Ads

حکومت عوام کی امید قائم رکھے

مہنگائی اور حلقوں کے مسائل کا پورا احساس ہے ، لیکن ہر جگہ مافیا بیٹھا ہے جو تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہے، ان خیالات کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دو سال تک مکمل توجہ معیشت کی بنیاد مضبوط بنانے پر تھی ،اب پوری توجہ عوامی فلاحی منصوبوں پر مرکوز ہے، یہ ظہرانہ برہم اپوزیشن تحریک سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کی تیاری کے تناظر میں اہمیت کا حامل تھا، کیونکہ اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد ملک بھر میں جلسے اور جلوس کررہا ہے، پی ٹی آئی کی منتخب حکومت کو بلاشبہ پانچ سال کا مینڈیٹ ملا ہے، لہٰذا قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ غیر ضروری ہے۔

ہم ملکی سیاسی صورتحال اور حالات وواقعات کا تجزیہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ حکومت درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہرممکن کوشش کررہی ہے لیکن جس جانب وزیراعظم اشارہ کررہے ہیں وہ بھی درست ہے کہ ان کا مقابلہ مافیاز سے ہے،جو مہنگائی کرکے عوام کا جینا دوبھرکررہے ہیں۔

دراصل مافیاز بے لگام ہیں، جب چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی سے کسی بھی شئے کا بحران پیدا کرکے مہنگائی کو آسمان تک پہنچا دیتے ہیں۔ چینی ، آٹا، ادویات ، پٹرول سمیت دیگر متعدد بحرانوں کا سامنا عوام کرچکے ہیں اور مزیداس وقت اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے ان کی کمر توڑ دی ہے، سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بحرانوں کا ایک نہ ختم ہونے والے سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

یہاں پر بات دوبارہ حکومتی کورٹ میں بھی جاتی ہے کہ تبدیلی کی امید سے برسراقتدار آنے والی جماعت ان مافیازکے سامنے تاحال کیوں اتنی بے بس ہے، حکمت عملی میں ایسی کیا خامی ہے کہ عوام کے مسائل کو حل کرنے میں رکاوٹیں پیش آرہی ہیں اور ابھی تک ان رکاوٹوں کو دور بھی نہیں کیا جاسکا ہے، حالانکہ وزیراعظم خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ عوامی مسائل حل ہوں، مہنگائی کی شرح میں اضافہ نہ ہو، عام آدمی کی مشکلات میں کمی واقع ہو۔

یہی وہ نقطہ اور مرحلہ ہے جہاں ارباب اختیارکو ایک ایسی گڈ گورننس کی ضرورت پڑتی ہے جو اپنی پر جوش ٹیم کے ساتھ صورتحال میں بنیادی تبدیلیوں کے خواب کی تعبیرکرسکے اور جو وعدے وزیراعظم نے عوام سے انتخابی مہم کے دوران کیے تھے انھیں پورا کرے تاکہ جمہوری ثمرات کا ٹریکل ڈاؤن شروع ہو، دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور عوام کے صبر کو بھی داد دینی چاہیے کہ انھوں نے غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور کورونا کے مصائب کو سہنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور حکومت کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کی، لیکن حکومت کو اس بات کا خود احساس کرنا چاہیے کہ مہنگائی اور بیروزگاری جب حد سے بڑھ جائے تو ایک اضطراب اور مایوسی بھی جنم لیتی ہے، لوگوں کو اندیشے گھیر لیتے ہیں اور تبدیلی کی تمنا بھی ستانے لگتی ہے۔

اس لیے وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت عوام کے معاشی مسائل کے حل کو ترجیح دے اور اپنے اقتصادی مسیحاؤں کو ہدایت کرے کہ وہ ملکی معیشت سمیت سماجی سسٹم کو استحکام دینے کے اہداف کی تکمیل میں مزید سست روی سے کام نہ کریں کیونکہ  یہ ایک نظام کی خرابیوں کو دور کرنے اور ایک نئے سماجی ڈھانچے کی بنیاد رکھنے کی بڑی ذمے داری ہے، وقت نے عمران خان کو ایک موقع دیا ہے، وہ ایک چشم کشا بریک تھروکرسکتے ہیں جس میں اتحادیوں کو اس قومی مشن میں ان کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔

بلاشبہ وزیراعظم عمران خان پورے نظام کی اوور ہالنگ کے خواہش مند ہیں ،ان کی توجہ حکومت کے پہلے دوبرسوں میں ملکی معیشت کو بہتر بنانے پر مرکوز رہی ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ اگلے قدم کے طور پر عوامی فلاحی منصوبوں کا آغاز کریں تاکہ ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ ترقی وخوشحالی کا پہیہ رواں رہے ، یقیناً وزیراعظم کا عزم اور وژن اس بات کا غماز ہے کہ وہ اپنے ارادوں میں پختہ ہیں اور خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب ظہرانے میں اتحادیوں نے وزیرِاعظم کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیے جب کہ ق لیگ کے ارکان نے شرکت نہ کرکے حکومت سے اپنی ناراضگی کا اظہارکیا ہے۔ اتحادیوں نے ترقیاتی فنڈز اور میگا پروجیکٹ نہ دینے پر تحفظات کا اظہارکیا جب کہ حلقے کے عوام کے مسائل حل نہ ہونے پر احتجاج کیا ہے۔فہمیدہ مرزا نے اندرونِ سندھ کو نظر اندازکرنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اندرونِ سندھ میں وفاقی یا صوبائی حکومتوں نے کوئی میگا پروجیکٹ یا ترقیاتی کام نہیں کیے۔ پیرپگارا نے وزیرِ اعظم عمران خان سے کہا کہ ہم آپ کے اتحادی ہیں لیکن حکومت اس کا ثبوت نہیں دے رہی۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے وفاقی حکومت کی جانب سے وعدوں کی تکمیل نہ ہونے پر وزیرِ اعظم عمران خان سے شکایت کی۔ایم کیو ایم نے بھی وزیراعظم عمران خان سے کراچی سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کر دیاہے جب کہ اتحادی جماعت ق لیگ کے رہنما پرویزالٰہی، طارق بشیر چیمہ سمیت دیگر ارکان اسمبلی نے وزیراعظم کے ظہرانے میں شرکت نہیں کی۔ مسلم لیگ (ق) کے رہنما ،وفاقی وزیرطارق بشیرچیمہ نے وزیر اعظم عمران خان کے ظہرانے میں اتحادی پارٹی کی عدم شرکت کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے ق لیگ کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جاتا اور نہ ہی اس کے تحفظات کا ازالہ کیا جاتا ہے ۔ہمیں پیغام دینے کے لیے آنے والے وزرا بھی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ق کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔

لوکل باڈیز ایکٹ اور اس سے جڑے اقدامات میں بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ تمام باتیں ملکی اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ شایع ہوئی ہیں ، دراصل شکوہ وشکایات بھی اپنوں سے ہی کیے جاتے ہیں ،حکومت کی اتحادی جماعتیں وزیراعظم سے اپنے مسائل کا حل چاہتی ہیں،ان باتوں کوکوئی اور رنگ دینا سمجھ سے بالاتر ہے، اتحادی جماعتیں صرف یہ چاہتی ہیں کہ ان کے حلقوں میں ترقیاقی کاموں جلد شروع کیے جائیں،کراچی والے چاہتے ہیں کہ ان کے لیے جس پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس کے فنڈز ریلیزکردیے جائیں، الغرض تمام اتحادی جماعتیں عوامی مسائل کا حل ترجیحی بنیادوں پر چاہتی ہیں،اس میں ایسا پہلو تلاش کرنا کہ اتحادی جماعتیں حکومت کا ساتھ چھوڑ رہی ہیں کیونکہ وہ ناراض ہیں ، عجب محسوس ہوتا ہے ، ایک کشتی کے سوار ہیں سب، تو یقیناً سب کی خواہش ہے کہ کشتی پار لگ جائے،لہٰذا کشتی ڈوبنے اورکشتی سے کچھ لوگوں کے چھلانگیں لگانے کی قیاس آرائیاں قبل ازوقت ہیں،جب کہ اس موقع پر وزیرِ اعظم عمران خان نے انتہائی تدبر اور فہم وفراست سے سب کی بات سنی ہے اور انھیں یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ اتحادیوں سے کیے گئے تمام وعدوں کو پورا کیا جائے گا، میں نے آپ کے تحفظات سن لیے ہیں، جلد ان پر عمل درآمد ہوتا نظر آئے گا۔

بلاشبہ حکومت چلانا اور ملکی مسائل کو حل کرنا حکومت وقت کی اہم ترین ترجیح ہے، وہ اس کے حل کے لیے کوشاںہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ ہم کارکردگی کی بنیاد پر اگلا الیکشن لڑیں گے، اپوزیشن ملک کو نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہے ، اپوزیشن مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کررہی لیکن ان کو معلوم نہیں کہ میں نہ بلیک میل ہوتا ہوں نہ دباؤ میںآتا ہوں ۔ ساری توجہ صرف عوام کی بہتری پر رکھنی ہے ، ان کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ احتجاج اپوزیشن کا آئینی اور جمہوری حق ہے ، لیکن وزیراعظم عمران خان کے بقول اپوزیشن احتجاجی تحریک کی آڑ میں این آر او کی طالب دکھائی دیتی ہے ، یعنی اپوزیشن رہنماؤں پر چلنے والے کیسز کو واپس لے لیا جائے تو سب اچھا ہوجائے گا۔

کیسزکا فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے ، یقیناً وہ اپنا کام بخوبی سرانجام دے رہی ہیں۔اپوزیشن تحریک کے نتیجے میں ایک تاثر یہ بھی پیدا کیا جارہا ہے کہ حکومت کے چل چلاؤ کا وقت آن پہنچا ہے،نئے الیکشن کی بات ہورہی ہے، حکومت کے لیے سب خدشات اپنی جگہ لیکن یہاں پر سار ا بوجھ ایک مرتبہ پھر حکومت کے کاندھوں پر ہی آتا ہے، کیونکہ جب تک ملک میں مہنگائی کم نہیں ہوگی۔

صنعتی یونٹ اپنی پیداوار نہیں بڑھائیں گے تو بیزورگاری کا آسیب قائم ودائم رہے گا، درحقیقت اپوزیشن کو تند وتیز لہجے میں جواب دینے والے وزراء اور مشیر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ان کا مقابلہ دراصل اپوزیشن سے نہیں ہے ،بلکہ ان مافیازکے خلاف ہے جنھوں نے عوامی مشکلات میں اضافہ کیا ہے اور ان کی مشکلات کی وجہ سے عام آدمی حکومت سے نالاں اور ناراض نظر آرہا ہے، جس تبدیلی کی خواہش پر عوام نے حکومت کو ووٹ دیے تھے۔

کیا وہ پوری ہوسکی ہے یا نہیں ،یہی آج کا سب سے بڑا سوال ہے، اس سوال کا جواب حکومت نے اپنی کارکردگی سے دینا ہے، جو وعدے کیے گئے تھے، جو خواب دکھائے گئے تھے ان کو تعبیر دینی ہے ، وزیراعظم تو نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں اب یہ ان کے رفقاء اور ساتھیوں پر بھاری ذمے داری ہے کہ وہ تندہی اور لگن سے کام کریں، جو خواب دکھائے گئے تھے ،ان ٹوٹنے سے بچانا ہے کیونکہ خواب ٹوٹ کر بکھر جائیں تو امیدیں بھی دم توڑ دیتی ہے لہٰذا پاکستانی عوام کو بے یقینی اور بے امیدی کی کیفیت سے بچانا ہے ، عوام کے مسائل اور مشکلات کے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کریں تاکہ ترقی وخوشحالی کا سفرشروع ہوجائے۔

The post حکومت عوام کی امید قائم رکھے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IbmCxy
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment