کے ایم سی کے پاس فنڈز نہیں، صوبائی حکومت کے پاس وقت نہیں۔ نتیجہ شہری لاوارث، کوئی مصیبت ایسی نہیں جسے وقت سے پہلے روکا جاسکے۔ کچرا، گندگی، یہ انسانوں کی اپنی نالائقی ہے لیکن بارشیں خدا کی پناہ بس جھانک جھانک کر آسمان کی طرف دیکھتے جائیے اور خوف سے آنکھیں بند کرتے جائیے۔
دو دن وہ بارش الامان و الحفیظ گھر کے باہر پانی، گھر کے اندر پانی جس طرف نظر اٹھائیے پانی ہی پانی۔پکی چھتیں گر رہی ہیں ،پکی دیواریں گر رہی ہیں۔ دفاتر اور فیکٹریوں کو جانے والے پھنس رہے ہیں، واپسی کا کوئی راستہ نہیں، سامنے ندیاں بہہ رہی ہیں۔
حکومت کو معلوم ہے کہ یہ بارش کا موسم ہے، بارش کا کوئی سر پیر نہیں، محکمہ موسمیات جو پیش گوئیاں کرتاہے وہ مذاق سے کم نہیں، سرکاری ادارے (متعلقہ) کی کارکردگی اللہ اللہ۔ عوام بس اللہ توکل ہیں، کراچی سمیت ملک بھر میں بارشوں کا جو سلسلہ جاری ہے کہا جا رہا ہے کہ پچھلے عشروں میں ایسی بارشیں نہیں دیکھیں، ہمارا انتظامی سیٹ اپ اتنا نامعقول کہ بارش کی لائی ہوئی تباہیوں کے بعد عوام کے آنسو پوچھنے آ جا تا ہے۔
دنیا کے مہذب ملکوں میں اول تو بارش سے بچاؤ کے ایسے مستحکم سسٹم موجود ہیں کہ بڑی سے بڑی بارش شہریوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس کے علاوہ ایک فعال ایمرجنسی نظام موجود ہوتا ہے جو ہنگامی صورتحال میں شہریوں کی بھرپور مدد کرتا ہے اس کے برخلاف ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ معمولی سی بارش سے سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں اور پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں۔ اطلاع ہے کہ اس بار پوش علاقوں میں بھی بارشوں نے گڑبڑ کردی، پوش علاقوں میں ایسی آفات کے معقول انتظامات ہوتے ہیں نہ ان علاقوں میں کچرا کوڑا ہوتا ہے نہ گلیوں میں گندا پانی بہتا ہے ایسے علاقے جب پانی کی لپیٹ میں آجاتے ہیں تو پانی کی تباہی کا اندازہ مشکل نہیں۔ ہمارا محکمہ بلدیہ مفت خوروں سے بھرا ہوا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ ملازمین مہینوں نہیں آتے اور حاضریاں لگتی ہیں جہاں صورتحال یہ ہو وہاں کی کارکردگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ انگریزوں کو ہم گالیاں دیتے ہیں لیکن انگریز ملازمین کے کام کے حوالے سے بہت سخت تھے، یہی وجہ ہے کہ اس پرانے دور میں بلدیہ سمیت سارے ادارے فعال رہتے تھے۔
آزادی ملی تو ہم انگریز سے تو آزاد ہوگئے لیکن اپنے غلام بن کر رہ گئے، نتیجہ ہمارے سامنے ہے، اس سیزن کی بارشوں نے ملک کا جو حال کر رکھا ہے وہ سرکار کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے لیکن سرکار نے بے حسی کا ایسا لبادہ اوڑھ رکھا ہے کہ اس پر کسی بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ اوپر کی کارکردگی صفر ہو تو صفر نیچے تک آ جاتا ہے۔ بلاشبہ اس سال بارشیں گزشتہ سالوں سے زیادہ ہوئی ہیں لیکن حکومتیں وقت کے ساتھ ساتھ،انتظام کر رکھتی ہیں، یہی وجہ ہوتی ہے کہ ان کا انفرااسٹرکچر بڑی سے بڑی بارشوں کو بھی برداشت کرلیتا ہے جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ذرا سی بارش میں سارا سسٹم اوندھا ہو جاتا ہے۔
ہماری بلدیاتی سرکار نے طے کرلیا ہے کہ بارش کے پانی کو کھلی آزادی دے دیں گے وہ جہاں چاہے بہتا جائے، نقصان کرے، سرکار آنکھیں بند ہی رکھے گی۔ یہ صورت حال بلدیاتی افسروں اور عملے کے لیے سوالیہ نشان نہیں بلکہ عوام کے لیے سوالیہ نشان ہے کہ وہ اپنے سرکاری محکموں پر نظر کیوں نہیں رکھتے، حالانکہ سرکاری ملازمین اورافسروں کو ہنگامی حالات کے لیے خصوصی فنڈز جاری کیے جاتے ہیں لیکن وہ سب ’’ہذا من فضل ربی‘‘ کی نذر ہو جاتے ہیں، جب تک کھانے پینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا بارشیں تباہی مچاتی رہیں گی۔ عوام رلتے رہیں گے، اس صورتحال کے خاتمے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ہمارے ملک کے مختلف محکموں میں سرکاری ملازمین نہیں نوابین کام کرتے ہیں اور یہ لوگ عادت کے اتنے پکے ہوگئے ہیں کہ اب انھیں غیر معمولی سختی اور سزاؤں سے ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔
اس حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص یعنی ہر سرکاری ملازم کھاؤ پیو اور ٹرخاؤ کے فارمولے پر عمل پیرا ہے اور جہاں یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے، وہاں بھلائی کی امید فضول ہے، سرکاری ملازمین تو ملازمین ہی ہیں لیکن ہمارے عوام کس مرض کی دوا ہیں۔ ہمارا ملک جمہوری کہلاتا ہے اور جمہوریت میں عوام بااختیار ہوتے ہیں لیکن ہماری جمہوریت میں عوام کو غلام بنا کر رکھ دیا گیا ہے جس ملک میں یہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، ایسے ملک کبھی سدھر نہیں سکتے اور عادی مجرموں کی خرابیاں اپنا لیتے ہیں۔
ہم نے اب تک اس نئی حکومت کی حمایت اس لیے کی کہ اس میں پرانے پاپی نظر نہیں آئے لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ نئے کے روپ میں وہی پرانے ’’فنکار‘‘ عوام کے سروں پر سوار ہیں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ عمران خان ایک فعال انسان ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ماحول نے انھیں بھی پرانا بنا دیا ہے، اب وہ اپنا زیادہ وقت کابینہ کی میٹنگز میں گزارتے ہیں۔ وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور 72 سال بعد ایک ایسی مڈل کلاس حکومت برسر اقتدار آئی ہے جس کی جڑیں عوام میں ہیں اور 3 سال پہلے عمران خان عوام میں ہوتے تھے، اس لیے عوام ان کے ساتھ ہوتے تھے، وقت کے ساتھ ساتھ عمران خان عوام سے خواص میں تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے یہ تبدیلی عمران خان کے لیے فائدہ مند ہو لیکن عوام کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے۔ عمران خان نے بار بار کہا ہے کہ میں اس پسماندہ ملک کو اوپر لاؤں گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی حوالوں سے ملک اوپر آ رہا ہے لیکن اصل مسئلہ عوام کے اوپر آنے کا ہے۔ اگر عوام اوپر نہ آئے تو نئے پاکستان کا نعرہ سوائے نعرے کے کچھ نہیں رہے گا، اب بھی وقت ہے کہ عمران خان حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیں اور عوام کو اوپر لانے کے لیے ٹھوس پلاننگ کریں۔
The post عوام کو اوپر لائیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3gUmgqr
0 comments:
Post a Comment