یا دیگر مقاصد کے لیے بھی رونما ہوسکتے ہیں۔ انتقامی ذہنیت بھی صورتحال کا سبب ہوسکتی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی ریپسٹ کے جرم کے اسباب کی تشخیص کے لیے اس عمل کی وجوہات کا ٹھوس تعین اوران وجوہات کی شدت طے کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم کئی مختلف نفسیاتی اور طبی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ریپ کے مرتکب افراد میں کسی جسمانی یا نفسیاتی دکھ محسوس کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے، وہ تقریباً بیماری کی حد تک خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں خاص طور پر خواتین کے خلاف جارحانہ جذبات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔

پولیس جنسی زیادتی کے شکار بچوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کرتی ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان جو کمیونیکیشن گیپ ہے، وہ بھی ان واقعات کو دبانے کا سبب بنتا ہے۔ معاشرہ میں بچے کو صرف خاموش رہنے کی تربیت دی جاتی ہے اور بڑوں پر اندھا اعتماد کرنا سکھایا جاتا ہے۔ انھیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کیا ہے۔ والدین بچوں سے اس موضوع پر نہ ہی کھل کر بات کرتے ہیں اور نہ ان کی تربیت کرتے ہیں۔ اسکول میں بھی کیونکہ بچے کمزور ہوتے ہیں، اس لیے ان پر حملہ آسان ہو جاتا ہے، اگر قوانین پر سختی سے عمل در آمد کیا جائے تو اس کا سدباب ممکن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجموعی سماجی تبدیلی اور رویوں میں تبدیلی بھی اہم ہے۔

ان واقعات کا ایک نفسیاتی پہلو یہ ہے کہ جب آدمی میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ اس کی زندگی بے معنی ہے اور یہ کہ باعزت روزگار نہ ہونے سے اس کی زندگی میں کوئی عزت بھی نہیں ہے، ایسے میں بندہ کبھی کبھار اپنا شعورکھو بیٹھتا ہے یعنی وہ پھرکمزور پر اپنی طاقت کا رعب جھاڑتا ہے، کمزور پر ظلم کرتا ہے اور خودکو سمجھتا ہے کہ وہ بہت طاقتورہوچکاہے، ایسے افراد معاشرے میں صحیح مقام نہ ملنے کی صورت میں کوئی نہ کوئی ایکٹی ویٹی تلاش کرتے ہیں ، مگر ان تمام باتوں کے باوجود حکمرانوں کی زیر نگرانی پلنے والا معاشرہ اس قدر بے راہ روی کا شکار ہوچکا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے، جب آپ کو معلوم ہوجائے کہ جو جرم یا گھناؤنا کردار آپ کرنے جا رہے ہیں۔

اس کے جرم میں آپ بچ جائیں گے اور اس ملک کا قانون آپ کو سخت سے سخت جرم کی پاداش میں بھی باعزت بری کردے گا تو پھر کیونکر آپ اس گناہ کوکرنے سے گھبرائیں گے؟ ماں باپ گھریلو مجبوریوں اور مسلسل تنگدستی کے باعث روٹی کے حصول کے لیے دربدر پھریں یا پھر اپنے بچوں کو نفسانی بھیڑیوں سے بچاتے پھریں؟ مسلسل بے روزگاری اور غربت نے اس ملک کے بڑے بوڑھوں کے اندر مقصدیت کو ختم کردیا ہے۔ آخر سوچنے کی بات ہے کہ کئی بچوں کا باپ ہوکر بھی کوئی اتنی بربریت برپا کرسکتا ہے.

آج انسانوں کے اندر جینے اورکچھ کر دکھانے کا جذبہ دم توڑ چکا ہے جو آدمی سمجھتا ہے کہ اس کی اس زندگی میں کوئی عزت نہیں ہے اور یہ کہ ظالم سماج میں روٹی کے حصول کے لیے جب تک آپ درندے نہیں بن جاتے نہ تو آپ کو معاشرہ عزت دیگا اور نہ ہی روٹی دیگا۔تو پھر وہی بات آجاتی ہے کہ اس معاشرے میں پلنے والے ناسور یہ سمجھ کر اس طرح کے واقعات کرگزرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں سزاؤں کا خوف نہیں اور اس کے ساتھ ان کی زندگیوں میں سے مقصدیت کا خاتمہ انھیں وحشی درندے بناتا جا رہا ہے جس میں انھیں نہ تو اپنی عزت کا خیال رہا ہے اور نہ کسی اور کی عزت کا پاس رہا ہے۔

جیسے موٹروے پر دو ہفتے قبل ایک خاتون کا اس کے بچوں کے سامنے ریپ کیا گیا ہے۔میڈیا نے بہت زیادہ اس واقعے کو کوریج دی اور عوامی رد عمل بھی سامنے آرہا ہے تو سبھی منتخب نمایندے مگرمچھ کے آنسو بہانے اور جھوٹی تسلیاں دیتے نظر آئے۔ حکمرانوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ انھیں تحفظ کا احساس دلائیں، مظلوموں کے سرپر دست شفقت رکھیں اور مجرموں کو سزائیں دلوائیں۔ آئینہ سچ بولتا ہے، ہم سب کو آئینے میں اپنی صورت دیکھنی چاہیے ، کہ کون کون ذمے دار ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ملک کو درپیش ہمہ جہتی صورتحال کے پیش نظر زرعی اجناس کی فراہمی اور فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے سسٹم کو مضبوط بنانے اور گندم کی وافر مقدار میں دستیابی کے اقدامات کی ہدایت کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ بھوک اور غربت کے ساتھ ہی عوام کو بیروزگاری اور مہنگائی کا سامنا ہے۔

لوگ پوچھتے ہیں کہ جب حکومت بمپرکراپ کے دعوے کرتی ہے توکس ضرورت کے تحت گندم کی درآمد کے لیے ٹینڈر جاری کیے جاتے ہیں، جب ملک کو گندم اور آٹے چینی کا کوئی بحران درپیش نہیں تو اعلانات کی کیا ضرورت ہے،گندم کی اسمگلنگ کیوں بند نہیں ہوتی،اس تضاد کو کون ختم کریگا، بلاشبہ غذائی قلت ایک اندوہ ناک مسئلہ ہے۔ملک کے ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ایک اطلاع کے مطابق وفاقی کابینہ نے معصوم بچوں،بچیوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کرلیا ہے، مسودہ قانون جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، تاکہ جنسی شکاریوں کو اس کا موقع نہ ملے کہ وہ انسانی سماج کو اپنی غیرانسانی وارداتوں  سے خوف وہراس کا نشانہ بنائیں۔

ضروت اس امر کی بھی ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے موثر قوانین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سفارشات اور جنسی مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح،تربیت، نفسیاتی بحالی کے سائنسی طریقوں کا جائزہ لیا جائے، مغرب میں کئی ممالک جنسی مجرموں کے لیے صرف سخت سزاؤں پر انٖحصار نہیں کرتے، وہ ڈیٹرنس سمیت سائیکالوجیکل علاج اور جنسی جرائم میں ملوث افراد کی اصلاح کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں، لیکن جس منظم طریقے سے جنسی جرائم کی وارداتوں کو میڈیا پر پیش کیا جاتا ہے وہ بھی محل نظر ہے۔

اس بنیادی مسئلہ کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ ملک میں فحش لٹریچر، فلموں،بولڈ ڈراموں اور دیگر پر کشش پروگراموں کی افراط وتفریط اور پولیرائزیشن بھی لمحہ فکریہ ہے، نئی نسل کو صحت مند تفریح کے ذرایع میسر نہیں، ایک ناقابل بیان گھٹن کا ماحول ہے، سیکس ایک ممنوعہ موضوع ہے جب کہ فطرت نے نسل انسانی کی فطری آفرینش کے لیے تہذیبی اصول اور شرعی قوانین نافذ کیے ہیں کسی کو جنسی درندگی کا کھلا لائسنس نہیں دیا جاسکتا۔ وقت آگیا ہے کہ ارباب اختیار قانون سازی کا حق ادا کریں کیونکہ جنسی تشدد اور شرمناک جرائم کا مستقل سدباب ناگزیر ہے۔

The post جنسی جرائم کا سدباب ناگزیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3691hhU
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment