پاک فوج کے جوان اپنا آج ہمارے کل پر قربان کررہے ہیں۔ مادروطن کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کرنے والے جوانوں پر قوم کو فخر ہے۔ اگلے روز شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسزکی گاڑی پر دہشت گردوں کی جانب سے آئی ای ڈی حملے میں لیفٹیننٹ اور دو جوان شہید ہوگئے جب کہ چار اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
دہشتگردی کے خاتمے کے لیے لڑی جانے والی جنگ صبرآزما ہے، لیکن ہم اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوںکو پڑوسی ممالک افغانستان اور بھارت کی آشیرباد حاصل ہے لیکن پاک فوج نے ان دہشتگردوں کا مقابلہ کرکے ان کے عزائم کو خاک میں ملایا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے موثر نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور ملک میں امن و امان کی صورت حال بڑی حد تک بہتر ہوچکی ہے۔ حقیقت پسند عالمی قیادت آپریشن کے نتائج پر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے پاک فوج کی قربانیوں کی واشگاف الفاظ میں تحسین کررہی ہے۔ دہشتگردی کسی خطے، ملک یا قوم کا انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔
پاکستان داخلی طور پرکئی عناصر سے نبرد آزما ہے، ملک کی سرحدوں پر خطرات منڈلارہے ہیں ، اگر تزویراتی اور عسکری حوالہ سے دیکھا جائے تو پاکستان کو پاک افغان سرحد، اس سے ملحقہ بلوچستان کی صورتحال اور پھر ایران وبلوچستان کے سرحدی معاملات بھی پیش بندی اور سیاسی عزائم رکھنے والوں اورکرمنل عناصر کی روک تھام کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں۔
اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کو دہشتگردی اور انتہا پسندی کی مشکلات کا سامنا ہے جو علاقائی اور عالمی اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہے، ہم نے ہزاروں قربانیاں دی ہیں ،ہماری معیشت کو دہشت گردی کی وجہ سے 120 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
پاکستان نے گزشتہ ڈیڑھ عشرے میں بدترین قسم کی دہشت گردی کو عبرت ناک شکست دی ہے ، ملک نے طالبان کی شکل میں دہشت گردی کی قیمت چکائی ہے، حکمرانوں کو اسلحہ کی اسمگلنگ،اسمگلرز اور کرمنلز کی آزادانہ نقل مکانی اور رسائیکو سختی سے روکنا ہوگا، ملک دشمن اور داخلی امن کو نقصان پہنچانے والے گروہوں سے بچانا ہوگا، سیکیورٹی فورسزکو اسمگلنگ، جرائم اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیاسی وعسکری سطح پر اہم کامیابیاں ملی ہیں مگر ضرورت اب بھی مادرپدر آزاد لوگوں کو جن کی ریاست پاکستان کی سلامتی سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں ہے جو اس ملک کو اندر سے غیر مستحکم کرنے کے درپے ہیں،ان پرنظر رکھنا ہوگی۔
تازہ ترین واقعے اور اس سے قبل رونما ہونیوالے واقعات کی روشنی میں دیکھا جائے تو افغانستان کی حکومت کی عدم دلچسپی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے جب کہ پاکستان کی جانب سے اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ امن اورمفاہمت کے عمل سے افغان مہاجرین کی باوقار اورباعزت وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے گا۔
زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے توچھ عشروں سے پاکستان کی حکومت کی طرف سے افغانستان اورکسی حد تک ایران سے ملنے والی سرحد پر لوگوں کی آمدورفت پرکوئی پابندی عائد نہیں تھی، مگرحال میں پاکستان سرحدی گزرگاہوں کے اس نظام کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان کے حکام طورخم کی گزرگاہ سے پاکستان داخل ہونے والے ہر افغان شہری سے مکمل دستاویزات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
جون میں پاک ایران سرحد پرپاکستان نے ایک نئے گیٹ کی تعمیر شروع کردی۔ یہ گیٹ بلوچستان کے علاقے تفتان میں ہے، اور اس کا افتتاح اگست میں ہوا۔ ایران کی سرحدکی طرف بھی سیستان بلوچستان کے علاقے میرجاوے میں ایک ایسا ہی گیٹ کچھ عرصے سے موجود ہے جسے ماضی میں چند مواقعے پر ایران نے بندکیا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان 532 سرحدی گزرگاہیں ہیں۔ ان میں سے صرف دو مقامات، چمن اور طورخم پر سخت سیکیورٹی نافذ ہے اورداخلے کے لیے مکمل دستاویزات پیش کرنا ضروری ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ہر سرحدی گزرگاہ پر ایسی چیکنگ کرسکے۔ ان واقعات سے قبل پاکستان میں ایسے کئی غیر ملکی پکڑے گئے جن کے پاس نادرا سے حاصل کیے ہوئے مبینہ جعلی شناختی کارڈ موجود تھے۔
کچھ خبروں کے مطابق یہ جعلی شناختی کارڈ نادرا کے افسران کو رشوت کے بدلے میں حاصل کیے گئے۔ ان افسران کو گرفتارکرلیا گیا۔ اتفاق سے امیرِ طالبان، ملّا منصورکے پاس بھی ایک جائز پاکستانی پاسپورٹ تھا۔ اسی پاسپورٹ پر ملّا منصور نے ایران تک سفرکیا، اور تفتان کے ذریعے پاکستان واپس آرہے تھے جب وہ امریکی ڈرون حملے کا شکار ہوئے۔
آج پاکستان اپنی ان غیرمحفوظ سرحدوں کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لے رہا ہے۔ ماضی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان افرادکی بغیر دستاویزات کے کھلی آمدورفت کو فائدہ مند سمجھا جاتا تھا، مگراب ایسی نقل وحرکت کو قومی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ افغانستان سے آنے والے ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ یا دہشت گردوں سے زیادہ خطرہ کابل سے محسوس کیا جا رہا ہے۔
پاکستان نے 1979 میں سوویت یونین کی فوجوں کی آمد کے بعد سے جس طرح سے افغان عوام کا ساتھ دیا وہ دنیا میں انسان دوستی اور مہمان نوازی کی ایک منفرد مثال ہے۔ ایک وقت تھاؒ تقریباً 60 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی پاکستان کررہا تھا۔کون نہیں جانتا کہ دسمبر 1979 میں روسی فوجوں کی آمد کے بعد افغانستان سے مہاجرین جس بڑی تعداد میں پاکستان میں آئے اور پاکستان نے ان لٹے پٹے افغانیوں کی کم وسائل کے باوجود جس طرح فراخ دلی سے مہمان نوازی کی اور انھیں ہر طرح سنبھالا دیا۔
پاکستان نے مہاجرین کی مکمل دیکھ بھال کی اور اب بھی پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی ذمے داریاں پوری کررہا ہے۔ پاکستان میں پندرہ لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور پندرہ لاکھ سے زیادہ غیرقانونی طور پر افغان، رہائش پذیر ہیں جب کہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بھی افغانستان میںکام کررہے ہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ افغان حکومت نے پاکستان کے لیے ممنونیت کے جذبات کا اظہارکرنے کے بجائے الٹا بھارت کے ایماء پر پاکستان کو ہمیشہ تنقیدکا نشانہ بنایا اور برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
افغان مہاجرین فنڈزکا بے دریغ استعمال جاری ہے، کروڑوں روپے مفاد پرست افسر شاہی، سیکیورٹی اور مہاجرین کی بحالی اور رجسٹرڈ سسٹم کے نام پرکما چکے ہیں، یہ لوٹ مار بند ہونی چاہیے، اس تناظر میں پاکستان کا عام شہری بھی پاکستان کے خلاف بلیم گیم میں مصروف افغان حکمرانوں کو یہ کہنا اپنا حق سمجھتا ہے کہ افغان حکمران اپنے 40 لاکھ شہریوں کو پاکستان سے واپس بلائیں۔ ان کا یہ شکوہ بجا ہے کہ ہم نے افغانستان کے شہریوں کو پاکستان میں مہمان رکھا،عزت دی لیکن پاکستان کے ساتھ افغان انٹیلی جنس کیا کررہی ہے، انھوں نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔
کون نہیں جانتا کہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بھی پاکستان نے افغان حکومت سے ہر طرح کا تعاون کیا مگر افغان حکمرانوں نے بھارت کے تعاون سے پاکستان کے احسانوں کا بدلہ اتارنا شروع کردیا اور دونوںممالک کے تعلقات میں تلخی کا عنصر نمایاں ہوا۔ دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستان کے عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ افغان حکمرانوں سے کہیں کہ وہ افغان مہاجرین کے نام سے پاکستان میں مقیم اپنے شہریوں کی واپسی کے انتظامات کریں کیونکہ 3ملین سے زائد یہ شہری صرف پاکستانی معیشت ہی پر بوجھ نہیں بلکہ بسا اوقات بعض افراد پاکستان کی عزت و آبروکے منافی سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
علاقائی امورکے ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں اس وقت تک پائیدارامن قائم نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان میں ساڑھے تین عشروں سے مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ یہ کڑوا سچ ہے کہ اس دوران لاکھوں مہاجرین نے حکومت پاکستان کے اداروں میں مروجہ بدعنوانی کی روش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر قانونی دستاویزات حاصل کر لی ہیں۔ ان مہاجرین کو از خود احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اُن کی نصرت اور مہمان نوازی کی۔
اس کے باوجود اُن میں سے اکثریت بیک وقت افغان اور پاکستانی شہریت کی حامل ہے۔ یہ یقیناً قوانین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔کیا افغان حکام کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ وہ جس ہمسایہ ملک کے خلاف مذموم جارحیت کے جرم کا مرتکب ہوچکا ہے، اس نے سرد جنگ کے دور میں 80لاکھ افغانوں کی فقیدالمثال مہمان نوازی اور نصرت کی اور انھیں ہمہ جہتی سہولیات فراہم کیں۔ عالم یہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین موجود ہیں جو تمام شعبہ جات میں فعال ہیں اور ان کا مکمل ریکارڈ بھی ہمارے پاس نہیں ہے۔
پاکستان، پاک افغان بارڈر پر اپنی طرف باڑ لگا رہا ہے جب کہ افغانستان کی طرف جنوب کی طرف 600 کلومیٹرکے علاقہ میں نہ ان کی کوئی چوکی ہے نہ کوئی باڑ ہے وہ اس طرف کو کورکریں تاکہ دراندازی روکی جا سکے۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ دیوار چین کی طرح پاکستان افغانستان سے متصل سرحد پر ایک دیوار بنائے، امریکی صدر ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا اور میکسیکو کے درمیان سرحدی دیوار تعمیرکرکے اس کے اخراجات بھی میکسیکو سے وصول کریں گے۔ المختصر، مملکت خداداد کو ہمہ جہتی چیلنجز درکار ہیں اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں بہ قائمی ہوش وحواس دلیرانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
The post ملکی سلامتی کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/357F7w8
0 comments:
Post a Comment