گلگت بلتستان جو پہلے شمالی علاقہ جات کہلاتا تھا،یہاں ماضی میں مختلف مذاہب، تہذیبیں اور حکومتیں رہی ہیں جن میں قریب ترین حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کی رہی اور تقسیم ہند کے بعد ڈوگرا راج کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ ڈوگرا راج کے خاتمے کے بعد 47 میں تقسیم ہند نے کشمیری ریاست کی تقسیم کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔
اس ریاست کو جغرافیائی اور مذہبی حدود سے پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا، مگر ڈوگرا حکمرانوں نے اصول پرستی کا ساتھ نہ دیا۔ بہرصورت کشمیر کی پہلی جنگ نے آزاد کشمیر کے حصے کو نئی سانس سے ہمکنار کیا جس کی وجہ سے گلگت بلتستان زمینی اعتبار سے عملاً پاکستان کا حصہ بن گیا۔ موجودہ حکومت نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنا کر ایک بڑا سیاسی قدم اٹھایا ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔
گلگت بلتستان جس کو اب جی بی بھی کہا جاتا ہے، ماضی میں یہاں بدھ مت کے پیروکار رہا کرتے تھے۔ پندرہویں صدی عیسوی میں ایک ایرانی نژاد عالم محمد نور بخش جو صوفی منش بزرگ بھی تھے اور جن کا تعلق ایران سے تھا، انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس پورے ہمالیائی ریجن میں جس میں کشمیر کا کچھ علاقہ اور لداخ میں دین اسلام کا چراغ روشن کیا۔ اس وقت پاکستان کے اس علاقے میں انھی کے مکتب فکر کے اور لداخ میں بھی نور بخشی شیعہ مسلم موجود ہیں۔ جن کا کچھ حصہ کشمیر سے بھی متعلق ہے۔ البتہ اسکردو میں اسمٰعیلی فرقے کے لوگ بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔
تہذیب کے انسانی قافلے سے صدیوں سے بچھڑے ہوئے یہ لوگ پاکستان کی سرزمین سے الیکشن کے بعد آکر جڑ گئے۔ اب یہ سب لوگ ہمارے ہی جسم کا حصہ ہیں جس کا سہرا موجودہ حکومت کے ہی سر باندھا جانا چاہیے۔ جی بی کا یہ صوبہ جس انداز میں پاکستان سے جڑا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہماری ٹرین عالمی اسٹیشن پہ کھڑی تھی اور جی بی کا ڈبہ ہم سے الگ ہو گیا تھا اور جس انداز میں یہ ہم سے ملا ہے کہ بھارت اس پر چوں بھی نہ کر سکا۔ اس طرح عالمی پیمانے پر جس انداز میں جی بی ہم سے آکر جڑا ہے، اس کی جتنی بھی سیاسی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
آئیے اب ہم حال کے دنوں کی طرف متوجہ ہوں۔ گلگت بلتستان کی آوازیں تو ہم سن 65 سے ملکہ بلتستانی کی آواز میں سن رہے تھے۔ آج یہ ہمارا صوبہ ہے جس کے لیے ایک بلتستانی خاتون سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے سیاست کے ایوانوں میں موجود نہیں۔ لیکن بلتستان کی تاریخ میں ملکہ بلتستانی کو بھلایا نہ جائے گا۔ آج جی بی ایک آزاد ملک کا حصہ ہے جس کے ایوان سے چوبیس آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ البتہ ان کے قائد کا انتخاب ابھی تک نہیں ہو سکا ہے جو جلد ہو جائے گا۔
انتخابات پرامن طریقے سے منعقد ہوئے۔ ویسے چھوٹی موٹی اونچ نیچ تو امریکا جیسے ملک میں بھی ہوتی رہتی ہے۔ اب کہنا یہ ہے کہ اس انتخاب سے جو راہیں ابھر کے آئی ہیں ان پر کچھ دیر چلنا ضرور ہے تاکہ صورتحال سامنے آسکے کہ یہ صدیوں پرانا قافلہ جو سفر میں بچھڑ گیا تھا، اب اس کی راہ اور منزل کس رخ پر اور کس طرح جادہ پیما ہے۔ سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نو ارکان اسمبلی آزاد نمایندگان ہیں جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ابھی سیاسی پارٹیوں کے قدم جی بی میں پوری طرح نہیں جمے۔ ایک اہم بات یہ ملتی ہے کہ اس اسمبلی میں کوئی وڈیرہ نہیں، کوئی پیر نہیں۔ یہ عام لوگوں کی اسمبلی ہے جس میں عام نمایندے ہیں۔
اگر پورے پاکستان میں ایسے عام نمایندے ہوتے تو انھیں عام غریب لوگوں کا کس قدر احساس ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں کسی بھی پارٹی کے لوگ ہوں، سب کے سب عام آدمی ہیں۔ یعنی ساری پارٹیوں کے ارکان عوامی ہیں۔ ان کے مابین تصادم اگر ہوگا بھی تو وہ تکرار ہوگی، غربت اور امارت کے درمیان۔
لیکن جو اسمبلی معرض وجود میں آنے والی ہے، اس کو فیصلے بھی عوامی کرنا ہوں گے۔ یہ بہترین موقعہ ہے جہاں صفر سے گنتی شروع ہو رہی ہے تو یہاں ریاست مدینہ کی پہلی اینٹ رکھی جا سکتی ہے اور یہی امتحان ہے پی ٹی آئی اور جی بی کے مابین خلیج کو پُر کرنے کا۔ لیکن ہمیں یقین ہے جی بی کے ارکان خواہ وہ کسی پارٹی کے کیوں نہ ہوں اپنے ماضی کی روش کو نہ چھوڑیں گے اور ایک مثالی صوبے کی طرح جس کی سرحدیں ایک مثالی ملک سے ملتی ہیں اس کی روش کو اپنائیں گے۔
اسی صوبے کی سرحدیں سنکیانگ سے ملتی ہیں جہاں کوئی کرپشن نہیں اور پی ٹی آئی کو یہ نادر موقعہ قدرت نے دیا ہے کہ وہ اس صوبے کو مثالی صوبہ بنا کر اپنے خلاف چلنے والی تحریک کو مسدود کر دیں۔ کیونکہ جی بی میں کسی بھی پارٹی نے کوئی کام نہیں کیا تھا۔ اور عمران خان کا امیج اب تک برائی میں آلودہ نہیں ہوا ہے۔ اور پرانی پارٹیاں ایک کھلی جگہ پر کھلے آسمان کے نیچے اپنا جلوہ دکھانے سے قاصر رہی ہیں ، یہاں پہلی مرتبہ ہر پارٹی نے اپنی پرفارمنس کا اعلان اپنی کارکردگی کی بنیاد پر پیش کیا تھا۔ تو یہ اعلان نامہ پی ٹی آئی کے حق میں آیا۔
گو پی ٹی آئی کی کارکردگی اور ان کے ارکان پر بھی بہتان لگتے رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ پارلیمانی طرز انتخاب نہ ہوتا اور اس کی جگہ یہ صدارتی انتخاب ہوتا تو عمران خان کی پرفارمنس اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوتی۔ لہٰذا اس موقع پر انتخاب کا اثر ایسا پڑنے کو ہے جس سے پی ٹی آئی کے خلاف چلنے والی تحریک کا انجام ڈانواڈول ہوتا نظر آتا ہے۔ اور اب چلنے والی تحریک اور مزید جلسے اپنا کوئی اثر نہیں چھوڑیں گے البتہ پی ٹی آئی اور خصوصاً عمران خان کے لیے یہ کڑا وقت ہے۔ کیونکہ انھوں نے اس نئے بچے جی بی کو گود لیا ہے لہٰذا ان کی ذمے داریوں میں اضافہ بھی یقینی ہے۔
جس صوبے کا نام جی بی ہے وہاں نہ کوئی تعلیمی بورڈ ہے اور نہ ہی کوئی یونیورسٹی، وہاں کے طالب علم عام طور پر کراچی آکر تعلیم اور ملازمتیں حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا کسی صوبے کے جو حقوق ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو اسے جلد پورے کرنے ہوں گے۔ جہاں تک سندھ کا حال ہے یہاں بھی دیہی اور شہری کی پرخاش چل رہی ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں بلتستان کا ساکن کس رخ پر اپنی نگاہیں جمائے گا۔
ان حالات میں پیپلز پارٹی کو کیا فیصلے کرنا ہوں گے جب کہ پی ٹی آئی کو زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جی بی میں وڈیرے جیت کر نہیں آئے بلکہ متوسط طبقے کے فرد ہیں، وہ اپنا کوئی گروپ بناتے ہیں یا پی ٹی آئی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ساکنان جی بی سیاسی طور پر بڑے باشعور نظر آتے ہیں اور خاص طور پر آزاد امیدوار جو یہ سوچ رہے تھے کہ دیکھیں اس صوبے میں پہلی بار انتخاب ہوتا ہے تو نتائج کیا آتے ہیں۔ امید تو یہ ہے کہ آزاد امیدوار عمران خان کی پارٹی کا رخ کریں گے ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی ذمے داریوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا کیونکہ ان نئے سیاسی کارکنوں نے سیاست میں پہلا قدم ملک کی بہتری کے لیے رکھا ہے۔
یہ کارکنان زر و جواہر کی سیاست سے ابھی ناواقف ہیں۔ لہٰذا امید تو یہ ہے کہ جی بی وڈیروں کی جیب میں جانے والا صوبہ نہ ہو گا بلکہ جدوجہد کر کے اس کو تعلیم میں یکتا اور انڈسٹری میں نمایاں مقام جلد حاصل ہو گا۔ اس کی راہ اور صوبوں کے مقابلے میں جدید ہو گی اور ممکن ہے کہ معدنیات میں یہ ایک نمایاں مقام حاصل کرا لے۔ ویسے انتخاب میں تو اس صوبے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ فرقہ پرستی اس کی منزل نہیں اور صوبے کے نتائج چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے صوبے کے تمام انسانوں کو یکساں قرار دیتے ہیں۔ اور یہی ترقی کے امکانات میں سے ایک امکان ہے۔
The post گلگت بلتستان…ترقی کے نئے امکانات appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HklY0j
0 comments:
Post a Comment