Ads

کورونا، مہنگائی اور دیگر سوالات

دنیا میں کورونا وائرس کی دوسری بعض کے نزدیک تیسری لہر بے قابو ہوگئی ہے، جن ممالک نے گزرے دنوں میں اپنی ضرورتوں کے مطابق وبا سے نمٹنے کے امید افزا تجربات کیے، صحت کے انفرااسٹرکچر میں تبدیلیاں کیں، لاک ڈاؤن، ماسک اور سماجی فاصلہ کی پابندیوں پر سخت اقدامات کیے، خود کو ہلاکتوں اور کورونا کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھا مگر آج وہ ممالک بھی حالیہ لہر کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔

پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو گزشتہ لہر میں جزوی طور پر سرخرو ہوا تھا اور اس کی عالمی اداروں نے تعریف بھی کی تھی تاہم اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ چشم کشا بتائی جاتی ہے۔

حکومت نے خبردار کیا ہے کہ ماسک پہننے، سماجی فاصلہ قائم رکھنے اور بھیڑ سے گریز کی ہدایات پر عمل نہ کرنے سے ماضی کی کامیابیاں بیکار جاسکتی ہیں اور ہم دوبارہ شدید مشکلات میں مبتلا ہوسکتے ہیں، میڈیا کے مطابق دنیا میں کورونا متاثرین5 کروڑ2  لاکھ 5 ہزار 532جب کہ اموات 12لاکھ 56 ہزار 148 ہوگئی ہیں۔ امریکا میں مریض ایک کروڑ ایک لاکھ82 ہزار977 اور اموات 2 لاکھ 43 ہزار257 ہوچکی ہیں۔

بھارت 85 لاکھ7 ہزار754 اور برازیل 56 لاکھ53  ہزار561 مریضوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ بھارت میں ایک دن میں45 ہزار674 نئے مریض سامنے آئے جب کہ 559 ہلاکتوں سے مجموعی تعداد 126121 ہوگئی۔ دوسری طرف پرتگال کے وزیر اعظم انتونیو کوسٹا نے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ملک میں دو ہفتوں کے لیے کرفیو لگا دیا۔ دریں اثناء دوا ساز کمپنی آسترا زینیکا نے اعلان کیا ہے برطانوی آکسفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ مشترکہ کوششوں سے ویکسین اگلے ماہ تک تیار ہوسکتی ہے۔

دریں اثنا ملک بھر میں کورونا سے مزید 25 ہلاکتوں کے بعد مجموعی تعداد 6 ہزار 968 جب کہ فعال کیس 17ہزار 804 ہو گئے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ایک ہزار 436 نئے کیس رپورٹ ہوئے، جس کے بعد مجموعی مریض3 لاکھ 43 ہزار 189 تاہم 3 لاکھ 18 ہزار 417 صحت یاب ہو چکے ہیں۔

سندھ میں ایک لاکھ 49 ہزار 542، پنجاب ایک لاکھ 6 ہزار577، خیبرپختونخوا 40 ہزار 379، اسلام آباد 21 ہزار 557، بلوچستان 16 ہزار 550، آزاد کشمیر 4 ہزار 703 اور گلگت بلتستان میں 4ہزار 358 مریض ہوچکے ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ملک بھر میں شادی کی تقریبات میں دلہا، دلہن اور اہلخانہ پر روایتی طریقے سے مبارکبادیں لینے پر پابندی لگا دی۔ نئے ضابطہ کار کے مطابق تقریب بند کمرے یا ہال کے بجائے کھلی فضا میں ہوگی، جگہ کا انتخاب لوکل ہیلتھ اتھارٹی کی مشاورت سے ہو گا۔ تقریب میں قالین یا غالیچوں کا استعمال نہیں ہوگا۔

زیادہ سے زیادہ ہزار مہمان شرکت کر سکیں گے اور ان کے مابین 6 فٹ فاصلہ ہوگا۔ مہمانوں کی یومیہ اسکریننگ کرنا ہو گی۔ تقریب میں کاغذ والا تولیہ اور جراثیم کش ادویات کا استعمال ہو گا۔ تقریب سے قبل کیمرہ، موبائل فون، گاڑیاں اور دیگر استعمال کی تمام چیزیں ڈس انفیکٹ کرانا ہوں گی۔ تقریب میں ہاتھ دھونے کے لیے صابن اور سینیٹائزر کا انتظام لازمی ہوگا۔ ہر فرد کا درجہ حرارت کا معائنہ لازمی ہوگا۔ میزبان ایس او پیز پر عملدرآمد کا ذمے دار ہوگا اور ہر مہمان کو ماسک اور سینیٹائزر فراہم کرے گا۔ بوفے کی اجازت نہیں ہو گی، لنچ باکس اور ٹیبل سروس فراہم کی جاسکتی ہے۔

ولیمے میں فوڈ باکس کا استعمال کریں۔ تقریب کا دورانیہ 2 گھنٹے ہوگا اور رات 10بجے تک تقریب ختم کرنا ہو گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے شہری کورونا کی دوسری لہر کے باوجود احتیاط نہیں کر رہے، صحت اور زندگی کے لیے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ کورونا اور شرح اموات بڑھ رہی ہیں، ایس او پیز کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آرہی ہیں، احتیاطی تدابیر پر عمل نہ ہوا تو مزید سخت فیصلے کرنا پڑیں گے، عوام سے اپیل ہے ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔

دریں اثناء پنجاب میں ڈینگی نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ24 گھنٹوں میں 553  مشتبہ مریض رپورٹ جب کہ 6کی تصدیق ہوئی، ان میں سے5 لاہور اور1 اسلام آباد میں رپورٹ ہوا۔ترجمان پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے مطابق جنوری سے اب تک179مریض رپورٹ ہو چکے ہیں، اس وقت7 زیر علاج جب کہ172صحت یاب ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے میں 3,159 مقامات سے ڈینگی لاروا برآمد ہوا۔

ان انکشافات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کورونا کے ساتھ ساتھ روایتی پولیو، ڈینگی اور دیگر امراض کا تسلسل بھی عوام کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے، ہم پولیو کو بھی شکست نہ دے سکے، ایسا کیوں ہے، جہاں اس کی اور بھی وجوہات ہیں وہاں مون سون بارشوں کے بعد حفظان صحت کے لیے ہنگامی اقدامات مثلاً مچھر مار سپرے تک نہیں ہوئے، غلاظتوں کے انبار لگے ہیں، برساتی نالے گنجان شہری آبادیوں کے درمیان کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں، جگہ جگہ آلودگی کے نظارے ہیں، گندا پانی کھڑا ہے، کچرا موجود ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کورونا سے نمٹنے کی اپنی سابقہ حکمت عملی کہ موثر تشہیر اور اس پر عملدرآمد کے ایجنڈے کو کامیاب بنائے، وبا کی دوسری لہر کے بے قابو ہونے کا اندیشہ عوام کے مصائب میں اضافہ کا سبب نہ ہو، بیوروکریسی اور ہیلتھ حکام عوام کو جرمانوں سے ہلکان نہ کریں، غربت اور بیروزگاری کے مصائب کا ادراک کریں، موبلائزیشن میں شعور بیدار کرنے پر زیادہ توجہ دیں اور بار بار ہاتھ دھونے، ماسک پہننے اور بھیڑ سے گریز کرنے کی ہدایات صائب سہی مگر عوام کا نفسیاتی اور ذہنی ومالیاتی محاصرہ کم سے کم ہو، عوام بھی تدبر و ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔

دوسری جانب کورونا کی پابندیوں کا موازنہ مہنگائی اور بیروزگاری سے کیے بغیر بات نہیں بنتی، ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ افراط زر نے عوام کا ناطقہ بند کردیا ہے، ایک خاموش مافیا نے مارکیٹ  کو یرغمال بنا لیا ہے، حکومتی ناتدبیریوں، سیاسی محاذ آرائی، بیان بازی اور ٹکراؤ نے معاشی اہداف کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے، بچت بازار بند ہو رہے ہیں، یوٹیلیٹی اسٹورز سے عوام ناخوش ہیں، صارفین اشیائے ضروریہ کے سستے داموں حصول میں ناکام ومایوس پلٹتے ہیں، عوام کی بھڑاس اور فرسٹریشن کا ازالہ ایک جامع معاشی روڈ میپ سے ہی ممکن ہے، وزارت خوراک کو غذائی پیداوار میں اضافہ کرنا چاہیے۔

زرعی شعبے پر مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے، اقتصادی ماہرین معاشی اصلاحات پر زور دے رہے ہیں،  وہ معاشی مسیحاؤں، وزرا کے بیانات اور ٹاک شوز کو مسائل کا حل نہیں سمجھتے، ایک نتیجہ خیز معاشی پالیسی اور جمہوری ثمرات کی فوری فراہمی کو ناگزیر قرار دیتے ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ حکومت اور صارفین کے مابین ایک پیدا کردہ ’’ڈس کنکٹ ‘‘ ہے، مہنگائی سے بیزار عوام کی فریاد سننے والا شاید کوئی نہیں جب کہ متوسط طبقہ کا مہنگائی کے حوالہ سے ایک واضح بیانیہ ہے۔

ان کی قوت خرید جواب دے گئی ہے، غریب خاندان اس الجھن کا شکار ہیں کہ بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کریں یا ماسک، سینیٹائزر یا ہاتھ دھونے کا صابن خریدیں، حکمران اس عمل میں کسی ریلیف کی فراہمی کو ممکن نہیں بنا سکے۔

حکومتی طاقت بے بس جب کہ مافیائی قوتوں کی کارٹیلائزیشن کا سدباب  ایک سوالیہ نشان ؟ بلاشبہ غربت کچھ بتا کے نہیں آتی، حکام کو اسی مجبور سسٹم کے اندر سے ریلیف اور ازالے کے امکانات تلاش کرنا ہونگے، خدانخواستہ کولیٹرل ڈیمیج رونما ہوسکتا ہے، بھوکے عوام کو کورونا کے آداب سکھانے سے آگے بھی کچھ مہر و مروت کی جمہوری منازل ہیں، ایک بڑا سوال عبوری ریلیف کا ہے، ہم بدقسمتی سے منظم اور مربوط سماجی بہبود کا نظام اور میکنزم نہیں لاسکے، میڈیا کے ذریعے ماہرین اقتصادیات یاد دلاتے رہتے ہیں کہ افراط زر گزشتہ 15 ماہ سے صارفین کے اعصاب جھنجھوڑ رہا ہے۔

کم آمدن والے خاندان زیر بار ہیں، انھوں نے اپنی خواہشات کم کر دی ہیں، صبح دوپہر اور رات کا کھانا تیار کرنے والے گھرانے اب دو وقت کے کھانے  کے قابل نہیں رہے، کوئی مہمان آجائے تو پورا گھر ادھار لینے پر مجبور ہوجاتا ہے، غربت اور گداگری کے درمیان لکیر مٹتی جا رہی ہے۔

سفید پوش طبقے کے لیے دست سوال دراز کرنا مشکل جب کہ سماج میں دو نمبری گروہ اور پیشہ ور بھکاریوں نے مستحق افراد کا حق مارنے کا آرٹ بھی سیکھ لیا ہے۔ ماضی میں گداگری کا بھی ایک اسلوب، عاجزانہ کلچر اور روایات تھیں، کوئی فقیر کچھ نہ ملنے پر صبر اور اگر بھیک ملتی تو خدا کا شکر ادا کرتا۔ لیکن مہنگائی، بیروزگاری اور غربت نے صبر وشکر کے پیمانہ ہی بدل ڈالے، جرائم بڑھ گئے، بہیمانہ وارداتیں دل کو صدمات سے دوچار کرتی ہیں، ایک نامنصفانہ معاشی نظام نے ملک میں بے مروتی کو عام کردیا ہے۔

المختصر، کورونا اور مہنگائی کا تسلسل اچھی حکمرانی کے لیے ایک چیلنج ہے، وقت گزرتا جا رہا ہے لیکن ارباب اختیار کی ناتدبیری، معاشی بریک تھرو کرنے کی عدم صلاحیت پر سوال اٹھ رہے ہیں، معیشت کی بہتری کے دعوے بلاشبہ صائب ہونگے مگر عوام ملکی معاشی نظام کے مانیٹری، اسٹرکچرل اور ادارہ جاتی پالیسی فیکٹرز کے پہلو سے کہاں تک سرکتے جائیں ان کے لیے تو زندگی خود ایک سوال بن گئی ہے۔

خدا کرے مہنگائی اور کورونا کی تیز ہوا میں یقینی معاشی ریلیف لالی پاپ نہ ثابت ہو۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان عوام کے معاشی مسائل کے حل پر خصوصی توجہ دیں، آسودگی کے انتظار میں عوام کی حالت بقول میر یہ ہوگئی ہے کہ

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

لوہو (لہو) آتا ہے جب نہیں آتا

The post کورونا، مہنگائی اور دیگر سوالات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/38wNx1F
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment