Ads

نو منتخب امریکی صدر کا پہلا خطاب

آج پوری دنیا امریکا کو دیکھ رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جب ہم اپنے بہترین کردار کو پیش کرتے ہیں تو پوری دنیا کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں، ان خیالات کا اظہار امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن نے امریکیوں سے اپنے پہلے خطاب میں کیا ہے۔ دنیا کے طاقتور ترین ملک کے صدارتی انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی تھیں ،کیونکہ آنیوالا عالمی سیاسی منظرنامہ اوراس میں تبدیلیوں کا انحصار امریکی صدر کی پالیسیوں سے جڑا ہوتا ہے ۔امریکا دنیا کی اکیلی سپرپاور ہونے کی وجہ سے عالمی بساط بچھانے اور اس پر اپنی پسند کے مہرے متحرک کرنے اور چالیں چلنے کے سارے ہنر بھی جانتا ہے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکی صدر کو بلاشبہ دنیا کا طاقتور ترین انسان بھی قرار دیا جاتا ہے۔دنیا اس وقت مسائل کی دلدل میں اترچکی ہے، سب سے اہم ترین مسئلہ قیام امن ہے، متعدد ممالک کے درمیان جاری جنگوں کا خاتمہ ہے، لامحالہ کسی نہ کسی طور پران میں امریکا کہیں درپردہ یا پھر واضح طور پر شریک ہے،انسانیت سسک رہی ہے، پہلے امن قائم ہوگا تو پھر دیگر مسائل حل ہونگے۔

یہ تو آنیوالا وقت بتائے گا کہ امریکی پالیسیاں دنیا میں امن کی بحالی کے لیے کیا کردار ادا کرتی ہیں۔تنازعات حل ہوتے ہیں تو یقیناً امن کی بحالی کی طرف یہ پہلا قدم ہوگا۔بھارتی میڈیا کے مطابق جوبائیڈن کے صدر منتخب ہونے سے پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات بہتر ہوں گے۔پاکستان امریکا کا اتحادی اور دوست ملک ہے، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان نے فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار کیا ہے۔

اس ضمن میں سترہزارسے زائد سویلین اور فوجیوںنے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے،لیکن سابق صدر ٹرمپ کی پالیسیوں نے دونوں ممالک کے درمیان دوریاں پیدا کرنے میں اہم کردار کیا تھا ، پاکستان کی تمام ترقربانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے امریکا کا بھارت کی طرف جھکاؤ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی فاصلوں کا سبب بنا تھا، آیا دیکھنا یہ ہے کہ نومنتخب امریکی صدرجو بائیڈن پاکستان کا بحیثیت دوست کیسے ساتھ نبھاتے ہیں ۔

اپنے خطاب میں جوبائیڈن نے ایک ایسا لیڈر بننے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو عالمی وبا، معاشی اور معاشرتی انتشار کی لپیٹ میں آئی ہوئی قوم کو تقسیم نہیں بلکہ متحد کرنا چاہتا ہے۔ اس خطاب کے دوران ان کے ہمراہ کمالہ ہیرس بھی موجود تھیں جو امریکا کی پہلی خاتون اور سیاہ فام نائب صدر منتخب ہوئی ہیں۔

جو بائیڈن نے اس موقعے پر مزید کہا کہ وہ بہت شکر گزار ہیں کہ ان پر بھروسہ اور اعتماد کیا گیا جس کی مدد سے وہ امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ میں7 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے سب سے زیادہ ووٹ لینے والے صدر بن گئے ۔انھوں نے کہا کہ میں نے اس عہدے کے لیے اس لیے مقابلہ کیا تاکہ میں امریکا کی روح کو دوبارہ بحال کر سکوں، تاکہ اس ملک کو دوبارہ تعمیر کر سکوں، اس کے متوسط طبقے اور پورے امریکا کے وقار کو دنیا بھر میں بحال کر سکوں، اور اپنے ملک میں ہم سب کو یکجا کر سکوں۔ جوبائیڈن کے خیالات سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں ہمیں یہ مدد ملی ہے کہ وہ امریکا کا تشخص بحال کرنا چاہتے ہیں ، دنیا بھر کے ملکوں میں مداخلت سے جس ردعمل نے جنم لیا ہے وہ بھی انتہائی خطرناک ہے۔ نومنتخب امریکی صدرکے خیالات صائب ہیں ، وہ دنیا کے نظام میں ایک مثبت تبدیلی لاناچاہتے ہیں۔

ان کی جیت سے امید کے دیے یقینا روشن ہوئے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ سابق صدر ٹرمپ کی نسبت جو بائیڈن پاکستان کو بخوبی جانتے ہیں اور پاکستان کے کئی دورے کر چکے ہیں۔ گزشتہ تین عشروں کے دوران ان کے پاکستانی اعلیٰ حکام کے ساتھ براہ راست رابطے رہے ہیں۔ 2008میں انھوں نے ریپبلکن قیادت کے ساتھ مل کر پاکستان کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کا غیرعسکری امدادی پیکیج تیار کیا جس کا نام’’بائیڈن لوگر بل‘‘ تھا۔

تاہم ان کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعد اس بل کا نام وزیر خارجہ جان کیری سے منسوب ہوا اور 2009میں صدر اوباما نے کیری لوگر بل کی منظوری دی۔2008میں پاکستان نے جو بائیڈن کو دوسرے بڑے سویلین اعزاز ہلال پاکستان سے نوازا تھا۔ لوگر کو بھی ہلال پاکستان کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔جو بائیڈن سمیت امریکی قیادت کی خواہش تھی کہ اس امداد کے ذریعے پاکستان کو جمہوریت کے تسلسل، آزاد عدلیہ اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایکشن کی ترغیب دی جائے۔ جوبائیڈن نے کشمیریوں کی کھل کر حمایت کی،اور کشمیری مسلمانوں کی حالت زار کو بنگلہ دیش میں روہنگیا اور چین میں ایغور مسلمانوں جیسی قرار دی۔بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370کی تنسیخ کے دس ماہ بعد جوبائیڈن نے نئی دہلی سے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کے حقوق بحال کرے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1980اور90میں پاکستان کی قدامت پسند سیاسی قوتوں نے ری پبلکن کی حمایت کی تھی، کیونکہ ری پبلکن نے افغان جنگ میں مجاہدین کی کھل کر مدد کی تھی۔ٹرمپ دور میں پاکستان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان نے سہولت کاری فراہم کی،امریکا کو پاکستان کی معاونت درکار ہے۔ جوبائیڈن افغان عمل میں شریک رہے ہیں یہاں پر یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ کی نسبت جو بائیڈن کو ایک نسبتا ملنسار اور عوامی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

وہ عوام میں اپنے جوش خطابت کے لیے اتنے مشہور نہیں جتنا اپنی خوش اخلاقی اور لوگوں میں گھل مل جانے کے لیے۔صدر ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن عالمی سفارتکاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، وہ تین بار سینیٹ کی طاقتور امور خارجہ سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔

سابق صدر اوباما کی طرح جو بائیڈن عالمی سطح پر امریکا کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں، وہ گمبھیر تنازعات کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اوباما دور کا ایٹمی معاہدہ بحال کرنے کی کوشش کریں اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ خطے کے لیے ایک بڑا بریک تھرو ہوگا۔

نو منتخب صدر نے دوران خطاب کہا کہ یہ ان کے لیے بہت عزت کا مقام ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں انھیں ووٹ دیے گئے تاکہ وہ اپنے مشن کو پورا کر سکیں ۔عبرانی زبان کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے اور یہ وقت ہے امریکا کے زخم مندمل کرنے کا ، وہ ان افراد کے لیے بھی اتنی ہی محنت کریں گے جنھوں نے ان کو ووٹ نہیں دیا جتنا ان لوگوں کے لیے جنھوں نے ان کو ووٹ دیا۔

اپنے خطاب میں جو بائیڈن نے کہا کہ تاریخی طور پر امریکا اہم لمحات پر لیے گئے فیصلوں کی بنیاد پر اپنی ڈگر پر چلا ہے اور اس سلسلے میں ماضی کے رہنماؤں نے مشکل فیصلے لیے، صدر لنکن نے 1860 میں ہماری یونین کو بچایا، روزویلٹ نے 1932 میں ملک کو ایک نئی راہ دکھائی، جان کینیڈی نے 1960 میں اور پھر بارک اوباما نے 2008 میں کہا کہ  ہمارا ملک  جد و جہد سے گزر کر اپنے مقام تک پہنچا ہے۔ امریکی صدر تاریخ کے بہترین طالب علم ہیں، یقیناً تبدیلی بھی وہی لا سکتا ہے جوتاریخ سے واقف ہو۔

ذرایع ابلاغ کے مطابق نیو یارک کے ٹائمزاسکوائرپر نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کا پہلا خطاب سننے کے لیے لوگوں کی بہت بڑی تعداد جمع تھی جنھوں نے بڑی اسکرینز پر جو بائیڈن کی تقریر سنی۔ ان کا پہلا خطاب انتہائی مدلل اور فہم وفراست اور تدبر کی عکاسی کررہا تھا ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ووٹوں کی گنتی پر مزید قانونی کارروائی کی دھمکی اور جوبائیڈن کی فتح تسلیم کرنے سے انکار پرجوبائیڈن نے کہا کہ ٹرمپ کا رویہ امریکی جمہوریت کے وجود کے لیے ایک خطرہ ہے۔ یاد رہے کہ جو بائیڈن اس سے قبل بھی ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے دو بار صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی نامزدگی کی دوڑ میں شامل رہے ہیں جس میں انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔جوبائیڈن امریکا کے 46ویں صدر ہوں گے۔

امریکا کے انتخابی نظام کے مطابق امیدوار کی کامیابی کے اعلان کے بعد بھی اقتدار کی منتقلی کا عمل تقریباً اڑھائی ماہ میں مکمل ہوتا ہے، 3 نومبر کو ہونے والی پولنگ سے لے کر نئے صدر کی 20 جنوری کو حلف برداری تک کے اس عرصے کو’’عبوری دور‘‘ کہا جاتا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے امریکا کے نو منتخب صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کامیلا ہیرس کو مبارکباد دی ہے ۔اپنے ٹوئیٹر پیغام میں انھوں نے لکھا ہے کہ جو بائیڈن کوفتح مبارک! میں نومنتخب امریکی صدرکے جمہوریت پر عالمی سمٹ کے انعقادکے ساتھ کرپٹ رہنماؤں کی جانب سے چوری شدہ قومی دولت چھپانے اورٹیکس چوری کے غیرقانونی ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے ان کے ساتھ کام کرنے کاخواہاں ہوں۔ وہ نئی امریکی قیادت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے ملکر کام کرنے کے لیے پرامید ہیں۔

بلاشبہ وزیراعظم کی نیک خواہشات نومنتخب امریکی صدر کے ساتھ ہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ دونوں رہنما ملکی تنازعات کا حل نکالنے کے لیے مثبت سمت میں پیش رفت کریں گے۔خطے میں امن قائم ہوگا اور ترقی وخوشحالی کی نئی راہیں کھلیں گے۔

The post نو منتخب امریکی صدر کا پہلا خطاب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3n6KSje
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment