Ads

ترقی اور استحکام کے اہداف

ترقی اور استحکام کے اہداف

اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے آیندہ 2 ماہ کے لیے شرح سود 7فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ایم پی سی کا اجلاس یہاں 21ستمبر 2020کو منعقد ہوا جس میں افراط زرکی صورتحال،کورونا کے معیشت پر اثرات اور معاشی نموکی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں  پالیسی ریٹ کو 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پریس کانفرنس میں مانیٹری پالیسی کمیٹی کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ پاکستان کی معیشت نے کورونا کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا، معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، ایکسپورٹ میں بھی اسی طرح بتدریج اضافہ متوقع ہے۔

حکومت اور اسٹیٹ بینک نے کورونا کی وبا کے معاشی نقصانات کم کرنے کے لیے بروقت فیصلے کیے۔ ایم پی سی نے کہا کہ جون 2020 میں گزشتہ اجلاس کے وقت کے مقابلے میں کاروباری اعتماد اور نموکا منظر نامہ بہتر ہوا ہے۔ اس سے پاکستان میں کووڈ19 کے کیسز میں کمی اور لاک ڈاؤن میں نرمی نیز حکومت اور اسٹیٹ بینک کے بروقت فراہم کردہ مالی محرک کی عکاسی ہوتی ہے۔ اب توقع ہے کہ مالی سال 21ء کے دوران اوسط مہنگائی سابقہ اعلان کردہ حدود 7تا 9 فیصد کے اندر رہے گی۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے مہنگائی میں اضافہ کو انتظامی مسئلہ قراردیا جو اس امرکا عندیہ ہے کہ مارکیٹ عوامل پر حکومت اور ملک کے معاشی ماہرین کا کوئی کنٹرول نہیں، جس کی جو مرضی ہے وہ بازاروں، مارکیٹوں اور ٹھیلوں پر سبزیوں،اجناس اور پھلوں کی جو قیمتیں مقررکریں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، پریس کانفرنس میں گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ کاروباری طبقہ کو ایک ہزار 580 ارب کا پیکیج دیا ، ترسیلات اور پیداواری شعبہ نے بہترکارکردگی دکھائی ہے، مگر عوام اور صارفین کو ادارہ جاتی رپورٹوں اور اعلامیوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ تسلسل کے ساتھ منڈی کے رجحانات پر نظر رکھتے ہیں۔

اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کے زخم سہتے ہیں، انھیں اپنے گھرکا بجٹ مارکیٹ میں ہونے والی مہنگائی کے مقابلہ میں بہت سے کمزور، ناقابل اعتبار اور ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر محسوس ہوتا ہے، یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب عوام کو وزیراعظم کی یاد آتی ہے جب وہ کنٹینر پر چڑھ کر اعلان کرتے رہے تھے کہ ان کی حکومت میں غریب کو آٹا،سبزی،دوائیں، تعلیم ،صحت کی سہولتیں ارزاں ،فوری اورگھر کی دہلیز پر ملیں گی، لیکن دوسال مکمل ہوگئے حکومت نے ٹریکل ڈاؤن کی کوئی اسٹرٹیجی نہیں بنائی، غریب گھرانوں  کے چولہے بھجنے لگے، مہنگائی آسمان کو چھونے لگی، اورکوئی شے اپنی پرانی قیمت کے ساتھ منجمد ہونے کو تیار نہیں، ہر شے کو پر لگ گئے ہیں، جو چیز آج دس روپے کی ہے، ایک ہفتے بعد وہ بیس روپے کی ملے گی۔ دودھ کا ایک برانڈ اور فلیور 30 روپے کا ہے دکان دار اسے 50روپے میں بیچ رہا ہے۔

حکومت کے اعداد وشمارکی صحت اور ملکی معیشت میں استحکام کے اشاریے دل خوش کن ضرور ہیں۔ ایک امید بندھی رہتی ہے کہ شاید معاشی حالات بہتری کی طرف چلے جائیں لیکن اقتصادی اورمعاشی تبدیلی کے امکانات جو میکرو اکنامک اور مائیکرواکنامک سطح پر عوام اور غربت کی سطح کے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستان شہری کو ثمرات کی شکل میں ملنے چاہئیں وہ کہیں نظر نہیں آتے، عوام غربت اور مہنگائی کے پاٹوں کے بیچ پستے جا رہے ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ہم نے کورونا کی وبا کے دوران معیشت کو سپورٹ کرنے کی اسکیموں کو شفاف بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ہاؤسنگ اسکیم معیشت کے لیے اہم ہے۔ ہاؤسنگ سیکٹرکی ترقی سے روزگار کے وسیع مواقع وابستہ ہیں۔ حکومت کی تمام ایجنسیاں ہاؤسنگ سیکٹرکے قرضوں کے لیے متحرک ہیں۔ تعمیراتی صنعت کے مطابق بینک اچھے پراجیکٹس تلاش کررہے ہیں اور اسٹیٹ بینک بھی ہاؤسنگ فنانس قرضوں پر پورا زور لگارہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حکومتی ادارے اور معاشی ماہرین اقدامات کررہے ہیں لیکن عوام کا مسئلہ ایک تصور اور توقعات کے پہاڑکا ہے۔

عمران خان ایک ایسے سیاستدان کی صورت سامنے آئے جو جمود شکن سیاسی،سماجی اور معاشی تبدیلی کا منشور لے کر آئے، حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور 50لاکھ مکانات بنانے کا وعدہ کیا تھا، بلکہ ایک وفاقی وزیر نے تو یہ دعوی ایک ٹی وی چینل میں گفتگوکرتے ہوئے کیا تھا کہ بس انتظارکیجیے، نوکریوں کی برسات ہونے والی ہے، اتنی نوکریاں ہونگی کہ لوگ پریشان ہونگے کہ کس نوکری کی خواہش کریں،کسے ٹھکرائیں، ایسے وعدے دیگر وزرا اور خود وزیراعظم نے جستہ جستہ عوام کے سامنے بھی کیے۔

بلاشبہ احساس پروگرام ، ہیلتھ کارڈ ، دیہاڑی دار مزدوروں کی امداد کے لیے تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ کا دروازہ کھولنے اور پناہ گاہوں کے قیام کی نوید بھی دی گئی تاہم ایسے پروگرام مربوط انداز میں ایک بڑی اقتصادی، صنعتی اورسماجی پالیسی کی روشنی میں جاری ہوتے تو اس کے نتائج بھی مختلف ہوتے، لیکن حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی ٹیم تقسیم در تقسیم ہے۔ اس کی ماہرین میں ہم آہنگی نہیں، ایک انتشار، افراتفری اور بے سمتی ہے۔ وزرا کی ترجیح ٹاک شو میں انقلاب برپا کرنے اور اپوزیشن کو نیچادکھانے کی ہے۔

کاغذوں پر ایک سے بڑھ کر ایک منصوبہ تیارکرکے پیش کیا جاتا ہے لیکن ان دو سالوں میں کتنے بڑے اقتصادی اور صنعتی منصوبے بنے اور ان کی تکمیل پر کون سی مانیٹرنگ ٹیم مامور ہے ،اس کا کچھ پتا نہیں، مہنگائی ہی کو لیجیے،  22 کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں غربت اور بیروزگاری کی شرح اعصاب جھنجوڑکر رکھ دیتی ہے۔ ملک کی مارکیٹوں میں اشیائے ضرورت کی تلاش میں جانے والے گرانی کا سن کر پریشان ہوجاتے ہیں، دوائیوں کی قیمتیں دسترس سے باہرہیں، ماہر ڈاکٹروں، پروفیسرز نے مریضوں کو دیکھنے کی فیسیں تین ہزار مقررکی ہے۔

غریب کہاں جائے، اس کے لیے ڈائیلیسزکرانے کے لیے مشین اور بستر نہیں، ایم آئی آر مشین کسی غریب کو چاہیے تو کہا جاتا ہے کہ مشین خراب ہے، طاقتور اور بااثر لوگ سرکاری اسپتالوں اور نجی اسپتالوں سے اپنا علاج کراسکتے ہیں، مگر سرکاری اسپتالوں کے معیارکی بہتری پرکسی کی توجہ نہیں، رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کردی، عام آدمی کو علاج اور آپریشن کی سہولت کا ملنا  جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، میڈیکل اسٹور پر من مانے طریقہ سے دوا کی قیمتیں لکھی جاتی ہیں، یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیائے صرف مہنگی ہیں، مچھلی کراچی کے ساحل پر ٹنوں کے حسب سے شکارکرکے لائی جاتی ہے لیکن عام آدمی اسے خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، انڈے مہنگے،مصالحے، گوشت ، دودھ ، دہی ، مکھن، دیسی گھی اور پھل کے دام بڑھادیے ہیں۔

سوال سیاسی ،اقتصادی اورسماجی وجمہوری ثمرات کا ہے، ایک نئی حکومت کچھ وعدوں، توقعات اور امکانات کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے، پی ٹی آئی نے سابقہ دو حکومتوں کو تاریخ کے درد ناک الزامات کے ساتھ رد کیا، قوم کو باورکرایا گیا کہ گزشتہ حکمرانوں نے ماسوائے کرپشن کے کچھ نہیں کیا۔ اب آپ کی باری ہے، عوام پوچھتے ہیں ، فریاد کرتے ہیں کہ آپ نے غریبوں کوکیا سہولتیں دی ہیں، بات تقابل کی ہے، لیڈرشپ کی ہے، عوام کوکسی اور بات سے کوئی غرض نہیں ، وہ حکومت سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ حکمراں مائی جینو بائی کے بچوں کوکب روزگاردے گی ، الزامات کا پتھراؤکب رکے گا،کب کسی بیروزگار نوجوان سے پوچھا جائے گا کہ ’’بیٹا ! مفلسی میں تمہیں چاند بھی روٹی تو نظر نہیں آتا؟‘‘

حقیقت یہ ہے کہ ان دوسالوں میں حکومت نے جو پیش رفت کی ہے ، اس کی تردید کیے بغیر اپوزیشن اور حکومت ملکی معیشت کی اصلاح کے لیے مل کرکام کرے، ارباب اختیارکو سوچنا ہوگا کہ ملک کے مسائل کا حل کرنا کسی ایک سیاسی جماعت کا کام نہیں، جو عناصر جمہوریت کو اشتراک عمل، افہام وتفہیم اور رواداری سے ماورا کوئی تکبر اور غرورکی بازی گری سمجھے ہیں انھیں اپنے اسی مکافات عمل پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔

سیاست خدمت خلق اور اللہ کے بندوں کی دستگیری کا نام ہے، جا بھلا کر ترا بھلا ہوگا، وقت آگیا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اور جمہوری قوتیں، سول سوسائٹی ملک کی ترقی وعوام کی خوشحالی کے لیے ایک معاہدہ عمرانی کی طرف قدم بڑھائیں، محاذ آرائی ، الزام تراشی اورکردار کشی میں کافی توانائیاں ضایع ہوچکی ہیں، اب نوجوان نسل کی توانائیوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے، تعمیر اور صرف تعمیر ہی پاکستان کی ضرورت ہے۔ روزگار ہوگا تو افرادی طاقت ملکی اقتصادی ترقی کے  ہم قدم ہوگی، اور امن واستحکام ہوگا تو حکومت مہنگائی سمیت ہر چیلنج سے نمٹ سکے گی، اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی۔

سابق امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین نے کہا تھا کہ یہ کساد بازاری recession ہے کہ تمہارا پڑوسی بیروزگار ہوجائے اور اسے depression  کہئے اگر خود تم سے روزگارچھن جائے۔

شاعر نے کہا تھا

دیوانہ آدمی کو بناتی ہیں روٹیاں

خود ناچتی ہیں سب کو نچاتی ہیں روٹیاں

The post ترقی اور استحکام کے اہداف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33OJ4Ug

via Blogger https://ift.tt/2EtO7Rk
September 22, 2020 at 10:59PM
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment