کورونا وائرس کے عفریت اور تعلیم و تدریس کے مابین جنگ اور کشمکش نے ہولناک رخ اختیار کر لیا ہے، بظاہر حکومت نے طلبا و طالبات کی زندگیوں کے تحفظ کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پھر سے پی لیا ہے اور کورونا کیسز میں اضافے کے پیش نظر حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو26 نومبر سے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم قوم کو یقین دلایا ہے کہ اس دوران گھروں سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے بین الصوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر میں خطرناک اضافے کے بعد 26 نومبر سے24 دسمبر تک تمام تعلیمی ادارے اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز، ٹیوشن سینٹرز بند رہیں گے جب کہ25 دسمبر سے 10جنوری تک تعلیمی اداروںمیں سردیوں کی تعطیلات ہوں گی۔اجلاس میں اسکولوں کی بندش پر تمام وزرائے تعلیم متفق ہوگئے۔
وفاقی وزیر تعلیم نے کہا، بچوں کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ اسکولوں کی بندش کے دوران جہاں تعلیمی سلسلہ آن لائن ہے وہاں آن لائن جہاں یہ سہولت نہیں ہے دستیاب اساتذہ ہوم ورک فراہم کریں گے اور اس سلسلے میں صوبائی حکومتیں فیصلہ کریں گی۔ 26 نومبر سے 24 دسمبر تک گھروں سے پڑھائی کا سلسلہ جاری رہے گا جب کہ 25 دسمبر سے 10جنوری تک موسم سرما کی تعطیلات ہوں گی۔11 جنوری کو حالات کی بہتری پر تمام تعلیمی ادارے دوبارہ کھول دیے جائیں گے تاہم جنوری کے پہلے ہفتے میں ایک جائزہ اجلاس ہو گا۔
وزارت تعلیم نے شیڈول بھی دے دیا ہے جس کے تحت تدریس کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا جائے گا، لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں کیونکہ یہی طریقے گزشتہ لہر میں بھی اپنائے گئے تھے، آن لائن تعلیم پر عمل کیا گیا، بہرحال آج سوال نئی نسل کی تدریس اور ان کی صحت کو لاحق خطرات کا ہے۔
حکومت کا یہ نظریہ مستحسن ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے تین بنیادی چیزیں طے کرلی گئی ہیں اور وہی ایس او پیز میں موجود ہیں، تضاد یہاں ہے کہ ایس اوپیز ہی پر عمل درآمد کورونا سے بچاؤ کی بنیادی شرط ہے تو لاکھوں طالب علموں کو اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں ماسک، سینیٹائزیشن اور سماجی فاصلہ کی ترتیب کو مراتب کے اصولوں سے مشروط کیوں نہیں کیا جا سکتا، مشاہدے میں آیا ہے کہ اسکولوں، کالجز اور جامعات میں داخلے کے وقت ماسک پہننا لازمی تھا، طلبا و طالبات سینیٹائز کیے جاتے تھے، کلاسز میں سماجی فاصلہ اور تدریسی اوقات کا نظام الاوقات بھی دیاگیا تھا۔
اس پراسس کی سائنسی اور عقلی بنیادوں پر ماہرین تعلیم، والدین اور اساتذہ نے بھی حمایت کی، والدین بچوں کی تدریس کے سب سے بڑے رازداں ہیں، ان کا بھی یہ استدلال سامنے رکھنا چاہیے کہ جن طالب علموں کو یک بارگی ایک فوج ظفر موج کی طرح گھر بھیج دیا گیا تو کیسے گھر پر ان کے ماسک سینیٹائزیشن اور بھیڑ سے گریز کی پابندیوں کی مانیٹرنگ ہو سکے گی۔
ملک میں طبقاتی سماج کی مجبوریوں اور امارت اور غربت کے تضادات کو سمجھے بغیر اس منطق پر اتفاق کر لینا کہ آن لائن تعلیم جاری رہے گی صائب انداز فکر نہیں، بلاشبہ تجربات اور مشاہدہ میں یہی آیا ہے کہ والدین ہوم ورک کرانے میں اس پابندی کے نتائج حاصل نہیں کرتے، جو کلاس روم میں دیے گئے ہوم ورک کی ناگزیریت کا تقاضہ ہوتا ہے، ماہرین اور والدین کے شش و پنج میں مبتلا ہونے کے کئی شواہد سامنے آئے تھے اور اب بھی مسائل مختلف نہیں ہوں گے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کا نقصان ہمہ جہتی ہے، لیکن بہت زیادہ نقصان سفید پوش اور متوسط طبقات کا ہو رہا ہے۔
بچوں کی تعلیم و تدریس براہ راست ’’کھلی چھٹی‘‘ کی نذر ہوئی ہے، حکومت کے تعلیمی مشیر اور ذمے دار عجیب مخمصہ میں مبتلا رہے، مربوط ایجوکیشن اسٹرٹیجی کا فقدان رہا، ایس او پیز اور دیگر اداروں میں فکری اور انتظامی ہم آہنگی نہیں ہے، ایک طرف گلگت بلتستان میں انتخابی جلسے ہوتے رہے، دیگر سیاسی جماعتوں کے جلسے اور ریلیاں منعقد ہوئیں، حکومتی اجتماعات، اجلاس مسلسل ہو رہے ہیں۔
کئی وزیر مشیر اور معاونین خصوصی وغیرہ اپنی پریس کانفرنسوں میں ماسک کی پابندی نہیں کرتا، بحالت مجبوری فوٹو سیشن پر ماسک پہن لیتے ہیں، مگر بازار بھرے ہوئے ہیں، اسپتالوں میں مریضوں کا رش دیکھئے، کون ماسک، سماجی فاصلہ اور سینیٹائز ہونے کی فکر میں ہے۔
ایک افراتفری ہے، اس لیے اس دو عملی اور استثنائی صورت حال میں مادر علمی کو قربانی کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے، اسکولز، کالجز اور نجی و قومی جامعات میں ماسک، سینی ٹائزیشن اور سماجی فاصلے پر عمل زیادہ درست انداز میں ہوسکتا تھا، کلاس رومز میں بچے محفوظ تھے۔ اساتذہ بھی ایس او پیز کا لحاظ رکھتے تھے۔
وزارت تعلیم کے مطابق دسمبر میں ہونے والے امتحانات کو ملتوی کردیا گیا اور اب یہ 15جنوری اور اس کے بعد ہوں گے تاہم اس میں کچھ ایسے امتحانات ہیں جو جاری رہیں گے۔ اساتذہ اور دیگر بھرتیوں کے سلسلے میں ہونے والے امتحانات بھی جاری رہیں گے۔
یونیورسٹیز فوری طور پر آن لائن تعلیم شروع کر دیں گی جب کہ جامعات کے ہاسٹلز میں طلبہ کا ایک تہائی حصہ رہے گا، جس میں وہ طلبہ ہوں گے جو بیرون ملک یا دور دراز علاقوں سے آئے ہوں یا جہاں انٹرنیٹ کی سہولیات میسر نہ ہو۔ پی ایچ ڈی طلبہ یا جنھیں لیب کا کام کرنا ہے تو انھیں یونیورسٹی بلانے سے متعلق جامعہ خود فیصلہ کریں گی۔ انھوں نے کہا جب تک گھروں سے پڑھائی کا سلسلہ جاری رہے گا تب تک اسکولز اساتذہ کو ضرورت کے مطابق بلانے کا فیصلہ کریں گے۔
ہماری سفارش ہے کہ مارچ اور اپریل میں ہونے والے بورڈ امتحانات کو مئی اور جون میں لے جایا جائے، اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سال کا آغاز اپریل کے بجائے اگست میں کیا جائے، اس سلسلے میں گرمیوں یا مارچ کی چھٹیاں کم کر دی جائیں۔ مختلف ہنر کی تعلیم دینے والے ادارے جہاں طلبا کو فیکٹریوں اور ورکشاپ میں تعلیم دی جا رہی ہے بھی اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا تعلیمی اداروں سے مراد مدارس، یونیورسٹیاں، کالجز اور اسکولز ہیں۔
نجی اسکولوں کے لیے پہلے بھی ایک لون پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ ہماری کوشش ہے کہ کم فیسز والے پرائیویٹ اسکولز کے لیے کوئی پیکیج لائیں۔ معاون خصوصی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ گزشتہ چند روز سے ملک میں کورونا کی صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے اور کیسیز مثبت آنے کی اوسط 7فیصد سے زائد ہو گئی ہے۔ انٹرنس امتحانات جیسے ایم ڈی کیٹ وغیرہ معمول کے مطابق جاری رہیں گے۔ فیصل سلطان نے کہا، ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے، اپوزیشن کو تھوڑے عرصے کے لیے سیاسی سرگرمیاں معطل کر دینی چاہئیں۔
علاوہ ازیں وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہاکہ اس سال کسی صورت بغیر امتحانات کے کلاسز میں بچوں کو پروموٹ نہیں کیا جائے گا، ہماری تجویز ہے کہ تمام تعلیمی ادارے بند نہ کیے جائیں۔ اجلاس میں موقف پیش کیا کہ اگر اسکول بند کرنے ہیں تو پرائمری اسکولز جس میں انرولمنٹ 73 فیصد ہے کو بند کیا جائے۔ کلاس6 اور اس سے آگے کی تمام کلاسز کو جاری رکھا جائے، نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات مئی اور جون میں لینے کا فیصلہ نہ کیا جائے۔
چھوٹے نجی اسکولز کو آسان شرائط پر قرضے دیے جائیں۔ تمام غیر تدریسی سرگرمیاں اس سال مکمل طور پر تعلیمی اداروں میں بند کرنی چاہئیں، جو اسکولز آن لائن تعلیم دینا چاہتے ہیں وہ آن لائن تعلیم دیتے رہیں۔ والدین بچوں کو اسکول نہ بھیجنا چاہیں تو ان بچوں کے خلاف ایکشن نہ لینے کا پابند کیا جائے۔
وزیر تعلیم پنجاب مراد راس نے کہا کہ پنجاب میں اساتذہ پیر اور جمعرات کو اسکولوں میں آئیں گے۔ اگر کسی اسکول میں 10 ٹیچرز ہیں تو 50 فیصد پیر کو اور 50 فیصد جمعرات کو آئیں گے۔ بچوں کو شاپنگ مالز میں جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پارکس بھی بند ہونے چاہئیں، مارکیٹوں میں بھی انھیں جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ادھر نجی تعلیمی اداروں کی نمایندہ تنظیموں نے ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تعلیمی اداروں میں ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کا اعتراف خود حکومت کر چکی ہے تو ایسے میں انھیں بند کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن نے کہا کہ لاکھوں افراد کا روزگار داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولز نیٹ ورک نے کہا وزیر تعلیم کا مدارس دینیہ، بازار، شاپنگ مالز ودیگر مصروف شعبوں سے نظریں چرانا، تعلیم دشمنی کے مترادف ہے۔ آن لائن تعلیم فلاپ پروگرام ہے۔
پیدا شدہ صورت حال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ارباب اختیار نئی نسل کے تعلیمی مسائل اور مشکلات پر ایک بار پھر غور کریں تاکہ ایس او پیز کی پابندی کو کورونا اور طالب علموں کے مستقبل سے ہم آہنگ کرکے ملک کے تعلیمی مفادات کا بھرپور تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
The post تعلیم اور کورونا کے چیلنجز appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3l2XyXc
0 comments:
Post a Comment