وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز پٹرولیم ڈویژن کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سبسڈیز سے وہ لوگ استفادہ کررہے ہیں جو پہلے ہی طاقتور ہیں، بجلی کی طرح گیس کے شعبہ کا گردشی قرضہ بھی بڑھ رہا ہے، درآمدی اور ملک کے اندر پیدا ہونے والی گیس کی قیمت میں بہت بڑا فرق ہے، درآمدی گیس موجودہ قیمت پر فراہم کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ آج ہماری انڈسٹری کو مشکل حالات کا سامنا ہے، سردیوں میں ہمیں گیس کے بڑے بحران کا سامنا ہوتا ہے۔
بادی النظر میں وزیراعظم نے گیس کی قلت کے خطرہ کا تکنیکی انداز میں عندیہ دیا ہے اور سب سے بڑا سوال سبسڈی دینے کا بھی اٹھایا ہے، وہ سبسڈی کا ذکر قدرے رنج والم کے ساتھ کرتے ہیں، ان کی گفتگو کے بین السطور میں سبسڈی ایک اقتصادی اور مالیاتی اضطراب کی صورت گردش کرتی ہے اور گردشی قرضوں تک جاکر اس کا قصہ ختم ہوتا ہے ، مگر سوال یہ ہے کہ سبسڈی کے اصل بینیفشری تو اس ملک کے ان ٹچ ایبلز اور امرا ہیں، بااثرکاروباری لوگ ہیں،عام یوٹیلیٹی سے استفادہ کرنے والے غریب اور متوسط عوام کوکوئی سبسڈی نہیں ملتی ۔ جو صنعتکار، تاجر اور بزنس کلاس ہے۔
ان کے پیداواری اخراجات، پروڈکٹس کی اضافی لاگت ، حکومتی ٹیکسز اور ڈیوٹیز ،جی ایس ٹی، ریفنڈ اور سینٹل ایکسائز ڈیوٹی وغیرہ کے مالیاتی بکھیڑے آتے ہیں، دس روپے کی چیز عوام کو بیس روپے میں ملتی ہے، عام صارفین کو توگیس ، بجلی، گندم اور چینی کی مد میں کبھی کوئی سبسڈی نہیں ملی، چینی اورگندم اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آئی تو پرجوش حکومتی افراد نے قوم کو یقین دلایا تھا کہ چینی اور آٹا مافیا کوکیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
ان کو عبرت ناک سزا ملے گی مگر مافیا کا کوئی اونٹ پہاڑ تلے نہیں آیا، وزیر اعظم کو اس مافیا کی گردن ناپنی چاہیے جو ملکی معاشی استحکام کی راہ کی سب سے بڑی دیوار ہے، ادھر اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ مافیا حکومت کے اندر موجود ہے، لہذا سبسڈی ازم سے مستفید ہونے والی بے لگام مافیا کوکہیں تو سخت سزا ملے۔
غیرجانبدار سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہر عوام دوست جمہوری حکومت کا پلس پوائنٹ یہی ہوتا ہے کہ وہ ملکی اقتصادیات پر مثبت انداز میں گہری نظر رکھتی، عوام کو ریلیف دیتی ہے، روزمرہ ضروریات کی فراہمی یا اس میںدرپیش ممکنہ مسائل اور چیلنجز پر معروضی اور حقیقت پسندانہ طریقہ اختیارکرتی ہے ، معاشی ماہرین کے خیال میں وزیراعظم نے مستقبل میں قدرتی گیس کے دستیابی کے حوالے سے عملی دشواریوں کا بوجوہ یا حفظ ماتقدم کے طور پر تذکرہ کیا ہے تاکہ سردیوں میں جب گیس کی قلت پیدا ہو تو عوام مشتعل نہ ہوں، بلکہ ذہنی طور پر تیار رہیں اور یاد رکھیں کہ ان کے وزیراعظم اس مشکل گھڑی سے انھیں پہلے ہی آگاہ کرچکے تھے، تاہم بدقسمتی سے ملکی سیاست میں اضطراب اور بدگمانی کا گراف بڑھ چکا ہے۔
کوئی فہمیدہ اور سنجیدہ سیاسی تجویزحکومت کے گوش گزار نہیں کی جاسکتی، فکر انگیزمکالمہ کی روایت سسکیاں لے رہی ہے، اس سیاق وسباق میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کو بلاشبہ توانائی بحران کا سامنا ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ بدستورجاری ہے، اطلاع یہ ہے کہ بجلی کے بلنگ ڈیٹا کی سائبرہیکنگ کی گئی ہے،گیس کی ملک گیرلوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں کہ گیس اور بجلی کی قیمتوںمیں مزید اضافہ ہوگا۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے بیان کے مطابق درآمدی شعبے کے لیے ٹیرف 20فیصد مہنگا ہوگا،یوں صنعتی اورکاروباری طبقہ اور دوسری طرف عوام میں اس تشویش کا پایا جانا فطری ہے کہ حکومت مہنگائی روکنے کے اقدامات میں سنجیدہ نہیں،جب کہ ارباب اختیار کو سوچنا چاہیے کہ ایک طرف عوام کورونا کیسزمیں شدت کم ہونے اور وائرس سے مکمل نجات کا جشن منانے کی سوچ رہے ہیں، دنیا پاکستان کے صحت اقدامات کی تحسین کررہی ہے ، دوسری طرف سردیوں میں گیس کے بحران کی نویدکا ملنا عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہی بن سکتا ہے۔
حکمران جانتے ہیں کہ کورونا کے قریبی زوال کے بعد ملک میں مون سون کی بارشوں نے تباہی مچائی ، ایسی صورت میں لوگ کہیں گے کہ ابھی چین کا سانس بھی نہ لیا تھا کہ گیس کی قلت کی خبر ملی۔ میڈیا کے مطابق گیس کی فلکچویشن اور بعض شہروں میں گیس کے غیر علانیہ غائب ہونے کی شکایات میں بھی اضافہ ہوچکا ہے،گھریلو خواتین کوکھانا پکانے میں دشواریوں کا سامنا ہے جب کہ موسم سرما کی ابتدا نومبر، دسمبر میں متوقع ہے، اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حالیہ ہوشربا تناظر میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔
وزیراعظم عمران خان نے سیمینار کے شرکا سے کہا کہ پچھلے30سال میں ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی، ماضی میں بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے ہماری صنعتوں پر بوجھ پڑا، ملکی مسائل کے حل کے لیے بحث ومباحثہ ہونا چاہیے۔
وزیراعظم نے کہا سبسڈیز دینے کا مقصد غریب عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ ان کو سستی سہولت دستیاب ہو، دوسرے ان علاقوں کے لیے سبسڈی دی جاتی ہے جو ترقی میں پیچھے رہ گئے ہیں تاکہ فی کس آمدنی اورجی ڈی پی کی شرح میں اضافہ ہو اور ہم قرضے واپس کریں مگر اس طرح کی بحث ہی نہیں ہوئی کہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے، پہلے فیصلے ہوجاتے تو آج مشکل صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ بلاشبہ ایل پی جی غریب لوگ استعمال کرتے ہیں اور اس کی پیداواری لاگت زیادہ ہے۔
ملک میں27 فیصد لوگوں کو پائپ لائنوں سے گیس ملتی ہے۔ آج ہماری انڈسٹری کو مشکل حالات کا سامنا ہے، سردیوں میں ہمیں گیس کے بڑے بحران کا سامنا ہوتا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کو اچانک معاشی اور اقتصادی معاملات کیوں گھیرلیتے ہیں، ایسی کوئی مربوط، مستحکم اور نتیجہ خیز پالیسیوں کا سلسلہ عوام کے جمہوری ثمرات سے منسلک کیوں نہیں ہوتا، دو سال گزرگئے ابھی تک وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم صحرا میں بھٹک رہی ہے۔
وزیراعظم کہتے ہیں ہم آئی پی پیزکے شکر گزار ہیں جنھوں نے پرانے معاہدوں پر نظر ثانی کرکے نئے معاہدے کیے ہیں، آیندہ ہفتے اس سلسلے میں ہم تفصیلات سے آگاہ کریں گے کہ اس سے کتنی بچت ہوئی ہے اورکتنا فائدہ ہوگا، ادھر ملک میں پیدا ہونے والی گیس کے ذخائرکم ہورہے ہیں۔ پاکستان میں پن بجلی کی پیداوارکی بڑی صلاحیت موجود ہے لیکن ماضی میں اس سے فائدہ اٹھانے کا کسی نے نہیں سوچا، بدقسمتی سے یہاں الیکشن کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کی جاتی رہی ہے، ہم ملک میں 17روپے فی یونٹ بجلی پیدا کرکے14روپے فی یونٹ فروخت کررہے ہیں جس کی وجہ سے گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔ ہمیں قومی مفاد کو ترجیح دینی ہے۔
دریں اثناء نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی برائے اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائززکے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا حکومت تعمیرات اور ایس ایم ایزکے فروغ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، اس سلسلے میں نہ صرف رکاوٹیں دورکی جائیں گی بلکہ تمام ممکنہ مراعات بھی فراہم کی جائیں گی۔
چھوٹی اوردرمیانے درجے کی صنعتوں کے حوالے سے مجوزہ ایس ایم ای پالیسی 2020 وزیر اعظم کو پیش کی گئی۔ عمران خان نے کہا ایس ایم ایز ملکی معیشت کے استحکام و فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، ماضی میں انھیں نظراندازکیا جاتا رہا۔ انھوں نے ہدایت کی کہ ایس ایم ایزکو سہولیات اور مراعات کی فراہمی کے حوالے سے بین الاقوامی بہترین طریقہ کار (انٹرنیشنل بیسٹ پریکٹسز)سے استفادہ کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ سبسڈی کے طلسم کدہ سے نکلنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ملک کو اقتصادی ترقی اور عوامی خوشحالی کا جو مشن پیش نظر ہے اور تبدیلی کی جس خواہش کا قوم حکمرانوں سے توقع رکھ رہی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعظم ، تقدیر پلٹ،دلیرانہ اور غیر روایتی فیصلے کریں، کسی دباؤ میں نہ آئیں، سبسڈی کے مسئلہ کا صائب حل یہی ہے کہ صاحبان ِ اختیارکے صوابدیدی اختیار کو ہی ختم کیا جائے،کسی وزیراعظم،وزرائے اعلیٰ، گورنر صاحبان، سینیٹرزاور بیوروکریٹس کو سرکاری اراضی کی چھین جھپٹ ،الاٹمنٹ اور خرید وفروخت کا کھلا لائسنس نہیں ملنا چاہیے۔
سرکارکی زمین بذریعہ نیلام ،آئین وقانون اور طے شدہ سرکاری قواعد وضوابط کی روشنی میں ڈسپوزکی جائے، شفافیت کو ہر قیمت پر بالادستی حاصل ہو، لینڈ گریبرز پر اسی طرح قابوکیا جاسکتا ہے، زمینوں کی لوٹ کھسوٹ ہی سیاسی طاقت اور اختیارات کے بے جا استعمال کا باعث بنتی رہی ہے، زمین کے چکر میں جمہوریت رسوا ہوئی ہے، پارلیمنٹ کا تقدس پامال ہوا ہے، جو فلاحی و رفاہی ادارے ہیں، ان سمیت تمام اداروں اورگروہوں کو سرکاری پلاٹوں کی منظوری کے صوابدیدی اختیارات کا سلسلہ بند کیا جائے، سیاست میں قبضہ گیری کی ہوس اور جاگیرداری اور فیوڈل ازم کی باقیات کی فرسودہ بحث کا بھی سدباب اسی سے ممکن ہے۔
سرکاری اراضی چاہے وہ کہیں اورکسی شکل میں ہو ، جاہ پرستوں ، لینڈ مافیا سے محفوظ رہ سکتی ہے، جب وزیراعظم، گورنر، وفاقی وصوبائی وزیر، بیوروکریٹ کسی کو سرکاری پلاٹ یا قطعہ اراضی دینے کے صوابدیدی استحقاق اور اختیار سے محروم ہوگا ، تب نودولتیوں کی بالادستی کا سدباب ہوگا، افسر شاہی کو پتا چل جائے گا کہ وہ حاکم نہیں عوام کی خادم ہے، تب جمہورت حقیقی معنوں میں آزاد ہوگی۔ اسی دن تبدیلی کا سورج طلوع ہوگا۔ اسی دن بے چین اقبال بھی اپنی قبر میں للکارے گا،
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
The post صوابدیدی اختیار کا خاتمہ واحد حل appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2DSAB9A
0 comments:
Post a Comment