Ads

کان کنوں کی تلخ زندگیوں کو راحت میں بدلیں

خیبرپختون خوا کے ضلع مہمند میںماربل کی کان میں پہاڑی تودہ گرنے کے واقعے میں ریسکیو ٹیم نے مزید چھ لاشوںکو ملبے سے نکال لیا ہے، جس کے بعد جاں بحق افرادکی تعداد 22 تک پہنچ گئی ہے،جب کہ ابھی تک مزیدکئی افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

مقام افسوس ہے کہ پاکستان میں کان کنی کا شعبہ اٹھارویں صدی کے طور طریقوں پر ہی کام کررہا ہے، لہذا حادثات کے رونما ہونے کا تسلسل برقرار ہے اور اس کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع روزکا معمول کہا جاسکتا ہے۔

مختلف معدنیات مثلاً نمک، کوئلہ اور جپسیم کی کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کے حالات سخت مشقت کے باوجود انتہائی پسماندہ ہیں اور نہایت قلیل اجرت سے جڑے ہونے کی وجہ سے گھمبیر مسائل کا شکار بھی ہیں۔ ایسا کیوںہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں کانوں کے مالکان با اثر ہوتے ہیں، ان کو کانکنوںکی ترقی اور ان کی صحت و سلامتی سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے ۔

کانکن ،کانوں میں میتھین گیس کے جمع ہو جانے،کان کے بیٹھ جانے، کان میں ہوا کا دباؤکم ہو جانے، آگ لگنے، زہریلے کیڑے کے کاٹنے سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں، یہ حقائق اور اعدادوشمار صرف بلوچستان کے ہیں۔

ایک بڑی تعداد ان مزدوروں کی بھی ہے جن کو کان کا ٹھیکیدار اس کا قانون کے مطابق ریکارڈ بنائے بغیر دیہاڑی دار مزدورکے طور پر صرف سستی لیبر کے حصول کے لیے اسے کام پر بھیج دیتا ہے، ایسا ورکر اگر حادثے میں مارا جائے تو اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ کان کے حادثات میں جو مزدور زخمی ہوجاتے ہیں ان کی زیادہ تعداد زندگی بھرکے لیے معذور ہو جاتی ہے۔

پنجاب کے ضلع سرگودھا میں جہاں پہاڑیوں کو توڑ کر بجری بنانے کے لیے پتھر حاصل کیا جاتا ہے اس شعبہ میں سیکڑوں مزدور پہاڑیوں سے گر کر یا پہاڑیوں کے پتھروں کے نیچے آکر جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔ اس شعبے میں کام کرنے والے محنت کشوں کا زیادہ تر تعلق ضلع سوات، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں سے ہوتا ہے اور جب یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ برقرار رکھنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔

کانوں کے اندر رونما ہونے والے حادثات میں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ تین سے سات ہزار فٹ کی گہرائی میں جاکر کام کرنے والے کانکن، کان میں اڑنے والی گرد، ہوا کے کم دباؤ اورکام کی سختی کی وجہ سے ٹی بی، دمہ، پٹھوں کی مختلف بیماریوں کے علاوہ خارش اور آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

آج بھی پاکستان کے بہت سے علاقوں میں کانوں سے مال گدھوں پر لاد کر کان سے باہر لایا جاتا ہے۔ یہاں ایک بھی ایسی کان نہیں جس میں آپ کھڑے ہوکر کان کے اندر جا سکیں۔کان کنوں کو دوران کام پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں ہوتا جس کی سپلائی قانون کے مطابق ضروری ہے۔ کان کن دوران کام گندا پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ شعبہ ملک کی کل آمدنی میں 3سے 5 فی صد تک حصہ ڈالتا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ محنت کش وابستہ ہیں، اس شعبے کو ترقی دے کر قومی آمدن میں اس کے حصہ کو بہت مناسب حد تک بڑھایا جا سکتا ہے لیکن ایسا کون کرے اورکیوںکرے؟

ایک جانب تو پاکستان میں کان کنی کے شعبے سے وابستہ کارکنوں کوکسی بھی قسم کے حقوق حاصل نہیںہیں بلکہ وہ بیچارے تو مائنز یعنی قبروں میں مزدوری کرکے روٹی روزی کماتے ہیں لیکن دوسری جانب لاطینی امریکا کے ملک چلی میں دنیا نے انسان دوستی ، ہمت وجرات کا عجب نظارہ دیکھا۔ وہ بھی اڑسٹھ دن تک۔کان میں بتیس ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور پچاسی فیصد نمی تھی جب کارکنوں کو زندہ بچانے کے لیے چھ سو میٹر سے زیادہ تک امدادی کیپسول بنایا گیا تھا ، جس کے ذریعے ان خوراک فراہم کی جاتی تھی۔

جائے وقوع پر موجود دوممالک کے صدور نے حصہ لیا بلکہ ٹیلی فون کے ذریعے صدر اوباما اور وزیر اعظم کیمرون سمیت کئی عالمی شخصیات بھی شامل رہیں۔ یعنی کان کن کو بحفاظت نکالنے کا ایسا مشن تھا، جو دنیا میں آج ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے۔ چلی کی حکومت اور ذمے دار اہلکاروں نے امدادی مشن تخلیق کیا اور بعد میں جس انداز میں اُس کی بظاہر انتہائی معمولی وغیر اہم جزیات پر بھرپورتوجہ مرکوز رکھی، اُس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس سارے عمل کو ہم انسانیت کی معراج سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔

پاکستان میں قانون یہ کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کو کان میں اس کا ریکارڈ مکمل کیے بغیر نہ بھیجا جائے، ٹھیکیدارکے نمائندے قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہرکان کے علاقہ میں ایک ڈسپینسری ہو جس میں ڈاکٹر سمیت تمام سہولیات موجود ہوں اس کا قیام ضروری ہے۔ ان سہولیات کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

ایمبولینس جوکسی بھی ایمرجنسی میں مزدوروں کو جلد از جلد اسپتال تک پہنچائے، اس کا دور تک کوئی ذکر نہیں۔ اس شعبے میں کانکنوں کی صحت وسلامتی کا زیادہ تر دارومدار محکمہ کانکنی کے انسپکٹرکا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کانوں کے لیز ہولڈرزکانکنوں کوکان میں کام کرنے کے لیے ان کی حفاظت کا تمام سامان ان کو بہم پہنچا رہے ہیں یا نہیں۔

اوّل تو محکمہ کے پاس انسپکٹرزکی مطلوبہ تعداد ہی نہیں ہے کہ وہ تمام کام بخوبی سرانجام دے سکیں، انسپکٹرحضرات دور دراز اور پر خطر علاقوں میں جا کر انسپیکشن کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے۔ بلوچستان کی کانوں میں موجود میتھین گیس کی وجہ سے سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں اس کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کی کانوں میں اس مہلک گیس کی نشاہدہی کرنے والے انڈیکیٹرز لگائے جائیں۔

ایک انڈیکیٹر کی مارکیٹ میں قیمت 25 ہزار روپے ہے لیکن کوئی لیز ہولڈر یہ انڈیکیٹرلگانے کو تیار نہیں اور متعلقہ محکمے اس پر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کان سے کوئلہ وغیرہ نکالنے کے لیے مزدوری کا تعین پیس ریٹ کے حساب سے ہوتا ہے۔ جتنا مال نکالو گے اتنی مزدوری ملے گی۔ اس تمام مزدوری کا حساب کتاب لیز ہولڈر یا ٹھیکیدار کے کار خاص جمعدار کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ آج تک کبھی بھی کانکن اپنی محنت کی پوری اجرت ان جمعداروں سے حاصل نہیں کر سکا۔ ماسوائے ان علاقوں کے جہاں کانکنوں کی مضبوط یونینز موجود ہیں۔

انگریز دور میں کھیوڑہ کے مقام پر ایک بڑی کان کا منصوبہ بنایا گیا اور مختلف جگہوں سے لوگوں کو اکٹھا کر کے کان کا کام مائینگ میتھڈ سے شروع کیا گیا تاکہ جگہ جگہ سے کھدائی کے ذریعے وقت اور طاقت کے ضیاء کو روکا جاسکے نیزکم سے کم اخراجات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو سکے۔

کم اجرت اور سخت محنت و مشقت سے ان لوگوں کی زندگیاں نہایت تلخ و بدمزہ تھیں حالانکہ یہ لوگ پورے جہاں کو لذت دھن پہنچانے میں سرگرم عمل تھے۔1930 سے قبل ان مزدوروں کو پیداوار کا ٹارگٹ دے دیا جاتا تھا اور نمک کی کانوں کو باہر سے تالا لگادیا جاتا جب تک کوئی فرد ٹارگٹ پورا نہ کرپاتا اس کو گھر جانے کی بھی اجازت نہ تھی۔

اس کے علاوہ 1937 میں کھیوڑہ نمک کان پر جیل بھی بنائی گئی جس میں ملک کے کونے کونے سے قیدیوں کو رکھا گیا اور ان سے بھی بیگار لی جاتی رہی۔ آخر 1930 میں کان نمک کے ان محنت کشوں کی یونین بنائی گئی اور عورتوں پر بچوں کے کام سے رہائی ہو پائی۔ آج بھی ان معدنی مزدوروں کے حالات نہایت دگرگوں ہیں اور ان کے حقوق پامال ہورہے ہیں۔ استحصالی رویے سے ان سے بیگار لی جارہی ہے۔

کان کنوں کے دکھ، مصائب وآلام بیان کرنے سے قاصر ہے، حالیہ سانحہ قومی نوعیت کا ہے، قلم کیسے بیان کرسکتا ہے کہ  زمین کے اندر ہزاروں فٹ نیچے کام کرنا، ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ اس بات سے کسی طور پر انکار ممکن نہیں ہے کہ کان کنی دنیا کا قدیم ترین پیشہ ہے۔ تاریخ کا کڑوا سچ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو ان کی ترقی میں کان کنی کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ امریکا سے لے کر یورپ تک تمام ممالک کی ترقی کی بنیادیں کانکنوں کی لاشوں پر ہی رکھی گئی ہیں۔

مہم جو ممالک نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے جن جن ممالک پر اپنا تسلط قائم کیا اس کے پیچھے وہاں سے خام مال کا حصول سرفہرست رہا۔ وہ کوئلہ، سونا، تانبا، جپسم، گندھک اور ہیرے جواہرات وغیرہ کی شکل میں اس دولت کو اپنے اپنے ممالک کو منتقل کرتے رہے اور اپنی صنعتی ترقی کی بنیادوں کو اس لوٹے ہوئے خام مال سے مستحکم کرتے رہے ہیں۔کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ  پاکستان میں کان کنی کی صنعت سے وابستہ مزدوروں کا جو سفاکانہ اور بے رحمانہ استحصال جاری وساری ہے وہ  اسی تسلسل کا حصہ جو نوآبادتی نظام کا حصہ رہا ہے۔

کان کنی سے وابستہ مزدور کے حالات کار جان کر راتوں کی نیند اڑجاتی ہے بلکہ رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ان مزدوروں کو سوشل سیکیورٹی کی سہولت میسر نہیں ہے۔ ان کو حادثات کا معاوضہ یا دیگر ملنے والی کئی گرانٹ کا حقدار نہیں گردانا جاتا اور نہ ہی اولڈ ایج بینفٹ کی سہولت میسر ہے۔ حرف آخر ہم  موجودہ حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کان کنی کے شعبے سے وابستہ  مزدوروں کے مسائل کو ترجیحی اور انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے گی۔

The post کان کنوں کی تلخ زندگیوں کو راحت میں بدلیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33d6uCl
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment