Ads

اپوزیشن کا پلان آف ایکشن

اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس(اے پی سی ) نے اپنا سیاسی دھماکا کردیا، جس میں وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ‘‘ کے نام سے نیا سیاسی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔

اپوزیشن کے پلان آف ایکشن کے تحت حکومت مخالف تحریک میں وکلاء، تاجر،کسان، عوام اور سول سوسائٹی کو شامل کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں اکتوبر میں چاروں صوبوں میں مشترکہ جلسے اور ریلیاں منعقد ہونگی۔ دوسرے مرحلے میں دسمبر سے بڑے احتجاجی مظاہرے اور ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔

جنوری2021 میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ ہوگا۔ حکومت کی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام آپشنز استعمال کیے جائیں گے، پلان آف ایکشن کے تحت حکومت پردباؤ بڑھانے کے لیے عدم اعتماد کی تحاریک اور اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے بھی شامل ہیں۔

ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو عدم اعتماد کی تحاریک اور اسمبلیوں سے استعفوں سے متعلق لائحہ عمل وضع کرے گی۔ اجلاس میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کے صدرشہباز شریف، مریم نواز، مولانا فضل الرحمان، اویس نورانی اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اے پی سی میں26 نکاتی قرارداد منظورکر لی گئی۔

قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ 1947سے لے کر اب تک تاریخ کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ٹروتھ کمیشن تشکیل دیا جائے، چارٹر آف پاکستان مرتب کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا بھی فیصلہ ہوا۔

کمیٹی اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کی سمت کا تعین کرے گی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ غریب دشمن حکومت سے نجات دلانے کے لیے منظم احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔ ملک میں شفاف، آزادانہ، غیرجانبدارانہ انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا گیا اور صدارتی نظام رائج کرنے کے مذموم ارادے کی مذمت کی گئی۔

قرارداد میں کہا گیا کہ موجودہ حکومت سقوط کشمیرکی ذمے دار ہے۔ سیاسی انتقام کا شکار اور جھوٹے مقدمات میں گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، حکومت نے سی پیک کو خطرے میں ڈال دیا ہے،گلگت بلتستان میں بغیر مداخلت انتخابات کروائے جائیں۔ اجلاس میں پاکستان بارکونسل کی اے پی سی کی قرارداد کی توثیق کی گئی۔

پاکستانی شہریوں کو مسنگ پرسن بنانے کا سلسلہ بندکیا جائے۔ اجلاس میں پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے کٹوتی کی مذمت کی گئی۔ مطالبہ کیا گیا کہ آغاز حقوق بلوچستان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، بلوچستان میں ایف سی کی جگہ سول اتھارٹی بحال کی جائے۔

قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ غیر آئینی، غیر قانونی، غیر جمہوری و شہری آزادیوں کے خلاف قوانین کالعدم قرار دیے جائیں۔ سی پیک منصوبوں کی رفتار تیز، مغربی روٹ پر موٹروے اور ریلوے لائنزکی ہنگامی بنیادوں پر تعمیرکی جائے، اعلامیہ میں کہا گیا کہ شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات کی جائیں جس میں فوج اور ایجنسیز کا عمل دخل نہ ہو، اٹھارہویں ترمیم، صوبائی خودمختاری، این ایف سی ایوارڈ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

انتخابات سے قبل گلگت بلتستان کی حیثیت کو تبدیل نہ کیا جائے۔ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں ہر کسی قسم کی مداخلت فوری طور پر بند کرے، اسٹیبلشمنٹ کے تمام ادارے آئین کے تحت اپنے حلف اور اس کی متعین کردہ حدود کی پابندی کریں۔آٹے، چینی، گھی، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں فوری کم کی جائیں۔ اجلاس وفاقی پارلیمانی جمہوریت کو پاکستان کے تحفظ کا ضامن سمجھتا ہے۔ پارلیمان کی بالا دستی پرکوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔

تمام گرفتار صحافیوں ، میڈیا پرسنز کو رہا کیا جائے اور ان کے خلاف غداری اور دیگر بے بنیاد مقدمات خارج کیے جائیں۔ شہریوں اور میڈیا کی آزادیوں کو چھیننے کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے۔ آج کے بعد ربڑاسٹیمپ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کوئی تعاون نہیں کریگی۔

کے پی میں غیر قانونی نجی جیلوں کو پولیس کے حوالے کیا جائے۔ اجلاس نے منصف مزاج ، غیر جانبدار ججوں کے خلاف دباؤ کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی مذمت کی اور کہا اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا موجودہ طریقہ کار ایک آزاد عدلیہ کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کی روشنی میں احتساب کا نیا قانون بنایا جائے اور ملک کے تمام اداروں اور افراد کا خواہ ان کا تعلق عدلیہ ، بیوروکریسی یا پارلیمان سے ہو ایک ہی قانون اور ادارے کے تحت احتساب کیا جائے، پنجاب میں بلدیاتی ادارے بحال کیے جائیں۔

اے پی سی کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف پلان آف ایکشن کا اعلان کیا، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا موجودہ حکومت سلیکٹڈ اور دھاندلی کی پیداوار ہے، موجودہ حکومت کا مزید قائم رہنا ملک کے وجود کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ آج سے ہی کام شروع کردیگا جس طرح آر ڈی اے کی تحریک کامیاب ہوئی تھی اس طرح یہ تحریک بھی ضرورکامیاب ہوگی جو بھی جماعت مشترکہ اعلامیہ سے پیچھے ہٹے گی، اس کا احتساب میڈیا کرے ، حکومت گرانے کے لیے صرف جمہوری، آئینی طریقہ کارکا انتخاب کرینگے، تحریک عدم اعتماد اور استعفے دونوں آپشنز آئین کے تحت استعمال کرینگے، مولانا فضل الرحمان کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔

استعفوں سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے بلاول نے کہا کہ اپوزیشن کے سینئر ارکان پر مشتمل کمیٹی درست وقت اور درست نمبرزکے ساتھ کارروائی کے وقت کا تعین کریگی۔اقبال احسن نے بھی اسی سے ملتا جلتا بیان دیا۔ شہباز شریف نے شگفتہ موڈ میں مولانا فضل الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے فلم ’’ارمان‘‘ کے نغمہ کے بول سنائے ’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر‘‘۔ پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہونے والی اے پی سی سے سابق وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدر آصف زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔

ذرایع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ویڈیو لنک کی اجازت دی جو ان کی جانب سے سیاسی رواداری کا صائب اظہار اور اچھا اقدام تھا۔ تاہم اس زمینی حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں نفسیاتی اور اعصابی جنگ  کا آغاز ہوچکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ رواں جمہوری نظام نے ان دو سالوں میں سیاسی بلوغت اور طرز حکمرانی کی کتنی مدبرانہ منزلیں طے کی ہیں اوراپوزیشن اپنی مزاحمتی اسٹرٹیجی کو کیسے جمہوری اقدار کے ساتھ چلاتی ہے۔

غیر جانبدارسیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اے پی سی لندن معاہدہ جیسا سحر قائم نہ رکھ سکی مگراپوزیشن رہنماؤں کے مطابق وہ حکومت پر سیاسی دباؤ قائم رکھنے کے لیے پر امید ہیں۔

حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیزکانفرنس کو ناکام قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اے پی سی کا مقصد صرف ذاتی مفادات کا تحفظ تھا، اے پی سی ٹائیں ٹائیں فش رہی، کسی کو این آر او نہیں ملے گا،احتساب کا عمل جاری رہے گا۔

وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر شبلی فراز نے اے پی سی پراپنے ردعمل میں کہا کہ وفاقی دارالحکومت کا ماحول نارمل ہے، کچھ سیاسی رہنما اکٹھے ہوئے،آل پارٹیزکانفرنس (اے پی سی) احتساب کو ختم کرنے کے لیے حکومت پردباؤ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔قوم نے اچھی طرح سے دیکھا کہ اپوزیشن نے ذاتی فائدے اورمقاصد کے لیے سیاست کا استعمال کیا،انھوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان بدعنوانی کے خلاف اپنے عزم پرکوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی سزا یافتہ مجرموں کے اجتماع کے سوا کچھ نہیں تھا،وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے تمام قائدین نے حکومت کے بجائے قومی اداروں پر وار کیا ہے، اپوزیشن میں تحریک چلانے کا دم خم نہیں، چیئرمین کشمیرکمیٹی شہریار خان آفریدی نے کہا اپوزیشن کا ایجنڈا کچھ بھی ہو قوم مسئلہ کشمیرکو سبوتاژکرنے والے سیاستدانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی،گزشتہ تینوں حکومتوں نے کشمیر کو نظر انداز کیا۔

بلاشبہ کافی دنوں سے حکومت اور اپوزیشن  میں چشمک زنی جاری تھی،دوسری طرف ملک کوگراں بار مسائل درپیش ہیں ،عوام کو کورونا، مجرمانہ، جنسی وارداتوں،کراچی کی بارش سے تباہی سمیت قرضوں،مہنگائی اور بیروزگاری کے چیلنجزکا سامنا ہے، اب دانشمندی کا جمہوری تقاضہ ہے کہ اس کشمکش کا دی اینڈ ہو، عوام کے مصائب میں کمی آئے، سیاست دباؤ سے آزاد ہو، معاملات کو جمہوری اسپرٹ کے ساتھ حل کرنے کی ابتدا کی جائے۔

ایک ہمہ جہتی مشاورت اور جمہوری مصالحت و مکالمہ ہو ، حکومت کو فری ہینڈ ملے جب کہ الزامات کی سنگ زنی تھم جائے۔ ملک کے معاشی مسائل کا حل عوام کا بنیادی مطالبہ ہے۔ فہمیدہ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اب حکومت کو چاہیے کہ وہ جمہوری مکالمہ کی مشعل لے کر چلے، وفاقی وزرا ، وزیراعظم کے مشیرو معاونین تند وتیز طنزیہ بیانات دینے سے گریزکریں۔

سیاست کو سانس لینے دیں، بربادی (Dooms day) سیناریو سے اپوزیشن اور حکمراں دونوں دامن چھڑائیں، کہ اس میں ہوتا ہے بہت جاں کا زیاں۔ بلیم گیم کو مشغلہ بنانے کے بجائے معاشی ،سیاسی اور تزویراتی چیلنجز سے نمٹنے کا وقت اور مل بیٹھ کر سیاسی تصفیہ کی راہ نکالیں، جن سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمات اور دیگر کے خلاف کرپشن کیسز ہیں ان کا فیصلہ عدلیہ کوکرنے دیں، باقی جوکام جمہوری ٹریکل ڈاؤن کے ہیں وہ مکمل ہونے چاہئیں،کہا جاتا ہے عوام کی مجبوریوں اور مشکلات کا ادراک ہی سیاسی نظام کو توانائی عطا کرتا ہے،عوام کو حکومت اور اپوزیشن سے بہت سی توقعات ہیں۔ وہ مسائل حل ہونے کے آج تک منتظر ہے،اس انتظارکو پلیز!کرب انگیز مت بنائیں۔

The post اپوزیشن کا پلان آف ایکشن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32Rw5lq
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment