ایک عام گھر میں اگر ناانصافی ہوتی ہے تو پورے گھر کا نظام بگڑ جاتا ہے، یہ میں جوائنٹ فیملی کی بات کر رہا ہوں۔جوائنٹ فیملی، خاندان کے افرادکی منصفانہ کارکردگی کا شاہکار ہوتی ہے، جس کے سربراہ ماں باپ ہوتے ہیں۔ ماں باپ کا رویہ اگر اولاد کے ساتھ منصفانہ ہوتا ہے تو گھر پرسکون طریقے سے چلتا ہے اور گھر کے باسی مطمئن ہوتے ہیں۔
اس کے برخلاف اگر ماں باپ یا سرپرست اولاد کے ساتھ جانبداری برتنے لگتے ہیں تو اولاد میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے، اگر گھر کے سرپرستوں میں کوئی سمجھدار شخص ہوتا ہے تو وہ گھر میں ہونے والی ناانصافیوں کو ختم کرکے ماحول کو خراب ہونے سے بچا لیتاہے ۔ یوں گھر کی بدنظمی ختم کی جاتی ہے۔
اگر گھر میں پانچ بیٹے ہوتے ہیں تو آمدنی کی تقسیم اور کھانے پینے میں انصاف برتا جاتا ہے جہاں ایسا نہیں ہوتا اور اولاد کے ساتھ جانبداری برتی جاتی ہے تو آہستہ آہستہ گھر میں کشیدگی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور بعض صورتوں میں جب نابرابری حد سے بڑھ جاتی ہے تو بھائی آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور بات کشت و خون تک پہنچ جاتی ہے۔ عام طور پر گھر کے بڑے بیٹے کو گھر کو چلانے کی ذمے داری دی جاتی ہے، اگر بڑا بیٹا انصاف اور بھائی بندی کے ساتھ گھر کو چلاتا ہے تو گھر جنت بن جاتا ہے۔ اس کے لیے سرپرست آمدنی کی تقسیم کو منصفانہ بناتے ہیں۔ اسی طرح ماں باپ کا ترکہ اولاد میں منصفانہ طریقے سے تقسیم نہیں ہوتا تو گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے اور بات توڑ پھوڑ تک چلی جاتی ہے۔
اس حوالے سے جب ہم دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں وہ ملک پرامن اور ترقی کرتے نظر آتے ہیں، جہاں عوام کے ساتھ انصاف ہوتا ہے اور دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی ہے، اس کے برخلاف ملک اور معاشرے میں ناانصافی ہوتی ہے اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے تو امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک خاندان کے اندر سب رشتے دار بھائی بہن ہوتے ہیں جب کہ ملکی سطح پر صرف ہم وطنی کا ایک ڈھیلا ڈھالا رشتہ ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہر شخص کو کمانے کی آزادی ہوتی ہے، اس حوالے سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ معاشرے اور ملک کے عوام کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کمائیں اور دولت جمع کریں۔
اس آزادی کی وجہ سے انسان نے ناجائز طریقے سے دولت کے انبار لگانے شروع کردیے۔ اس قسم کے لوگوں کی تعداد ملک کی آبادی کا لگ بھگ 2 فیصد ہوتی ہے اور نوے فیصد کے لگ بھگ وہ عوام ہوتے ہیں جن کی محنت سے گھر کے افراد کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی۔ بھاری اکثریت یا تو نوکری پیشہ ہوتی ہے یا چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والی، اس آبادی میں کوئی دولت مند اس لیے نہیں ہوتا کہ اس آبادی یعنی ملازم پیشہ اور چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والوں کو ناجائز دولت کمانے کے سرے سے مواقعے ہی حاصل نہیں ہوتے۔
معاشرے کی اس غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ ایک طرف وہ اربوں انسان ہوتے ہیں دوسری طرف وہ دو فیصد طبقہ ہوتا ہے جو ناجائز طریقے سے ملکی دولت کے 80 فیصد حصے پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ یہ دولت غریبوں کی محنت کی کمائی ہوتی ہے جس پر مختلف حوالوں سے اشرافیہ قابض ہوجاتی ہے۔ اصولی طور پر تو اس کھلی ناانصافی پر 90 فیصد غریب عوام کو بغاوت کردینا چاہیے لیکنکیوں نہیں ہوتا؟ اس کی بڑی 90 فیصد کے لگ بھگ طبقے کو ایلیٹ کلاس نے مختلف قسم کے نظریات میں الجھایا ہوتا ہے۔ یہ ہے سرمایہ داروں کا وہ حربہ جس سے غریب طبقات کو دبا کر رکھا گیا ہے۔
پہلے دور میں ایسے افراد ایسی جماعتیں ہوتی تھیں جو ایلیٹ کلاس کی اس مالی اور نظریاتی لوٹ مار کے خلاف عوام کو متحرک کرتی تھیں اور عوامی انقلاب برپا کرکے دولت کی اس نامنصفانہ تقسیم کا خاتمہ کر دیتے تھے، اگر اشرافیہ مزاحمت کرتی تو اسے اٹھا کر باہر پھینک دیتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انقلابی لوگ، انقلابی جماعتیں منظر سے ہٹتی چلی گئیں۔
اب سرمایہ دارانہ نظام کی حامی جماعتوں اور حکومتوں کو کھلی آزادی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف دنیا کے وہ انسان ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی نصیب نہیں،دوسری طرف وہ دو فیصد طبقہ ہے جو ملک کی 80 فیصد دولت پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔
سرمایہ دار طبقے کو یہ خوف لاحق تھا کہ کروڑوں بھوکے پیاسے عوام اس کی دولت پر قبضہ کرلیں گے۔ اس خوف سے بچنے کے لیے ایلیٹ کلاس نے لا محدود نجی ملکیت کو بچانے کے لیے قانونی تحفظ دلوایا، اب کوئی غریب طبقہ ایلیٹ کی دولت کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتا کیونکہ سرمایہ داروںکو قانونی تحفظ دلوا دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرکاری مراعات یا اختیارات کے بل بوتے پر کمائی ہوئی اربوں کھربوں کی دولت کو اشرافیہ کے پنجوں سے کس طرح نکالا جائے؟ ایلیٹ یعنی سرمایہ دار طبقے نے اپنی ناجائز کمائی کے تحفظ کے لیے دوہرے تہرے انتظام کر رکھے ہیں۔
نجی ملکیت خواہ وہ اربوں میں یا کھربوں میں، اس لیے قابل استعمال ہے کہ اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔ غریب طبقات دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے حاصل کرتے ہیں۔ آج ہمارے ملک میں احتجاجی تحریکوں کا ڈول ڈالڈالا جارہا ہے ، دیکھیں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
The post گھر سے ریاست تک appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33hNWlH
0 comments:
Post a Comment