Ads

کریں گے،اہل نظر تازہ بستیاں آباد

نیا شہر بسانا آسان کام نہیں، ہمیں پتہ ہے اس میں مشکلات اور رکاوٹیں آئیں گی،ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے راوی ریورفرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وزیراعظم جب بھی عوامی معاملات کے حوالے سے گفتگوکرتے ہیں تو وہ سچ بیانی ، صاف گوئی اور برجستگی سے کام لیتے ہیںاور دل کھول کر اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔

ان کے خطاب کے مندرجات پر تجزیہ کرنے سے صورتحال کی ایک واضح تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔ لاہور پاکستان کا دل ہے، جب کہ دریائے راوی کے ساتھ لوگوں کا ایک رومانس وابستہ ہے، اسی راوی کنارے حکومت ایک نیا شہر آباد کرنے چلی ہے ، منصوبے میں تمام سرمایہ نجی شعبہ سے آئے گا جب کہ حکومت صرف سہولتیں فراہم کرے گی، اوورسیز پاکستانیز اس منصوبے میں سرمایہ کاری میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔

وہ جو کہتے ہیں کہ بستی بستے بستے آباد ہوتی ہے، یقینا یہ شہر بھی بس جائے گا۔ درحقیقت پاکستان میں شہروں کی جانب لوگوں کی ہجرت اور پھر پاکستان کے تمام چھوٹے ، بڑے شہروں پر آبادی کا مسلسل دباؤ بہت سے مسائل کا سبب بن رہا ہے۔

یہ سب کیوں اور کیسے ہوا، یہ داستان تو خاصی طویل ہے،قیام پاکستان کے وقت ہماری بیوروکریسی نے ایک عدم تعاون کی پالیسی اختیارکی ، سب سے پہلے ملک میں تمام صنعتیں کراچی میں لگیں، کیونکہ اجازت نامہ صرف یہاںکا ملتا تھا، جس کی وجہ سے پاکستان کے ہرگاؤں، قصبے اور چھوٹے شہروں سے لوگوں کو حصول روزگار کے لیے بہ امر مجبوری کراچی منتقل ہونا پڑا، کیونکہ ان کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا۔

کراچی جس انداز میں اس وقت مسائل کا شکار ہوا ہے، ان سے نکلنے کی کوئی راہ نہ ہونا،ایک المیے سے کم نہیں،صورتحال ایک بندگلی میں پہنچ چکی ہے۔ آج لاہور جو ماضی میں اپنے باغابات اور کالجز کی وجہ سے مشہور تھا، ترقی اور جدت کے نام  پر درختوں سے محروم ہوگیا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کے باعث مسائل کا انبار لگ گیا ہے۔ لاہور میں چالیس فی صد کچی آبادیاں ہیں۔لاہور بھی پلک جھپکتے میں ایسا پھیلا ہے کہ آج پاکستان کا دوسرا بڑا شہر بن چکا ہے۔

نئی مردم شماری کے مطابق کراچی کی نسبت لاہور شہر میں آبادی بڑھنے کی شرح کئی گنا زیادہ ہے۔ یہاں پر ریاست کا کردار سامنے آتا ہے ۔ درحقیقت شہروں کو ایک مخصوص آبادی تک محدود رکھنا جدید دنیا کا اصول ہے، تاکہ مسائل کو وسائل کے اندر رہ کر حل کیا جاسکے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے عوامی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتے ہوئے بلاشبہ مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے دوران خطاب کہا کہ ماضی کے حکمران ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل کر چلے گئے، قرضوں کی واپسی کے لیے سخت فیصلے کرنا پڑے جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

ملکی معیشت اور اقتصادی صورتحال کو جن مشکلات کا آج سامنا کرنا پڑرہا ہے، یقینا اس میں ماضی کی حکومتوں کی پالیسیاں اور قرضوں کے حصول کا عمل مسائل کی وجہ بنا ہے۔ وزیراعظم اپنے وژن کے مطابق چاہتے ہیں کہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ کم سے کم ہو، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میںکمی ان کی حکومتی پالیسیوں کی کامیابی گردانا جاسکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان دوران خطاب شکوہ کناں ہوئے کہ یہاں جب بھی کوئی مشکل وقت ہوتا ہے تو رپورٹر اور کیمرہ مین مائیک پکڑ کر پہنچ جاتے ہیں کدھر ہے نیا پاکستان؟ پھر لوگ بر ا بھلا کہنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بلاشبہ وزیراعظم عوام کے اس حق کے خلاف نہیں ہوسکتے ، وہ جن مسائل شکار ہیں ان پر بولنا اور دل کا غبار نکالنا ان کا جمہوری حق ہے، تاہم وزیراعظم کا کہنا تھا واقعی مہنگائی ہوئی ہے، لوگ کہتے ہیں کہ برے حالات ہیں، بیروزگاری ہے۔

دراصل میڈیا کا کام ہے، عوامی مسائل کو اجاگرکرنا، ان کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانا ہے، اس حوالے سے وزیراعظم کا شکوہ بنتانہیں ہے کیونکہ مسائل کی درست نشاندہی ان کے حل میں مدد گار اور معاون ثابت ہوتی ہے۔ مسائل تو وزیراعظم صاحب کے علم میں یقینا ہیں اور وہ انھیں خلوص نیت سے حل کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ انھوں نے اپنی تقریر کے دوران ملائیشیا میں مہاتیر محمد اور سنگاپور کا حوالہ دیا ہے وہ عظیم ہمسایہ ملک چین کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔

اس سے وزیر اعظم کے بارے میں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عظم ملکوں کی لیڈرشپ کے قائل اور ملکی حالات اور عوام کو درپیش مسائل سے بہ خوبی واقف ہیں۔ جیسا کہ وہ خود کہہ رہے تھے کہ ’’ایک گھر کو بھی ٹھیک کرنے میں وقت لگتا ہے ، چین نے ستر کروڑ لوگوں کو پہلے غربت سے نکالا آج پوری دنیا اس کی ترقی سے خوفزدہ ہے‘‘ یقینا وزیراعظم ایک وژن رکھتے ہیں ملکی مسائل کے حل کا۔

اس وقت ایک اہم ترین مسئلہ جو سراٹھا رہا ہے اور جس پر حکومت تاحال قابو پانے میں ناکام نظر آرہی ہے کہ ملک میں جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔لوگ نہ گھر وں میں محفوظ ہیں نہ گلی ، محلوں یا شاہراہوں یا بازاروں کی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہر جرائم کے لیے ایک سیف زون بن گئے ہیں اور یہ سب کچھ محکمہ پولیس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جب تک محکمہ پولیس میں انقلابی اصلاحات کا عمل شروع نہیں کیا جائے گا۔

اس وقت تک صورتحال میں بہتری کے آثار کسی طور پر ممکن نہیں۔تعلیم یافتہ افراد کا جرائم میں ملوث ہونا، ایک سوالیہ نشان ہے، ریاست کی انتظامی میشنری پر۔ مختلف سروے اور رپورٹس بتاتی ہیں کہ جیلوں میں پڑھے لکھے قیدیوں کی تعداد میں یکساں اضافہ ہورہا ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے اس سے زیادہ تشویش ناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ اُس کے زیرک ذہن قید خانوں میں ہوں۔

غیر منصفانہ نظام، بدعنوانی، اقربا پروری کی وجہ سے خاطرخواہ ذرائع آمدن کے حصول میں ناکامی ہی نوجوان نسل کو جرائم کی طرف را غب کرتی ہے۔جہاں تک حل کی بات ہے تو یہ ایسا سہل نظر نہیں آتا، اوّل تو ملک میں مہنگائی کو قابو میں رکھنا اشد ضروری ہے، یہ تو بھلا ہو تیل کی عالمی منڈی میں قیمت کی کمی کا، جس کی وجہ سے گذشتہ کچھ برس میں مہنگائی کی شرح میں اُس حد تک اضافہ نہیں ہوا جو ہماری معاشی صورتحال اور بیرونی قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے متوقع تھا۔ مہنگائی پر قابو طویل مدتی منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے ہی ممکن ہے، جس کا تسلسل حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود قائم رہے۔

دوم، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ناگزیر ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی صنعتوں کی طرف بھرپور توجہ دی جائے۔ ملازمتوں میں کمی کی ایک بڑی وجہ عوام وخواص کی غیر پیداواری سرمایہ کاری جیسے رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔ جس کا سبب حالات کا صنعتوں اور کاروبار کے لیے غیر موزوں ہونا اور عدم تحفظ کا شکار کاروباری طبقہ ہے۔

صاحب اقتدار کو اس نازک صورتحال میں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جس سے سرمایہ کار پھر سے صنعتوں کی طرف مائل ہوسکیں۔ ان سب کے علاوہ نوجوان نسل کی تربیت کرنا بھی ناگزیر ہے، جس کے لیے اسکول و کالج کی سطح سے ہی ذہن سازی کرنا لازم ہے، تاکہ حالات کے نشیب و فراز کے باوجود بھی نوجوان نسل جرائم کی طرف راغب نہ ہو۔خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پر پوری قوم تشویش میں مبتلا ہے۔

یقینا قانون سازی کے ذریعے مجرموں کو سخت ترین سزاؤں کے ذریعے جرم سے باز رکھا جاسکتا ہے، اس ضمن قوم آپ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں جب تک بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی اس  وقت  تک حقیقی تبدیلی کا سفر ہرگز شروع نہیں کیا جاسکتا، یہ بات نئے پاکستان کے پالیسی سازوں کو اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے۔

وزیراعظم نے بار آور کراتے ہوئے کہا کہ حکومت نے غریب طبقہ کے لیے ہیلتھ کارڈ اور ہیلتھ انشورنس منصوبے شروع کیے۔اس سے پہلے کسی بھی حکومت نے بے گھر افراد کے لیے کچھ نہیں کیا تاہم ہماری حکومت نے پہلی بار ان کے لیے پناہ گاہیں تعمیر کیں اور ان میں بہترین کھانا فراہم کیا جا رہا ہے، بے گھر اور بے سہارا افراد کے لیے200 ارب روپے کا احساس پروگرام شروع کیا ہے۔ وزیراعظم صاحب آپ کی نیت اور پالیسیاں صائب ہیں لیکن عوام کو درپیش مشکلات میں تاحال کمی نہیں آئی ہے اور عوام حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔

کراچی میں بارشوں کے بعد صورتحال کی ابتری میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، جن کے لیے آپ اربوں روپے کے پیکیج کا اعلان کرکے آئے ہیں ۔وہاں کی بڑی کاروباری مارکیٹوں میں تاحال پانی کھڑا ہے اور گٹر ابل رہے ہیں، تعفن اور بدبو کے باعث کاروباری سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکی ہیں، اس صورتحال کے تدارک کے لیے کچھ کیجیے۔

حرف آخر راوی اربن پروجیکٹ گو کہ ایک اچھا منصوبہ ہے لیکن اگر کشتیاں جلانی ہیں، توخوابوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ حکومت کا کام ملک کے نچلے طبقات کو اوپر لانا ہے،تو اس کے لیے عمل ضروری ہے کیونکہ صرف بیانات اور باتوں سے ملکی مسائل حل نہیں ہوں گے،لیڈر شپ حقائق پر مبنی آگہی کے ساتھ بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔

The post کریں گے،اہل نظر تازہ بستیاں آباد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35LfCBc
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment