Ads

خواتین چہل قدمی کو معمول بنائیں اور بلڈ پریشر سے نجات پائیں

 نیویارک: ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو خواتین روزانہ نصف گھنٹے پیدل چلتی ہیں وہ زائد بلڈ پریشر کے طویل عارضے کا شکار ہونے سے بچ جاتی ہیں۔ لیکن ماہرین کا اصرار ہے کہ واک باقاعدگی سے کی جائے۔  

کئی ممالک میں درمیانی اور عمررسیدہ خواتین کے لیے جسمانی مشقت کا معیار اتنا رکھا گیا ہے کہ وہ 30 منٹ میں ایک میل کا سفر طے کرسکیں۔ اگر چلنے کی رفتار اس سے زائد ہو تو مزید بہتر ہوگا۔ یہ تحقیق ہائپرٹینشن نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔

اس مطالعے میں درمیانی عمر اور بزرگ خواتین کو شامل کیا گیا ہے جن کی عمریں 50 سے 79 برس تک ہیں۔ کل 80 ہزار خواتین کو شامل کیا گیا جو سُن یاس ( مینوپاز) سے گزرچکی ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فالتو بیٹھے رہنے سے خواتین میں امراضِ قلب کے سنگین مسائل کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

نو گھنٹے سے زائد وقت نہ بیٹھیں

خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل بیٹھنے سے اجتناب کریں کیونکہ دن میں 9 گھنٹے سے زائد بیٹھنے سے دل کے امراض بالخصوص ہارٹ فیلیئر کا خطرہ 42 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس روش کو ختم کرنے کے لیےماہرین کا اصرار ہے کہ روزانہ باقاعدگی سے تیز قدموں سے چلا جائے۔

اس ضمن میں یونیورسٹی آف بفیلو کے ماہر پروفیسر مائیکل لے مونٹے نے دو مقالے پیش کئے ہیں جن کا خلاصہ ہے کہ ’تندرست دل کے لیے دیر تک بیٹھنے سے اجتناب کیا جائے۔‘ اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ روزانہ نصف گھنٹے یا ہفتے میں 150 منٹ کی تیزقدموں سے واک عمررسیدہ خواتین میں بلند بلڈ پریشر کا خطرہ کم کرتی ہے۔

50 سے 70 برس کی 80 ہزار خواتین کو 11 برس تک زیرِ مطالعہ رکھا گیا۔ ان میں جن خواتین نے چہل قدمی اور تیز قدمی کو باقاعدہ طور پر اپنایا ان میں 11 سے 21 فیصد خواتین کا بلڈ پریشر معمول پر رہا۔ لیکن جن خواتین کی رفتار دو میل فی گھنٹہ سے بھی کم تھی ان میں زائد فشارِ خون کا خدشہ بھی 5 سے 8 فیصد کم دیکھا گیا ۔ یعنی تیز چلیں یا آہستہ چلنے کا عمل ہرطرح سے مفید ہوتا ہے۔

The post خواتین چہل قدمی کو معمول بنائیں اور بلڈ پریشر سے نجات پائیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36n2BgM
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment