Ads

فیٹف قانون سازی، اہم پیش رفت

اپوزیشن نے فیٹف قانون سازی کوکرپشن کیسزسے بچنے کے لیے استعمال کیا،قانون سازی نہ ہوتی تو ملک بلیک لسٹ ہو جاتا۔

وزیراعظم عمران خان نے ان خدشات و خیالات کا اظہار گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مشترکہ اجلاس میں حکومت ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود 8بل منظور کرا لیے گئے۔

اس موقعے پر اپوزیشن کے34جب کہ حکومت کے18ارکان ایوان سے غیرحاضر رہے جس کے باعث اپوزیشن کی عددی اکثریت اقلیت میں بدل گئی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بولنے کا موقع نہ ملنے پر اپوزیشن ارکان نے بلزکی کاپیاں پھاڑ دیں اور واک آؤٹ کیا۔

فیٹف قانون سازی کا معاملہ انتہائی نازک تھا، کیونکہ ملک کی اقتصادی اور معاشی صورتحال کا دارومدار اس بل پر تھا۔ حکومت کا موقف ہے کہ گرے لسٹ اسے ورثے میں ملی ہے، اگر اس ضمن میں اقدامات نہ کیے جاتے تو بلیک لسٹ میں آنے سے مزید سخت پابندیوں کا سامنا کرنا آسان امر نہیں کیونکہ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہیں تو روپے پر دباؤ بڑھتا ہے، پٹرول، ڈیزل، بجلی اور ٹرانسپورٹ مہنگی ہوگی تو غربت بڑھے گی۔

وزیراعظم نے ارکان پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے، یہ بل ملکی مستقبل کے لیے ضروری تھا، تھوڑا سا ماضی قریب میں جھانکیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان پر عالمی سطح پر کافی دباؤ تھا کہ اپنی معیشت کو دستاویزی صورت دیتے ہوئے بینکوں کے کھاتوں،سونے اور پراپرٹی کی خریدوفروخت پر مسلسل کڑی نگاہ رکھے، اگر موجودہ حکومت مطلوبہ قوانین منظور نہ کرواتی تو پاکستان کو ’’بلیک لسٹ‘‘ میں ڈال دیا جاتا، اور ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک وہاں پہلے ہی سے موجود ہیں۔

ان ممالک کو عالمی منڈی سے روابط استوار کرنے میں بلیک لسٹ میں شامل ہونے کی وجہ سے بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ یہاں پر قابل غور نکتہ اور بھی ہے کہ اس تمام قانون سازی سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی سرمایہ کاری کی روک تھام کے بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط تو بآسانی  پوری ہوجائے گی۔

ان نئے قوانین کا سامنے کرنے کے لیے عوام کو کیسے تیار کیا جاتا ہے یہ حکومت پر منحصر ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد اب یہ امید تو پیدا ہو گئی ہے کہ فیٹف کے ممبر ارکان پاکستانی اقدامات سے مطمئن ہوں گے۔گزشتہ دنوں ایشیا پیسیفک گروپ کے وفد کو پاکستان کے مختلف اداروں نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے رقوم کی فراہمی کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا تھا۔

ان اقدامات میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن اور بینکنگ کے نظام میں اصلاحات شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ترقی پذیر ممالک سے ایک ہزار ارب ڈالر ترقی یافتہ ممالک میں جاتا ہے، یہی پیسہ ترقی پذیر ملک میں خرچ ہونے سے اسپتال، اسکول، ڈسپنسریاں بن سکتی ہیں۔ حوالہ، ہنڈی اور ٹی ٹی کے ذریعے ڈالروں میں پیسہ باہر منتقل ہوتا ہے، اس سے روپے پر دباؤ پڑتا ہے اور مہنگائی آتی ہے۔

اسی لیے تو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف قانون سازی قومی و اقتصادی سلامتی کا معاملہ ہے ۔ ماضی کے فیصلوں، بدانتظامی اور بدعنوانی کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے، گردشی قرضوں میں کمی سے انھیں فائدہ ہو گا،سبسڈی اصلاحات کوجلد حتمی شکل دی جائے تاکہ مستحقین کی مددکی جا سکے۔

دوسری جانب وزیراعظم کی زیر صدارت توانائی اصلاحات کے حوالے سے اجلاس میں بتایاگیا، کم کارکردگی والے 1794میگا واٹس کے پاور پلانٹس کو بند کیا جا رہا ہے، آیندہ دو سالوں میں مزید 1875 میگا واٹس کے پاور پلانٹس کو بند کر دیا جائے گا جب کہ 1872 میگا واٹس کی نجکاری کا عمل مکمل ہوجائے گا۔

ہم بصداحترام حکومت کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ملک میں گیس اوربجلی کا بحران دوبارہ سراٹھا رہا ہے۔2025 تک ملک میں گیس کی قلت 3ہزار 684ایم ایم سی ایف ڈی ہوجائے گی، اوگرا رپورٹ کے مطابق گھریلو سیکٹر پاور فرٹیلائزر اور انڈسٹری کی جانب سے گیس کھپت میں اضافہ سے شارٹ فال بڑھ رہا ہے جب کہ گیس کی مقامی پیداوار ضروریات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔

رپورٹ کے مطابق گیس کی فراہمی میں درآمدی ایل این جی کا حصہ 21فیصد تک بڑھ گیاہے جب کہ مختلف شعبوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 4ہزار 319ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جارہی ہے، سندھ 46فیصد، خیبر پختونخوا 12فیصد اور بلوچستان11 فیصد گیس پیدا کررہاہے۔

یہ تو بات ہوئی گیس بحران کی تو دوسری جانب پاکستان کے صنعتی شہرکراچی میں بجلی کی طلب 2900 میگاواٹ اور رسد2500 ہے جس کے سبب رہائشی علاقوں میں بجلی کی فراہمی میں تعطل پیدا ہورہا ہے۔ چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کا کہنا ہے کہ بجلی کی فراہمی میں تعطل کے سبب کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔کمرشل حب کراچی میں آٹھ سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ غیرعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے نہ دن کو سکون ہے نہ رات کو سو پاتے ہیں،جب کہ بجلی کی فراہمی کے ذمے دار ادارے کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ فرنس آئل اور گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے پیداوار میں کمی آئی ہے۔

کراچی میں لوڈشیڈنگ معمول بن چکی ہے۔ جب کہ ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں کا حال بھی کم وبیش یہی ہے اگر گیس اور بجلی کے بحران پر حکومت نے قابو نہ پایا تو اقتصادی اور معاشی ترقی کے سارے خواب چکناچورہوجائیں گے۔

جہاں تک مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج کا معاملہ ہے تو اس اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو موقع فراہم نہ کرنے پر اپوزیشن ارکان نے اپوزیشن لیڈر کو فلور دینے کا مطالبہ کیا تو اپوزیشن لیڈر کو فلور دینے پر حکومتی ارکان نے اعتراض کیا۔

بابر اعوان نے قومی اسمبلی کا رول131پڑھ کر سنایا اور کہا کہ کسی بھی بل کی منظوری میں ترمیم جمع کرانے والے ممبر کے علاوہ کوئی اور ممبر بات نہیں کر سکتا۔ اس پر اپوزیشن ارکان ایوان سے واک آؤٹ کر گئے جس کے بعد حکومت کے لیے قانون سازی کی راہ مزید ہموار ہوگئی۔

بعد ازاں مشترکہ اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اسی تناظر میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں فنانشل ایکشن ٹاسک (FATF) سمیت دیگر بلوں کی منظوری پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ گنتی میں ہیرا پھیری ہوئی۔

اسپیکر نے ریڈ لائن عبور کی ان کے متعلق جلد فیصلہ کرینگے،آج پارلیمان کی کارروائی کو پاؤں تلے روندا گیا ہے ، جب کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ سب غیر آئینی ہے، اسپیکر کے پاس اجازت نہیں ہے کہ وہ قائد حزب اختلاف کو روک سکیں، اتنا غیر جمہوری رویہ کبھی نہیں دیکھا۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے متحدہ اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد اپوزیشن لیڈرز کے چیمبر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ ان کا موقف تھا کہ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف کے بل کا ساتھ دیا تاکہ پاکستان کے قومی مفاد پر کوئی قدغن نہ آئے دشمنوں کو کوئی موقع نہ ملے اور تندہی سے کام کیا۔

حکومتی بینچوں کے لیے بھی صائب طریقہ کار یہی تھا کہ اپوزیشن کو بولنے کی اجازت دی جاتی۔ اپوزیشن کو بولنے کے آئینی حق سے روکنے کے مضمرات جمہوریت کے حق میں نہیں ہوں گے،اگر غیرجانبدارانہ انداز میں دیکھا جائے تو اپوزیشن اپنی ترامیم اور بعض شقوں کے بارے میں قانونی طریقہ کار پر اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرنا چاہتی تھی، اگر اسے یہ موقع فراہم کیا جاتا تو زیادہ اچھا ہوتا جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو اظہار خیال کا موقع ملنا چاہیے تھا۔

اس طرح ایوان کی کارروائی ایک اہم قومی ایشو پر مناسب انداز سے چلتی اور مفاہمانہ طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت تھی۔ اب جب کہ فیٹف بلوں کی مشترکہ اجلاس کے بعد منظوری ہو چکی ہے۔ راستہ اب ہموار ہے۔ حکومت فیٹف اجلاس میں اپنے موقف کے حق میں پراعتماد ہوکر معروضات پیش کر سکتی ہے۔دانش مندانہ جمہوری طرز عمل اور موجودہ صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کے درمیان ملکی معیشت اور چیلنجز کے پیش نظر فیٹف پر ایک قومی متفقہ بیانیہ ترتیب پانا چاہیے۔

اپوزیشن کو بھارت کے پیج پر ہونے اور اس کے مفادات کے لیے قومی مفاد پر سمجھوتہ کے الزامات نہیں لگانے چاہئیں۔مفاہمت ناگزیر ہے اور قومی ضرورت کے ایک عالمی فورم پر ملک جب اپنا کیس اور سفارشات پیش کریں تو اس کی حمایت اپوزیشن اور پوری قوم بہ یک زبان کردے، یہی پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔آخر میں اردو غزل کی آبرو میرتقی میرکے اس شعر پر اختتام کرتے ہیں کہ

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

The post فیٹف قانون سازی، اہم پیش رفت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3iJt9wr
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment