گزشتہ دو سال سے ملک میں آٹے کا بحران ہے۔ آٹے کے نرخ تقریباً دوگنے ہوگئے ہیں ۔ حکومت جو ہمیشہ غریب ، مزدور اور دہاڑی پر کام کرنے والوں کی فکر میں ڈوبے رہنے کی داعی نظر آتی ہے، وہ عملی طور پر اُن کے مفاد میں کوئی کام نہیں کرسکی ہے ۔ ایسی ہی کچھ صورتحال ملک جاری آٹے و گندم کے بحران کے دوران بھی ہے ۔
رواں ہفتے حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 1650 روپے فی من مقرر کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔ کابینہ کے اجلاس میں تو 1800 روپے مقرر کرنے کی سفارش سامنے آئی مگر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امدادی قیمت بڑھانے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔
ہمارے اسمارٹ و کپتان وزیراعظم کی نیت پر بغیر کوئی شک کیے ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ آپ کی تمام تر پالیسیوں سے سب سے زیادہ نقصان بھی انھی کو ہوتا ہے ، جس کی فکر آپ کو کھائے جاتی ہے ۔ حکومت سبسڈی دے رہی ہے ، کفالت پروگرام چلا رہی ہے، پھر بھی غریبوں کے گھروں میں فاقوں کی صورتحال ہے شاید یہ سب اس لیے ہے کہ حکومت سرکاری اُمور کی سرانجامی سے زیادہ مخالفین کو نیچا دکھانے میں مصروف رہتی ہے ۔
زمانہ قدیم کے بادشاہی نظام سے لے کر آج کے جدید جمہوری نظام ِ حکمرانی تک حکومت کا اولین فرض ملک میں عوام کی استطاعت کے مطابق اشیائے خورو نوش کی فراوانی سے دستیابی کو یقینی بنانا رہا ہے ۔ ورنہ مہنگے داموں پر چیزوں کی فراہمی تو تاجروں کی پالیسی ہے ۔ ماضی میںہمارے یہاں ایسی صورتحال صرف قحط کے دنوں میں نظر آتی تھی ، اور اس سے نمٹنے کے لیے بھی حکومت ِ وقت راشن کارڈ یا کسی دوسرے طریقے سے ہی سہی مگر عوام کو سستے داموں اشیا کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا تھا ۔ جب کہ اس وقت ملک میں نہ قحط کی صورتحال ہے اور نہ ہی فصل خراب ہونے کی کہیں سے کوئی اطلاع ، مگر اُس کے باوجود ملک میں گندم کی قلت کا بحران ہے ۔ یہ صرف اور صرف حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔
دیکھتے آئے ہیں کہ ہر سال اپریل میں گندم کی نئی فصل مارکیٹ میں آتے ہی ملک میں آٹے کی قیمتوں میں کمی واقع آجاتی، گندم کی فراوانی ہوتی ،سردیوں کے موسم میں ضرورت پوری کرنے کے لیے سرکاری گوداموں میں ذخیرہ کاری بھی کی جاتی تاکہ سارا سال مارکیٹ میں گندم کی ترسیل کو یقینی بنایا جاسکے۔اس پالیسی سے ملک میںکبھی آٹے کا بحران ہوتے نہیں دیکھا ، مگر رواں برس اس کے برعکس ہوا۔نئی گندم جس سے متعلق بمپر کراپس کے حکومتی دعوے تھے اُسے اُترے ابھی ایک مہینہ نہیں گذرا تو مارکیٹ سے گندم غائب ہوگئی اور حکومت کواکتوبر کے بجائے جون میں ہی سرکاری گوداموں سے گندم جاری کرنی پڑگئی ۔ جس سے ملک میں گندم کا بحران شدید ہوگیا۔
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں گندم کا بحران سندھ حکومت کی وجہ سے ہے ۔ جب کہ سندھ حکومت کہتی ہے کہ وفاقی حکومت اور اُس کی ماتحت پنجاب حکومت اس سارے بحران کی ذمے دار ہیں ۔ جب کہ ملک میں جاری پالیسیوں پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پالیسیاں آئی ایم ایف کی تیار کردہ ہیں ، اوراب تو ظاہر ہوگیا ہے کہ انھیں عوام یا اس ملک کے مفاد نہیںبلکہ اپنے کاروباری مفاد عزیز ہیں ۔ کیونکہ یہ صرف گندم کے معاملے میں نہیں ہورہا بلکہ حال ہی میں ملک میں چینی کا شدید بحران پیدا ہونے پر بیرون ِ ملک سے 5ارب 68کروڑ روپے مالیت کی 79ہزار ٹن چینی امپورٹ کرنے کے بعد ، اس میں بھی یہی صورتحال ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق امپورٹ شدہ چینی کا معیار بہتر نہ ہونے کی باتیں مارکیٹ میں عام ہیں ۔
اب پی ٹی آئی کی ماتحت پنجاب حکومت صوبہ بھر میں ضلعی انتظامیہ کے ذریعے تاجروں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ مقامی چینی نہ بیچی جائے اورنئی مقامی چینی مارکیٹ میں آنے سے قبل یہ امپورٹ چینی کسی بھی صورت میں فروخت کردی جائے ۔ ہلکے معیار کی چینی کی امپورٹ سے متعلق بات سامنے آئی ہے کہ اچھے معیار کی چینی کے لیے جاری کیے گئے ایک ٹینڈر کو منسوخ کرکے دوبارہ ہلکے معیار کی چینی منگانے کا ٹینڈر جاری کیا گیا۔ اور اب وہ حکومت کے حلق میں آگیا ہے ۔
دیکھا جائے تو سابقہ حکومت کے دور میں دھرنوں کے دوران بجلی ، تیل ، گیس اور دیگر اشیاء کے نرخوں پر عوام کو سول نافرمانی کی ترغیب دینے والی پی ٹی آئی کے لیے2018 میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے ہی ملک میں بنیادی ضروریات ِ زندگی کی اشیاء خاص طور پر اشیائے خور و نوش کی قلت اور اُن کے نرخوں پر کنٹرول چیلنج ثابت ہورہا ہے ۔ 350 روپے کلو ٹماٹر کے نرخ بھی اِسی حکومت میں نظر آئے ۔
پیٹرول و بجلی کے نرخ میں بلا ضرورت بار بار اضافہ بھی اسی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ رہا ہے اور پھر چینی 55 سے 105روپے فی کلوتو آٹا 45سے 75 روپے کلو تک پہنچنا بھی اسی حکومت کے دور میں ہوا ہے ۔ پھر ایسی چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومت کی ماہر معاشی ٹیم نے ہنگامی بنیادوں پر ہر چیز کا حل باہر سے امپورٹ کرنا ٹھہرایا ۔اب گندم کے لیے تو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ ساڑھے پانچ ملین ٹن گندم برآمد کرنے کے بعد مہنگی خریدی گئی۔
گزشتہ منگل کو ہونیوالے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی کارروائی کے مطابق 2018 میں برسراقتدار آنے کے بعد پیدا ہونیوالے آٹے کے بحران سے نمٹنے کے لیے ساڑھے پانچ ملین ٹن گندم اور گندم کی مصنوعات خریدنے کی اجازت دے دی تھی۔ گندم کی قلت پیدا ہونے اور قیمتیں 75فیصد بڑھنے پر حکومت نے ملک کے اندر سے مہنگی گندم خریدی بلکہ بیرون ِ ملک سے بھی درآمد کی۔ قیمتوں پر کنٹرول کے لیے گندم پر سبسڈی دینا پڑی۔
موجودہ سیزن میں گندم کی کم از کم امدادی قیمت 1400روپے فی من تھی جو صوبائی حکومتوں کو خریداری، ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات ڈال کر 1931 فی من پڑی تھی۔ فلور ملز کو یہ گندم 1475 روپے فی من جاری کی گئی ۔ یوں حکومت کو فی من پہلے ہی 475روپے سبسڈی کی مد میں ادا کرنا پڑرہے ہیں ۔ درآمدی گندم بھی حکومت کو 2000 روپے فی من میں پڑی ہے ۔
میڈیائی رپورٹس کے مطابق وفاقی حکومت اس ضمن میں ہونیوالے 105ارب روپوں میں سے صرف 11ارب نقصان برداشت کریگی۔ جب کہ باقی تمام بوجھ سبسڈی کے نام پر صوبوں پر ڈال دیا گیاہے۔ جس کے بعد اب صوبوں پر مقامی اور درآمدی گندم پر مجموعی سبسڈی کے بوجھ کے اعداد و شمار کچھ اس طرح ہوں گے کہ پنجاب پر 70 ارب روپے ، سندھ پر 64 ارب ، خیبر پختونخوا پر 10 ارب جب کہ بلوچستان پر 10 کروڑ کا بوجھ پڑے گا۔ جس سے صوبوں کا بجٹ خسارہ بڑھ جائے گا۔
سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے اس پر اعتراض اُٹھ سکتا ہے ، کیونکہ وہ کپتان کی ٹیم کا حصہ نہیں بلکہ حریف ٹیم ہے جو کپتان کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت یہ 64ارب کا بوجھ اپنے سر لینے پر راضی ہوتی ہے یا نہیں ۔
The post گندم کی آڑ میں 105 ارب کا ٹیکا۔۔۔!!! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ION4O5
via Blogger https://ift.tt/35SOYWD
November 21, 2020 at 09:59PM
0 comments:
Post a Comment