سیف خالد پاکستان کی کمیونسٹ تحریک کا ایک اہم کردار ہیں۔ سیف خالد 7 جنوری 1929 کو متحدہ پنجاب کے گاؤں نابھہ ( اب مشرقی پنجاب)میں پیدا ہوئے اور1988میں 60 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ ان کی زندگی کے 40 بیش قیمت سال بائیں بازو کی سیاست کے لیے وقف رہے۔
کمیونسٹ پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور نیشنل پروگریسو پارٹی کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ معروف ادیب احمد سلیم نے سیف خالد کی سوانح عمری تحریر کی جس کا نام ’’جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا‘‘ تجویز ہوا۔ انھوں نے محض سیف خالد کی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر ہی توجہ نہ دی بلکہ کمیونسٹ پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی سے متعلق اہم حقائق اس میں سمو دیے۔
بائیں بازوکے سینئر سیاسی رہنما نواز بٹ اس کتاب کے ابتدائیہ میں ’’سیف ایک دوست ایک قائد‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ مشکل وقت میں لائل پور( اب فیصل آباد) میں کمیونسٹ پارٹی کی شہری تنظیم موجود تھی، جس کی قیادت میاں محمود اور سیف خالدکرتے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک میں اسٹالن ازم کے اثرات کے خلاف مہم جاری تھی۔‘‘ معروف صحافی آئی اے رحمن اپنے مضمون ’’سیف کی یاد میں‘‘ کے عنوان میں لکھتے ہیں کہ سیف کی زندگی کی کہانی پاکستان کے عوام کی سیاسی تاریخ کا ایک بیش قیمت حصہ ہے۔
’’جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا‘‘ کا پہلا باب سیف خالد کی ابتدائی زندگی اور تعلیم سے متعلق ہے۔ سیف خالد نے ابتدائی تعلیم نابھہ میں ہی حاصل کی۔ وہ ابھی اسکول میں ہی تھے کہ جدوجہد آزادی کی تحریک زور پکڑنے لگی۔ سیف اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
ان کی بہن بلقیس کو لکھنے کا شوق تھا۔ دونوں بہن بھائی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے، جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے۔ ان سرگرمیوںکی بناء پر ایک دفعہ اسکول سے نکالے گئے۔ تحریک آزادی کے دوران ان کا رابطہ بائیں بازوکی تنظیموں سے ہوا۔ ان کے تایا جیل سپرنٹنڈنٹ تھے۔ وہاں ان کی ملاقات ایک سکھ انقلابی سے ہوئی جو بائیں بازو سے تعلق رکھتا تھا۔
یہ طویل ملاقاتیں ان کے انقلابی خیالات سے روشناس ہونے کا سبب بنیں۔ احمد سلیم لکھتے ہیں کہ سیف خالد کا لاہور میں قیام ابتدائی دنوں میں موہنی روڈ پر تھا لیکن اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے انھوں نے مال روڈ پر ہی ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا۔ ان سے پہلے یہ کمرہ سبط حسن سمیت بہت سے دیگرکمیونسٹوں کی رہائش گاہ تھی۔ تقریباً بیس سال بعد بھٹو دور میں نیپ اور پی پی پی کے درمیان محاذ آرائی کے دنوں میں نیپ کے کارکنوں پر بم کیس بنایا گیا اور الزام لگایا گیا کہ یہ منصوبہ اس کمرے میں بنایا گیا تھا۔
اس مقدمہ میں سیف خالد کو شاہی قلعہ لاہور میں قید رکھا گیا۔ مصنف نے 50 کی دہائی کے سیاسی حالات کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان حالات میں جس سیاسی جماعت نے سیف خالدکو اپنی طرف کھینچا، وہ کمیونسٹ پارٹی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کئی عوامی محاذوںپرکام شروع کر چکی تھی۔ آزادی کے بعد کمیونسٹ پارٹی کی دوسری کانگریس 28 فروری سے 6 مارچ 1949 کو کلکتہ میں منعقد ہوئی جس نے آزادی کو بورژوا آزادی قرار دیا اور عوامی جمہوری انقلاب کو فوری مقصد قرار دیا۔ 8 مارچ کو مشرقی اور مغربی پاکستان سے آنے والے مندوبین کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔
یہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی پہلی کانگریس تھی جس نے پارٹی کے نئے سیاسی تھیسز اور دستور تیار کیا۔ سجاد ظہیر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے پہلے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ پنجاب سی آئی ڈی نے 1952میں اپنی خفیہ رپورٹ میں بتایا کہ سیف خالد ان تمام محاذوں پرکام کر رہے تھے۔ اس رپورٹ کے مطابق 1949میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔
اپریل 1950میں فیڈریشن نے لاہور میں ایک زبردست کانفرنس منعقد کی۔ احمد سلیم نے اس باب میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے قیام کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اب 1947سے 1951 کے حوالے سے سی آئی ڈی کی ایک تفصیلی دستاویزکے علاوہ خفیہ اداروں کا مواد بھی ناپید یا غائب کردیا گیا ہے۔
جنوری 1948 میں پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔ مجلس کے 116 ارکان میں سے مرزا ابراہیم اور فیض احمدفیضؔ وغیرہ نمایاں تھے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کمیونسٹ پارٹی کا ادبی محاذ تھی۔ محنت کشوں کے محاذ میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ سیف خالد انجمن کی لائلپوری شاخ کی ادبی سرگرمیوں میں بھی فعال تھے۔ پنجاب کسان کمیٹی کی سرگرمیوں میں شامل رہتے تھے۔
انھوں نے 1951 میں گورنمنٹ کالج لائلپور میں داخلہ لیا جہاں وہ ڈی ایس ایف کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ جلد ہی سیف اس کے مقامی رہنما بن گئے۔ ان ہی دنوں میں وہ اپنے گھر میں اسٹڈی سرکل کا بھی اہتمام کرنے لگے۔ وہ لاہور سے سی آر اسلم، شوکت علی، چوہدری اصغر خادم اور حسن عابدی وغیرہ کو لیکچر کے لیے مدعو کرتے تھے۔ ان کے دوست میاں اکرم کے الفاظ میں سیف خالد اجلاس میں شریک طلبہ کی خوب خاطر مدارت کرتے تھے۔ شام کو وہ جھنگ بازار میں کمیونسٹ پارٹی کے دفتر کا رخ کرتے، محنت کش اپنے مسائل بیان کرتے جن کو سیف خالد ٹائپ کر کے متعلقہ محکموں اور ملز انتظامیہ کو بھیجتے۔
کتاب کا دوسرا باب عملی سیاسی زندگی 1950-58 سے متعلق ہے۔ سیف خالد پہلے پہل طلبہ سیاست کی طرف مائل ہوئے، جب وہ محض 20 سال کے نوجوان تھے وہ مزدوروں، کسانوں اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں شریک ہونے لگے۔ لاہور میں پاکستان سوویت کلچر ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ مصنف نے اس باب میں کمیونسٹ رہنما حسن ناصرکا ایک خط شامل کیا ہے۔
1954 میں حسن ناصرکراچی جیل میں قید و بند کی صعوبتوں سے نبرد آزما تھے۔ حکومت نے ان کو کمیونسٹ پارٹی سے لاتعلقی کی صورت میں رہائی کی مشروط پیشکش کی جسے انھوں نے ٹھکرا دیا۔ حسن ناصر نے طویل خط میں لکھا کہ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی پاکستان کی وفادار ہے۔
جولائی 1954 میں حکومت نے کمیونسٹ پارٹی اور اس کے تمام عوامی محاذ کو غیر قانونی قرار دے کر ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی۔ سیف خالد نے 1955 میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لیا۔ اپنے والد کے ساتھ ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ 1955میں مغربی پاکستان کے چار صوبوں اور ریاستوں کے آزادانہ وجود کو ختم کر کے انھیں ایک واحد صوبہ میں ضم کر دیا گیا۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی کے قیام میں پیش پیش رہتے تھے۔
احمد سلیم نے نیشنل عوامی پارٹی کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں لکھا ہے کہ جمہوری کنونشن میں مشرقی پاکستان سے سابق عوامی لیگی کارکن مولانا بھاشانی کی قیادت میں گن تنزی دل کے نمایندہ محمود علی ، مغربی پاکستان سے عوامی لیگ کے لیڈر محمود علی عثمانی، سابق سیکریٹری جنرل عوامی لیگ ارباب عبدالغفور خان اور محمد افضل بنگش وغیرہ شریک تھے جب کہ پاکستان نیشنل پارٹی کے میاں افتخار الدین، خان عبدالغفارخان، جی ایم سید، عبدالصمد اچکزئی اور عبدالحمید سندھی وغیرہ شریک تھے۔
25جولائی کی رات کو ایک اخبار نویس نے خبر دی کہ کل صبح کنونشن کے افتتاحی اجلاس میں ’’گول مال‘‘ ہو گا۔ ڈھاکا کنونشن اگر ایک طرف جمہوریت پسندوں کو ایک ملک گیر پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب ہوا تو دوسری طرف اس کا یہ کارنامہ بھی یادگار رہے گا کہ اس کی بدولت ہماری ملکی سیاست جو چند صاحب ثروت افراد کی محلاتی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے گرد گھومتی تھی، اب کھلی ہوا میں ملک کے عام باشندوں کے روبرو آنے پر مجبور ہو گئی۔ مصنف نے اس باب میں نیپ کے منشور کا جائزہ لیا ہے۔ سیف خالد وکالت کا امتحان پاس کر کے لائلپور میں پریکٹس کرنے لگے تھے۔
1956کے آئین کے تحت مارچ 1958میں انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں نیپ کے پارلیمانی لیڈر جی ایم سید نے ون یونٹ کے خاتمہ کی قرارداد پیش کی۔ 300 ارکان کے ایوان میں 296 ارکان کی بھاری اکثریت نے قرارداد منظورکی۔ اس صورت حال نے سول اور ملٹری بیوروکریسی کو چوکنا کر دیا۔ تو پھر صدر اسکندر مرزا نے ایوب خان کے ساتھ مل کر 7 اکتوبر 1958 کو مارشل لاء نافذ کیا۔ سیف خالد کا خیال تھا کہ نیپ کو برسر اقتدار آنے سے روکنے کے لیے مارشل لاء نافذ کیا گیا۔
(جاری ہے)
The post جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا (حصہ اول) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JagXs5
0 comments:
Post a Comment