Ads

خودکشی کی راہ سے پلٹنے والی خاتون کے چار مشورے

جب لارین 24 سال کی تھیں تو انھیں لگا کہ وہ خود کشی کرنے والی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ان کی عمر 16 سال تھی تو ان کے ہاں ان بیٹی کوڈی پیدا ہوئی۔ صدمے اور ’زہریلے‘ رشتے کی وجہ سے وہ ذہنی صحت کے مسائل سے دو چار تھیں۔انھوں نے بتایا کہ ’میں اپنے آپ کو انسان بھی نہیں سمجھ رہی تھی۔ مجھے لگا کہ میں ایک خول میں ہوں، اور کسی نے میری روح اور میرے سارے اعضا مجھ سے چھین لیے ہیں۔ مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میں اپنے آپ کو انسان بھی نہیں سمجھ رہی تھی۔‘

لارین نے اگست 2018 میں خود کشی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ گئیں لیکن کئی دیگر اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ آفس آف نیشنل سٹیٹسٹکس (او این سی) کے مطابق برطانیہ میں سنہ 2014 کے بعد سے 2019 میں عورتوں کے خود کشی کرنے کے اعداد و شمار سب سے زیادہ ہیں۔ سنہ 2012 میں 10 سے 24 سال کے 81 بچوں نے خود کشی تھی جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 159 ہو گئی تھی۔

لارین کا کہنا ہے کہ ’مجھے ان اعداد و شمار سے کوئی حیرت نہیں ہوتی۔‘

لاک ڈاؤن کے دوران، وہ اور ان کے دوست، ان جگہوں پر گئے جہاں اکثر لوگ خود کشیاں کرتے ہیں۔ انھوں نے وہاں کاغذ کے ٹکڑوں پر ہمدردانہ جملے لکھ کر رکھے۔

’’ ہمیں ایسا کرنے کے بعد بہت سے پیغامات آئے، اس سے مجھے احساس ہوا کہ جتنا ہمیں علم ہے اس سے کہیں زیادہ لوگ تکلیفیں سہہ رہے ہیں۔ جن کو میں ذاتی طور پر جانتی تھی، اور کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان پر مشکل وقت ہو گا، مجھے شکریہ کہہ رہے تھے۔ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ میں بھی تکلیف میں ہوں‘‘

لارین کہتی ہیں کہ جب وہ کبھی بہت زیادہ مایوسی کا شکار تھیں تو انھیں لگتا تھا کہ ان کے اس کے متعلق بات کرنے سے لوگ سمجھیں گے کہ وہ ’توجہ حاصل‘ کرنا چاہتی ہیں۔ مجھے لگا کہ کوئی بھی مجھے سنجیدگی سے نہیں لے گا، وہ سمجھیں گے کہ میرا دن ہی برا تھا لیکن جب میں نے اپنے دوستوں اور خاندان والوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تو میں بہت زیادہ بہتر محسوس کرنے لگی۔‘

گذشتہ سال اپنی جان خود ہی لینے والے 5,691 لوگوں میں سے تین چوتھائی مرد تھے۔ اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں اب خود کشیوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

وبا کے دوران کئی خیراتی ادارے خبردار کرتے رہے ہیں کہ اس اضافی دباؤ کا اثر ذہنی صحت پر ہو سکتا ہے، جب نوکریاں اور آمدنی ختم ہو رہی ہی، اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی تعلق میں کمی ہے اور زیادہ تر لوگ گھروں میں رہ رہے ہیں۔

برطانیہ میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں ایل جی بی ٹی لوگ خود کشی سے محفوظ رہنے کے لیے سپورٹ حاصل کر رہے ہیں۔

ایما کیرنگٹن خیراتی ادارے ’ری تھنک‘ میں مینیجر ہیں۔ یہ ادارہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ ان حالات میں وہ خود کشی کر سکتے ہیں یا وہ لوگ جن کو ذہنی بیماریوں کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’اگرچہ یہ اہم ہے کہ وہ خود کشیوں کی شرح کے متعلق قیاس آرائی نہ کریں لیکن انھوں نے محسوس کیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران بہت زیادہ لوگ جذباتی سپورٹ اور مشورے طلب کر رہے ہیں۔‘‘

دو سال کے بعد اگر لارین کے نقطہ نظر کو دیکھیں تو وہ بچ جانے سے بہت خوش ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سیکھا کہ یہ برا دن ہے، بری زندگی نہیں۔‘

ایما کے پاس چار مشورے ہیں جو وہ کہتی ہیں وہ اسے دیں گی جو مشکلات کا شکار ہو گا اور جد و جہد کر رہا ہو گا۔

اول: بات کرنا بری بات نہیں: جب ہمیں اس طرح کے خیالات آتے ہیں تو ہمیں بہت شرم محسوس ہوتی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ واقعی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن حقیقت میں بہت سے لوگ پرواہ کرتے ہیں، وہ چاہے دوست ہوں، خاندان والے، آپ کا ڈاکٹر یا ایڈوائس لائن (فون پر مدد کرنے والے) ۔

دوم : نازک دور کے لیے پلان بنا کر رکھیں اور ان وجوہات کو جانیں جن کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کو پتہ ہو کہ آپ کو کیا چیز افسردہ کر سکتی ہے۔

جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو ہم ایسی چیزیں کرتے ہیں جیسے کہ فیس بک پر ان کی تصاویر دیکھنا جن سے پہلے تعلقات تھے، ہم غم زدہ نغمیں سنتے ہیں، ہم وہ فلمیں دیکھتے ہیں جو ان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا کرتے تھے، اس طرح کی ساری چیزیں۔

سوم : ایسی چیزیں نہ کریں! : نشہ آور ادویات اور الکوہل سے دور رہیں۔ یہ وہ مشورہ نہیں ہے جو لوگ ہمیشہ سننا چاہیں گے کیونکہ جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو ہم اکثر ان چیزوں کا سہارا لیتے ہیں تاکہ ہم اچھا محسوس کریں لیکن حقیقت میں وہ ہمارے اپنے آپ پر قابو پانے کی صلاحیت کو کم کر دیتی ہیں۔ بہت امکان ہے کہ جب آپ نشہ آور چیزوں اور الکوہل کا استعمال کر رہے ہیں تو خود کشی کرنے کے خیالات پر عمل درآمد کرنے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔

چہارم : ایک کیئر بکس بنائیں: یہ ایک ڈبہ بھی ہو سکتا ہے، ایک کیریئر بیگ بھی یا کچھ بھی۔ آپ اس میں اپنی وہ چیزیں ڈالیں جن سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔ یہ آپ کی پسندیدہ سی ڈی بھی ہو سکتی ہے، آپ کے کسی چاہنے والے کا خط بھی، آپ کا پسندیدہ جمپر یا چاکلیٹ بار، ایسی کوئی بھی چیز جو آپ کو خوشی دے۔ آپ جب بھی پریشان یا غمزدہ ہوں تو آپ اس میں چیزیں نکال سکتے ہیں جس سے آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ اپنا خیال رکھتے ہیں۔       (بشکریہ بی بی سی)

The post خودکشی کی راہ سے پلٹنے والی خاتون کے چار مشورے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2FlMYLK
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment