ہماری اپوزیشن نے 20 ستمبر کو اے پی سی بلانے کا فیصلہ کیا ہے ، اس اے پی سی میں وہی دو جماعتیں ہوں گی،جو ہر اے پی سی میں ہوتی ہیں یعنی (ن) اور (پی) باقی کلچر بھرتی کا ہوگا ۔سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کی اتنی جلدی ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی نہ کوئی ایکٹیویٹی کرتی رہتی ہیں۔
اے پی سی کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ کس طرح حکومت کو گرایا جائے جب سے حکومت کو ہٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، کہا یہی جا رہا ہے کہ حکومت نہ ہوئی کوئی درخت ہوا یا گھر یا جھونپڑی کہ جب چاہو گرا لو۔ اصل اپوزیشن اتنی جلدی میں ہے کہ ہٹانے اور گرانے میں جو فرق ہوتا ہے وہ بھی بھول گئی ہے۔
جمہوری حکومتوں میں اگر کسی حکومت کو ہٹانا ہوتا ہے تو اتنے کام کے بندے لائے جاتے ہیں کہ وہ اکثریت میں آجائیں اور حکومت اقلیت میں آجائے اس کو حکومت ہٹانا یا حکومت تبدیل کرنا کہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر دور میں ہماری اپوزیشن میں راج مستری بھرے رہے ہیں سو وہ حکومت کو ہٹانے کے بجائے حکومت کو گرانے کی بات کرتے رہے ہیں۔
جمہوریت میں حکومت کو گرانے یا قبول کرنے کا ایک طریقہ مقرر ہے جس کا ذکر ہم نے کر دیا ہے باقی حکومت کو گرانا ڈھانا سب لایعنی باتیں ہیں حالانکہ اپوزیشن میں کافی پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں وہ کم پڑھے لکھوں کو بتا سکتے ہیں کہ حکومتوں کو ہٹایا جاتا ہے یا تبدیل کیا جاتا ہے گرایا نہیں جاتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بقر عید میں قربانی کے جانوروں کو گرایا جاتا ہے اور گرا کر کاٹا جاتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ عمران خان آہستہ آہستہ برگد کا پیڑ بنتے جا رہے ہیں برگد کا پیڑ آہستہ آہستہ ایسا پھیلتا جاتا ہے کہ اس کو گرانا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور عمران خان کا برگد اب اتنا پھیل گیا ہے اور اس کے تنے میں اسٹیل کا اتنا موٹا راڈ رکھ دیا گیا ہے کہ اسے گرانے کی کوشش کرنے والے گراتے گراتے تھک جائیں گے برگد نہیں گرے گا۔
عمران خان اس کے علاوہ کچھ ایسے جتن کر رہا ہے کہ22 کروڑ غریب عوام اس برگد کو بچانے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں جب ایسا ہوگا اور لازمی ہوگا تو برگد کو گرانے والے برگد کے نیچے آکر پس جائیں گے۔ برگد نہیں گرے گا عمران خان نے کراچی والوں کو 11 سو ارب کا ایک بھاری پیکیج دیا ہے اب کراچی والے عمران کے برگد کو بچانے کے لیے گھروں سے باہر آئیں گے تو پھر گرانے کے بجائے گرنا ہی پڑے گا۔
عمران خان حکومت آہستہ آہستہ سنبھل سنبھل کر آگے بڑھ رہی ہے۔حکومت کی خارجہ پالیسی نے دنیا میں بہت سارے دوست بنائے ہیں دشمن نہیں بنائے یہ دوست خاص طور پر چین جیسا بڑا دوست ہر وقت ہم تیار ہیں کا ورد کرتا رہتا ہے روس اور امریکا بھی عمران خان کی دوستی کا دم بھر رہے ہیں ،ایسے میں حکومت کو گرانا آسان نہیں اس کے لیے دنیا بھر سے مستری اور مزدور لانے پڑیں گے جو ممکن نہیں۔جمہوریت میں کارکردگی کے حوالے سے حکومتوں کو ہٹانا ایک عام سی بات ہے لیکن نفرت اور مخالفت میں حکومتوں کو گرانے کی کوشش غیر جمہوری بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ جب ایک غلط مقصد ذہن میں بیٹھ جاتا ہے اور سیاسی مفادات کی آنچ تیز ہو جاتی ہے تو انسان غلط صحیح، جائز ناجائز کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔
ہماری اپوزیشن بھی اسی مرحلے سے گزر رہی ہے کہ غلط صحیح، جائز ناجائز کا فرق ختم ہو گیا ہے۔حکومتی وزراء کے مطابق سابقہ دس سال کی لوٹ مار کے بعد اب پہلی بار ملک ترقی کی طرف جا رہا ہے اپوزیشن جانتی ہے کہ اگر آسانی سے حکومت کو ترقی کے راستے پر چلنے دیا جائے تو اپوزیشن کے لیے اندھیرا ہی اندھیرا رہ جاتا ہے۔
اس صورتحال سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ حکومت کو سکون سے کام نہ کرنے دیا جائے ہماری اپوزیشن اسی فارمولے پر چل رہی ہے لیکن اپوزیشن حکومت دشمنی میں اس قدر جذباتی ہوگئی ہے کہ قوم کا روشن مستقبل بھی نظر انداز کر رہی ہے۔پاکستان اندھیروں سے نکل کر اب ترقی کے اجالوں میں آ رہا ہے اور یہ بات حکومتی مخالفین کو نہیں بھا رہی ہے وہ ہر حیلے ہر بہانے حکومت کو گرانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن حکومتی مخالفین اس طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں کہ درمیان میں بائیس کروڑ عوام ہیں ، عوام کے سمندر کو پار کرنا بہت مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، لیکن اقتدار کی ہوس میں ہر کوئی سب کچھ بھول جاتا ہے ۔
اور وہ اندھیر میں ٹٹولتے ہوئے راستہ بھول جاتا ہے ۔حکومت بہت آہستہ آہستہ ترقی کے زینے طے کر رہی ہے اس احتیاط کی وجہ سے حکومت کو گرانا آسان نہیں رہا اب ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا۔
حکومت گرانے کے لیے اپوزیشن نے جتنے کھیل کھیلنے تھے کھیل لیے، اب ایک آخری کھیل اے پی سی کا ہے، اب اپوزیشن اس طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ اس حوالے سے حیرت اس بات پر ہے کہ یہ کھیل اس سے پہلے کئی بار کھیلا جا چکا ہے اور ہر بار اپوزیشن کو مات کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اقتدار کی ہوس میں کسی بھی دور میں اپوزیشن کو یہ ناکامیاں نظر نہیں آئیں اور وہ ناک کی سیدھ میں ناک بچانے کے لیے چلی جاتی رہی ہے۔
ہمارے ملک کے اندر اور باہر بے شمار دشمن ہیں وہ کسی طرح پاکستان میں یکسوئی اور امن نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اگر ملک میں یکسوئی اور امن رہا تو ملک تیزی سے ترقی کرتا چلا جائے گا اور پاکستان کے دشمن ہرگز اسے پسند نہیں کرتے کہ پاکستان یکسوئی اور امن کے ماحول میں ترقی کرتا رہے۔
ہمارا خارجی ماحول بھارت کی ریشہ دوانیوں سے بھرا ہوا ہے اور بھارت بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان چین اور سکون سے ترقی کی منازل طے کرتا رہے، یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن کوشش کرچکی ہے کہ پاکستان میں افراتفری اور امن و امان کی صورتحال پیدا ہو۔ چینی اور آٹے کے بحران اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں لیکن یہ دونوں وار بھی خالی گئے۔
اب آخری گیم اے پی سی کا کھیلنے کی تیاری ہو رہی ہے دیکھیے اس گیم کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ جنوبی ایشیا ایک بڑا اور پرامن علاقہ ہے اس علاقے میں امن و امان کو عمومی حوالے سے بھارت سے خطرہ ہے بھارت ایل او سی پر آئے دن حملے کرکے امن و امان کی فضا کو تہس نہس کرتا رہتا ہے اگر ایل او سی پر کیے جانے والے یہ حملے کسی دن سنگین صورتحال اختیار کرلیں تو پھر کیا ہوگا یہ صورتحال انتہائی مخدوش ہے بھارتی حکام کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ ایک بار جنگ کی آگ بھڑک اٹھی تو اس کا بجھنا مشکل ہوگا۔
The post حکومت مضبوط ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35sbKF4
0 comments:
Post a Comment