Ads

’’میرے فرمان اور اصول فراموش کر کے میری یاد سے بھلا کیا حاصل۔۔۔؟‘‘

وہی نحیف ونزار سا وجود۔۔۔ اور اُس سے جھلکتا ہوا آہنی عزم، بَر میں چست شیروانی۔۔۔ کچھ خمیدہ سی کمر۔۔۔ سر پر قراقلی ٹوپی، متانت اور سنجیدگی سے آراستہ چہرہ اور اسے مزید بردبار بناتی ہوئی جُھریاں۔۔۔

’’ارے قائد آپ۔۔۔!!‘‘

میں انھیں اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ کر چونک گیا۔۔۔ انھوں نے لفظ ’قائد‘ سنا تو ایک نگاہ اٹھا کر میری طرف دیکھا، گویا سوال کر رہے ہوں کہ میرے ہی ملک میں اب مجھ ہی سے یہ پوچھنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔۔۔؟

’’دراصل بہت سے لوگوں کی شبیہ بھی آپ سے ملتی ہے ناں، اس لیے مجھے لگا کہ کہیں کوئی اور نہ ہو۔۔۔‘‘

میں قائد کی سرزنش کرتی نگاہوں سے جھینپ گیا اور ازخود صفائی دینے لگا، تو ان کے متفکر پیشانی کی کچھ شکنیں کم ہوئیں، جیسے انھوں نے میری توضیح کو قبول کر لیا ہو۔ سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھا۔۔۔ میں دبتے قدموں سڑک کے کنارے ان کے ساتھ چلنے لگا۔۔۔

’’کیا جانتے ہو ہمارے بارے میں برخوردار۔۔۔؟‘‘ قائد کے چہرے پر ایک دبی دبی سی مسکراہٹ چمکتی ہوئی دکھائی دی۔ ’’آپ ہمارے ملک کے بانی وقائد ہیں، مسلمانانِ ہند نے آپ کی قیادت میں اس آزاد ملک کی جدوجہد کی اور ہم آج بھی ایک علاحدہ مملکت کے شہری ہیں۔۔۔‘‘ ہم نے نصاب میں پڑھی ہوئی باتیں ان کے سامنے خلاصہ کر دیں۔

’’دو ٹکڑے کر دیے دو ٹکڑے۔۔۔!‘‘ قائد نے درد بھرے لہجے میں ایک ٹکڑا لگایا اور پوچھنے لگے ’’کیا یہ نہیں پڑھاتے تمھیں آج۔۔۔؟‘ ‘

’’پڑھاتے ہیں قائد، یہ بھی پڑھاتے ہیں۔۔۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا، تو وہ بولے ’’پھر کیا سیکھا اس شکست سے۔۔۔؟ کچھ نہیں، کچھ بھی تو نہیں۔۔۔!‘‘ قائد نے خودکلامی کے انداز میں کہا۔ وہ اس حوالے سے ہماری شرمندگی محسوس کرچکے تھے، تبھی مزید کچھ نہ پوچھا۔۔۔۔

وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھا رہے تھے، اُن کا ہر قدم نپا تلا اور سوچا سمجھا محسوس ہوتا تھا، ضعیفی کی بنا پر اُن کی رفتار بہت دھیمی تھی۔ میں نے پورے احترام سے عرض کیا ’’قائد! آپ اپنے سہارے کے لیے کوئی لاٹھی کیوں نہیں لے لیتے۔۔۔؟‘‘ وہ بولے ’’اگر ’قائد‘ کو ہی سہارے کی ضرورت پڑ جائے، تو پھر اس کے عوام بھی اسی نقش قدم پر چل پڑتے ہیں۔۔۔ کیا سمجھے برخوردار۔۔۔!‘‘ انھوں نے میری ایک عام سی بات کا بہت خاص جواب دے کر گویا موضوع ہی تمام کر دیا۔

’’یہ بتاؤ کہ کیا بس اب ہماری یادیں صرف تعلیمی نصاب میں ہی باقی رہ گئی ہیں۔۔۔؟‘‘ قائد کو موجودہ صورت حال جاننے میں خاص دل چسپی تھی۔ میں نے کہا،’’نہیں قائد، ہمارے سیاست داں اور حکم راں آج بھی ملک کو آپ کے نقش قدم پر چلانے کی خواہش اور دعوے کرتے ہیں۔۔۔ اور آپ کی فکر کو اپنے لیے ایک مشعل راہ بتاتے ہیں۔‘‘

’یہ تو 14 اگست، 11 ستمبر اور 25 دسمبر کے اخباری بیانات ہیں سارے۔۔۔‘‘ قائد کو میرا جواب زیادہ پسند نہیں آیا، وہ بولے ’’عملاً اس دیس میں، ہماری یاد اور ذکر کہاں ہے۔۔۔؟‘‘

اب میری پیشانی پر پسینہ آنے لگا تھا، میں نے ہمت جتائی اور انھیں بتایا کہ کراچی کو آپ کی نسبت سے آج ’شہر قائد‘ کہا جاتا ہے، اور جس سڑک پر آپ موجود ہیں، اسے ’ایم اے جناح روڈ‘ کہتے ہیں، اسی پر آپ کے نام سے منسوب ’قائداعظم اکادمی‘ بھی قائم ہے۔۔۔‘‘

’’یہ سب تو مجھے معلوم ہے، اور۔۔۔؟‘‘ انھوں نے مزید جاننے کی جستجو ظاہر کی، تو میں بولا۔۔۔ ’’اسی شہر میں ’جناح اسپتال‘ بھی ہے، باغ جناح (فریئر ہال) اور گلشن جناح (پولو گراؤنڈ) بھی ہیں۔۔۔‘‘

’’گویا پہلے سے بنی ہوئی چیزوں کے نام مجھ سے بدل دیے گئے اور بس۔۔۔؟‘‘ انھوں نے شکایتی انداز میں کہا۔

نہیں قائد، کراچی کا ’قائد اعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘ بھی آپ ہی سے منسوب ہے، عزیز آباد کا جناح گراؤنڈ، ملیر کا جناح ایوینیو، شارع فیصل پر محمد علی جناح یونیورسٹی، ناظم آباد میں جناح کالج فار مین، جناح پولی ٹیکنیک کالج اور جناح یونیورسٹی برائے خواتین بھی آپ ہی کے نام ہے۔ ہم نے پاکستان کے قیام کی نصف صدی بیتنے پر آپ کے نام سے ایک فلم ’جناح‘ بھی بنائی اور یہاں اسی نام کا ایک اخبار بھی آتا ہے۔۔۔ اور ہاں، برنس روڈ پر ایک ’جناح مسجد‘ بھی تو ہے۔‘‘

میں نے توقف کیا اور پھر بولا ’’آپ کو کراچی میں مہاجروں کی جن جھگیوں کے درمیان سپرد خاک کیا گیا تھا، وہ پھر آپ کی محبت میں ’قائدآباد‘ کہلانے لگی تھیں، ان مہاجروں کو لانڈھی کی طرف منتقل کر کے اس جگہ کو سرسبز ’باغِ قائداعظم‘ بنا دیا گیا ہے، اور یہاں کے مکینوں نے آپ کی محبت میں اپنی نئی بستی کا نام بھی ’قائد آباد‘ ہی رکھا ہے۔۔۔ اور یہاں ناظم آباد کی طرف ایک ’قائداعظم کالونی بھی موجود ہے۔۔۔‘‘

’’وہی ’قائداعظم کالونی‘ جہاں پچھلے برس ’سرکلر ریلوے‘ بحال کرنے کے لیے لوگوں کے گھروں کو ناجائز کہہ کر توڑ دیا گیا تھا۔۔۔؟‘‘ قائد نے قدرے برہمی سے استفسار کیا، تو میں نے نگاہیں جھکا کر اثبات میں جواب دیا۔ وہ بولے ’’میرے اپنے ہی شہر میں نظم وضبط اور سارے اصولوں کو پامال کردیا گیا، کیا بس یہی یاد رکھا ہے لوگوں نے اپنے ’قائداعظم‘ کو۔۔۔؟‘

میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا، وہ کچھ ٹھیرنے کے بعد بولے ’’یہاں کیسا قانون ہے، جو جب جاگتا ہے، تو مصائب کا شکار لوگوں پر ہی عتاب بننے لگتا ہے۔۔۔؟‘‘ قائد کی آواز میں اب برہمی محسوس کی جا سکتی تھی۔۔۔ وہ بولے، ’’عالم برزخ میں برسوں پہلے میں نے یہاں کسی ’جناح پور‘ کی بازگشت بھی سنی تھی، وہ کہاں ہے۔۔۔؟‘‘

میں اُن کے اس سوال پر تقریباً اچھل پڑا اور کہا،’’قائد! یہ کوئی علاقہ نہیں تھا، بلکہ یہ تو ملک توڑنے کی ایک مبینہ سازش کا نام تھا، کہ یہاں اس نام کی ایک علاحدہ ریاست بنائی جا رہی تھی۔۔۔‘‘ میں نے نگاہیں چراتے ہوئے بتایا، تو وہ بولے،’’گویا میرا ملک توڑ کر میرے نام سے ہی ایک اور الگ ملک بنا رہے تھے۔۔۔؟‘‘ میں اُن کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکا۔۔۔

آگے ایک دیوار پر لکھا ہوا تھا،’’جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے!‘‘ وہ اس دیوار کے پاس رک گئے اور بولے، ’’یہاں میرا ’غدار‘ کون ہے؟ اور دیواروں پر کوئی کسی کو موت کا حق دار بھلا کیسے کہہ سکتا ہے؟ کسی کی غداری اور اس کی سزا کا فیصلہ تو عدالتیں کرتی ہیں۔۔۔؟‘‘ قائد کی نگاہیں اس دیواری تحریر پر جمی ہوئی تھیں۔ میں نے بہت احترام سے عرض کیا،’’قائد! شاید یہ اس قوم میں آپ کی والہانہ عقیدت کا اثر ہے کہ مختلف سیاسی راہ نماؤں نے بھی خود کو اپنی جماعت کا ’قائد‘ کہلوایا ہے۔۔۔ کوئی ’قائدِ عوام‘ ہوا، تو کوئی ’قائد ’ن‘ لیگ‘ اور کسی نے اپنے لیے ’قائدِتحریک‘ کا خطاب چُنا۔۔۔ اور یہ تحریر دراصل ’قائد تحریک‘ کی جماعت کی طرف سے اپنے قائد کے لیے لکھی گئی تھی۔۔۔‘‘

’’لیکن موت کا حق دار۔۔۔‘‘ قائد نے بے چینی سے پوچھا۔

’’یہ ’قائد تحریک‘ کے جذباتی عقیدت مندوں کا نعرہ رہا ہے۔‘‘ میں نے بات پوری کی ہی تھی کہ آگے ایک اور نعرہ لکھا ہوا دکھائی دے گیا ’’اگر نہ مگر، قائد نگر‘‘ اور ’’قائد کے فرمان پر جان بھی قربان ہے!‘‘ وہ بولے کہ ’’یہ سب میرے لیے لکھا گیا ہے۔۔۔؟‘‘

’نہیں قائد، یہ بھی ہماری مختلف سیاسی جماعتوں کے ہی ’’قائدین‘‘ کے لیے ان کے کارکنوں اور چاہنے والوں کی طرف سے لکھا گیا ہے۔۔۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’تو کیا میں یہاں کے سیاست دانوں کو بس لفظ ’قائد‘ جتنا ہی یاد رہ گیا ہوں۔۔۔؟‘ انھوں نے جاننا چاہا۔

’’ہم نے تو یہاں پوری ایک ’مسلم لیگ‘ بھی آپ کے نام کی بنائی ہے۔۔۔ ’مسلم لیگ (قائداعظم)‘‘ ہم نے بتایا، تو وہ فوراً بولے کہ ’’اچھا تو وہ ’ق لیگ‘ کا اصل نام یہ ہے، مگر ’مسلم لیگ‘ تو 1906ء میں ہی بن گئی تھی، تو اب دوبارہ مسلم لیگ بنانا کچھ سمجھ میں نہیں آیا میرے۔۔۔؟‘‘ انھیں میری بات میں کچھ الجھن محسوس ہوئی۔

’’قائد! دراصل جب مسلم لیگ نے پاکستان بنا لیا، تو پھر یہاں کے سیاست دانوں اور جرنیلوں نے مختلف وقتوں میں ’مل جل‘ کر یہ فیصلہ کیا کہ اب ہمیں مسلم لیگ کو بھی تو ’’بنانا‘‘ چاہیے، سو سب نے اپنے اپنے ’لاحقوں‘ کے ساتھ اس جماعت کی تخلیق میں حصہ ڈالا۔۔۔ مسلم لیگ (کونسل)، مسلم لیگ (کنونشن)، مسلم لیگ (قیوم)، مسلم لیگ (جناح)، مسلم لیگ (جونیجو)، مسلم لیگ (فنکشنل)، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ضیا)، مسلم لیگ (ق) اور ’عوامی مسلم لیگ‘ کے بعد اب، اب تک کے آخری فوجی حکم راں جنرل پرویزمشرف نے ذرا مختلف انداز سے ’آل پاکستان مسلم لیگ‘ بنائی ہے۔۔۔!‘‘

یہ سن کر قائد ششدر رہ گئے، میرا ہاتھ پکڑ کر ٹھیر گئے اور ایک سرد آہ کیھنچتے ہوئے بولے ’’تبھی تو اس ملک کی یہ حالت ہوگئی ہے برخوردار۔۔۔! جیسے اس ملک کے حصول کے لیے ایک پوری تحریک اور جدوجہد کی ضرورت تھی، بالکل ایسے ہی ملک کو چلانے کے لیے بھی ایک مکمل سیاسی اور جمہوری جماعت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ لیکن اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیے جانے والی مملکت میں سیاست اور اقتدار فقط طاقت کا کھیل بن کر رہ گیا اور میری ’مسلم لیگ‘ ایک سیاسی جماعت کے بہ جائے، سیاست دانوں اور اقتدار پر قابض جرنیلوں کے ہاتھ کا ایک کھلونا ہی بن گئی۔۔۔!‘‘ وہ آتی جاتی ہوئی تیزرفتار گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گُم بول رہے تھے۔۔۔

میں نے کہا،’’قائد! آپ بھی تو ہمیں بہت جلدی چھوڑ گئے، قوم کی نیّا ابھی بیچ منجدھار میں تھی۔۔۔‘‘

’’نہیں برخوردار، نہیں۔۔۔! کسی بھی پروپیگنڈے میں نہ آؤ، ہم قوم کی نیّا پار لگا کر گئے تھے۔۔۔ اور جب سفینے کو ساحل تک پہنچا دیا جائے، تو پھر ’ناخدا‘ کا کام مکمل ہو جاتا ہے۔۔۔ اب ملک کو ٹھیک طرح چلانا تم لوگوں کی ذمہ داری تھی۔۔۔‘‘ قائد نے مجھے درمیان میں ٹوک کر تصحیح کی۔

سڑک کے کنارے ایک دیوار پر ’’ہم کو منزل نہیں راہ نما چاہیے!‘‘ لکھا ہوا دیکھا تو قائد کہنے لگے ’’یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اس ملک کو ایک راہ نما کی اشد ضرورت ہے، لیکن آخر منزل کیوں نہیں چاہیے۔۔۔؟‘‘ انھوں نے استفسار کیا، تو میں بولا کہ ’’قائد، یہ تو لکھنے والے ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔‘‘

ایک جگہ پر ’’کراچی کو بانی دو!‘‘ لکھا دیکھا تو لفظ ’بانی‘ نے ’قائد‘ کی توجہ فوراً مبذول کرالی، وہ بولے کہ ’’کیا اس بات کا مخاطب میں ہوں؟‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا ’’قائد، یہ لکھا تھا ’کراچی کو پانی دو!‘ کسی نے اس کے دو نقطے مٹا کر پانی کو ’بانی‘ کر دیا ہے اور یہ بھی شاید ایک سیاسی جماعت کے ’بانی‘ کی طرف اشارہ ہے۔۔۔‘‘

اس سے پہلے قائد اس بابت مزید کچھ پوچھتے، میں نے بھی اپنی ایک بے چینی ان کے روبرو کر دی اور کہا،’’قائد! مجھے ایک بات بار بار پریشان کرتی ہے، اگر میں آپ کو محمد علی جناح کہوں، یا صرف ’جناح‘ لکھ دوں، تو بہت سے لوگ اس پر تیوریاں چڑھاتے ہیں اور کچھ تو اسے ’غداری‘ سے بھی تعبیر کر دیتے ہیں۔۔۔؟‘‘

قائد مسکرائے اور کہنے لگے ’’بیٹا! اگر سنجیدگی سے اپنے ملک کے مسائل حل کرنا چاہتے ہو تو یہ لفظ ’غدار‘ کا استعمال ذرا کم کیا کرو، سب لوگ تمھارے ہی ہیں، اگر یہ شکایت یا اختلاف کرتے ہیں، تو یہ جان لو کہ ایسا کرنا کبھی غداری نہیں ہوتا، سب لوگوں کو سنو، سمجھو اور پھر کُھلے دل سے ایک دوسرے کو تسلیم کرو۔۔۔! اور ہر قسم کی نفرت اور تعصب سے نکل آؤ، اگر خلوص دل سے ایسا کر سکو، تو شاید تمھارے آدھے مسئلے تو یوں ہی حل ہو جائیں گے۔۔۔!‘‘ قائد نے ناصحانہ لہجے میں کہا، پھر بولے:

’’رہی بات مجھے ’جناح‘ کہنے کی، تو میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ گلاب کو جس نام سے بھی پکارو گے، رہے گا تو وہ گلاب ہی۔۔۔ شاید یہ یہاں کے لوگوں کی مجھ سے عقیدت ہے کہ وہ میرے لیے ’قائد اعظم‘ کے سوا اور کوئی لفظ سننا گوارا نہیں کرتے۔۔۔ لیکن ’جناح‘ بھی تو میرا ہی نام ہے، مجھے اس طرح پکارنے میں کبھی کوئی ہتک محسوس نہیں ہوئی، پھر کراچی کی تمہاری یہ شاہ راہ بھی ’ایم اے جناح روڈ‘ کہلاتی ہے، ’جناح اسپتال‘ سے لے کر ’باغِ جناح‘ اور فلم ’جناح‘ تک کے ناموں سے بھی تو مجھے ہی یاد کیا گیا ہے۔۔۔ اس لیے اب آگے کی سوچو برخوردار۔۔۔! ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ کر اپنی توانائی کو ضایع کرنے کے بہ جائے، اس قیمتی وقت کو غوروفکر اور تدبر میں صَرف کرو۔۔۔ زندگی صرف اپنے لیے نہ جیو، اس سے دوسروں کو بھی فیض پہنچاؤ، تاکہ سماج کو تمھارے زندہ رہنے کا فائدہ ہو۔۔۔‘‘ انھوں نے مسکراتے ہوئے میرے کاندھے کو تھپتھپایا۔۔۔

اچانک ایک گاڑی قریب سے گزری، جس میں اونچی آواز میں ایک نغمہ چل رہا تھا، جس کے بول کچھ یوں تھے کہ ’بازو توڑ کے رکھ دیں گے۔۔۔ کاٹ کے رکھ دیں گے۔۔۔ گاڑ کے رکھ دیں گے۔۔۔!‘ قائد کہنے لگے کہ ’’آخر ہماری قوم اتنے غصے میں کیوں ہے۔۔۔؟‘‘ میں نے کہا ’’قائد! یہ ہماری حب الوطنی ہے، جب بھی دشمن للکارتا ہے، قوم ایسے ہی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے۔۔۔!‘‘

میںنے اپنے طور پر قائد کو مطمئن کرنا چاہا، لیکن دفعتاً میرے ذہن میں ماضی کے ملی نغمے گونج گئے۔۔۔ ’ماؤں کی دعا پوری ہوئی۔۔۔، ’یوں دی ہمیں آزادی۔۔۔، میرا دیس میرا ماہیا۔۔۔، سورج کرے سلام، چندا کرے سلام۔۔۔‘ ایک ڈالی کے پھول، ایک دھنک کے رنگ۔۔۔، اے روحِ قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں۔۔۔، اے راہ حق کے شہیدو۔۔۔!، اپنی جاں نذر کروں۔۔۔، جیوے جیوے پاکستان۔۔۔، اے وطن پاک وطن وغیرہ۔۔۔

واقعی اُن ترانوں کے دل کش بول کسی بھی قسم کی برہمی اور تلخی سے بہت پَرے تھے، ان کی مٹھاس اور حلاوت ایسی تھی، جسے ہم اپنے اسکولوں میں گنگناتے، تو ہم بچوں کے دلوں کے اندر ان لفظوں کی تاثیر اترتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔

’’سنو برخوردار۔۔۔!‘‘

قائد نے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر متوجہ ہوئے اور فرمایا:

’’مسلمانان برصغیر نے مجھے ’قائداعظم‘ جیسا خطاب دیا، قیام پاکستان کے بعد میں ’بانی پاکستان‘ اور ’بابائے قوم‘ بھی کہلایا۔۔۔ یہ درست ہے کہ قوم نے آج بھی مجھے یاد رکھا ہوا ہے۔۔۔ لیکن میرے فرامین کو بھلا کر مجھے یاد رکھنے سے بھلا کیا حاصل۔۔۔؟ آج پاکستان کے ہر سرکاری ادارے میں میری تصویر ضرور آویزاں ہے، لیکن اسی تصویر کی پرچھائیں میں بے اصولی بھی کی جاتی ہے اور بدعنوانی کو بھی راہ دی جاتی ہے۔۔۔! اور اب تو کچھ عرصے سے بہت سی سرکاری تقاریب میں میری تصویر کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی راہ نماؤں کی تصاویر بھی لگائی جانے لگی ہیں۔۔۔! ملک کے تمام کرنسی نوٹوں پر میری تصویر ہے، لیکن رشوت ستانی کرتے ہوئے یا روپیے کا غلط استعمال کرتے ہوئے میری شبیہہ دیکھ کر کیوں کبھی کسی کو حیا نہیں آتی۔۔۔؟‘‘ قائد کا لہجہ متفکرانہ تھا، وہ بولے:

’’نوجوانوں کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ انھیں اپنی زندگی ہمیشہ اصولوں کے مطابق گزارنا ہے، وہ اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی اچھا مقصد ضرور متعین کریں اور بس پھر ہمیشہ اس کی جدوجہد کرتے رہیں۔۔۔ تعلیم وتحقیق پر خصوصی توجہ دیں، محنت سے کبھی جی نہ چرائیں۔۔۔ طعنوں تشنوں اور جبرواستبداد سے کبھی نہ گھبرائیں۔۔۔ یاد رکھو، صرف نوٹوں پر میری تصویر چھاپ دینے، ٹی وی چینلوں پر سال میں دو چار دن میرا نام لینے، اخبارات میں میری تصاویر اور مجھ پر مضامین شایع کر دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اصل فائدہ تو تب ہے، جب میری اس یاد سے ’تحریک‘ پا کر اس ملک کے عوام کی بہتری اور فلاح کے لیے مسلسل کام کیا جائے۔۔۔!‘‘

یہ کہہ کر قائد وداع ہوگئے۔۔۔

The post ’’میرے فرمان اور اصول فراموش کر کے میری یاد سے بھلا کیا حاصل۔۔۔؟‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2RdiVIz
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment