Ads

پولیس فورس میں خواتین کی نمائندگی کم کیوں؟

 لاہور:  برصغیر میں پولیس کے نظام کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو مغلیہ عہد میں یہاں پولیسنگ موجود تھی، لیکن انگریز نے جب یہاں قبضہ کیا تو ہر قابض کی نفسیات کے مطابق اس نے دیگر چیزوں کے ساتھ پولیس کا نظام بھی بدل ڈالا۔

برطانوی سامراج نے مجسٹریٹی نظام متعارف کروایا، جس کے مطابق داروغہ اور دیگر ماتحت افسروں کو پولیسنگ کے لئے بھرتی کیا گیا۔ انگریزحاکم نے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے پولیسنگ کا جدید نظام متعارف کروایا تاکہ وہ مقامی افراد پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکے، لیکن افسوس! انگریز کا بنایا نظام آزادی کے بعد نہ صرف ابھی تک اسی طرح چل رہا ہے، بلکہ اس نظام کو چلانے کے ’’مخصوص‘‘ مقاصد بھی نہیں بدلے، یعنی آج بھی حکمران اور دیگر بااثر طبقات پولیس کو اپنے مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ پھر ادارے کی تباہی کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔

کیا عجب بات ہے کہ ہر دور میں آنے والے حکمرانوں نے تھانہ کلچر میں تبدیلی کا نعرہ لگایا اور پھر خود ہی اس کی راہ میں روڑے اٹکائے، کیوں کہ پولیس کے بغیر ان کا اپنا نظام نہیں چلتا۔ عمومی طور پر محکمہ میں بھرتی سے لے کر افسروں کی تعنیاتیوں تک رشوت اور سفارش کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ ہر تھانے میں پولیس افسر کی تعیناتی وہاں کے مقامی سیاست دانوں یا دیگر بااثر افراد کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے تاکہ فرمانبردار افسران کے ہر جائز و ناجائز حکم پر سرتسلیم خم کرے۔ تھانہ کلچر میں تبدیلی کے لئے کبھی پولیس کے بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے افسروں و اہلکاروں کی مراعات بڑھائی جا رہی ہیں تو کبھی ٹریننگ سیشنز کا انعقاد کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ پولیس فورس کے چند حکام اپنے تئیں تھانہ کلچر میں تبدیلی کے لئے جتن بھی کر رہے ہیں لیکن سو فیصد مثبت نتائج برآمد نہیں ہو رے ہیں۔

بلاشبہ وطن عزیز کے روایتی تھانہ کلچر میں تبدیلی ناگزیر ہے، جس کے لئے ہر دور میں مختلف آراء اور منصوبے سامنے آئے۔ اور اسی مقصد کے حصول کے لئے آج بھی ماہرین اور عام شہریوں کی طرف سے نئی رائے سامنے آ رہی ہے کہ ملکی آبادی کا تقریباً نصف حصہ (خواتین) اس فورس میں اس طرح اپنی خدمات سرانجام کیوں نہیں دے رہا، جس کی ضرورت ہے۔

خواتین افسران و اہلکاروں کی  موجودگی میں تھانہ کلچر میں خوشگوار اور مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے، کیوں کہ اس سے نہ صرف سیاسی اثرورسوخ اور کرپشن میں کمی آئے گی بلکہ ظلم کا شکار گھرانے خصوصاً خواتین انصاف کے لئے بلاجھجک تھانوں کا رخ کر سکتی ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ دنوں تربت یونیورسٹی کیمپس دختران پاکستان کے تحت پیغام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار زبیدہ جلال نے کہا کہ ’’پرامن معاشرے کے قیام کے لئے ایک خاتون اہم کردار ادا کرتی ہے‘‘ تو بلاشبہ ایسا ممکن ہے، اگر وقت کے حکمران اس پر توجہ دیں۔

اس ضمن میں ’’ایکسپریس‘‘ نے ایک عوامی سروے کا بھی اہتمام کیا، جس میں پنجاب کے مختلف اضلاع کے افراد آصف ریحان، جمشید، اصغر علی، علی مبشر، عمار، قاسم، عابد، شکیل، آصف سمیت دیگر کا کہنا تھا کہ پنجاب بھر میں خواتین کے لئے درجن سے بھی کم تھانے جبکہ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے صوبائی دارالحکومت لاہور میں صرف ایک وویمن پولیس اسٹیشن ہے۔ پولیس اور تھانہ کلچر میں تبدیلی کے لئے خواتین پولیس افسران کے کردار کو بڑھانا چاہیے، کیوں کہ خواتین افسران کی سیاسی وابستگی کم ہوتی ہے۔

رکن پنجاب اسمبلی رابعہ فاروقی کا کہنا ہے کہ مرد افسران کی نسبت خواتین پولیس افسران کی سیاسی وابستگیاں کم ہوتی ہیں اور مردوں کی نسبت ان کو سفارش کروانا مشکل ہوتا ہے۔ خواتین افسران کو فیلڈ پوسٹنگ زیادہ سے زیادہ دی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے دور حکومت میں خواتین افسران کو فیلڈ پوسٹنگ دینے کا ٹرینڈ شروع کیا تھا۔ خواتین کو ڈی پی اوز ، ایس ایچ اوز اور محرر تعینات کیا گیا۔ اس ٹرینڈ کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سروے کے دوران یونیورسٹی طلبہ و طالبات اور عام شہریوں سے رائے لی گئی، جن کا کہنا تھا کہ خواتین کل آبادی کا تقریبا پچاس فیصد ہیں مگر بیشتر اضلاع میں وویمن پولیس اسٹیشن ہی نہیں ہے۔

خواتین افسران کی تعداد آبادی کے تناسب سے ہونی چاہیے۔ اگرچہ گزشتہ چند سالوں میں خواتین پولیس افسران کی تعداد بڑھی ہے، ان کو ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز لگایا جارہا ہے مگر ان اقدامات کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پولیس فورس میں 13 ایس پی، 6 اے ایس پی، 33  ڈی ایس پی، ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر، 7 سائیکالوجسٹ، 29 انسپکٹر، 380 سب انسپکٹر، 228 خواتین ٹریفک وارڈن ہیں، ان کے علاوہ کانسٹیبلز وغیرہ کی تعداد کچھ زیادہ ہے۔

خواتین تھانے جانے سے ڈرتی ہیں اور مرد پولیس افسران کے سامنے کسی بھی صورت اپنا مسئلہ مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتیں۔ ہر تھانے میں خواتین کی موجودگی یقینی بنائی جانی چاہیے تاکہ وہاں جانے والی خواتین بہتر انداز میں اپنا مسئلہ بیان کرسکیں۔ اس ضمن میں خواتین پولیس آفیسرز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں خواتین کا تناسب 50 فیصد ہے۔

پولیس اسٹیشن میں خواتین پولیس آفیسر کی موجودگی سے خواتین اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔کوئی جرم ہوتا ہے تو خواتین اس میں کسی نہ کسی طرح شامل ہوتی ہیں، وہ تو مجرم ہوتی ہیں یا پھر مجرم کی رشتہ دار یا پھر وہ جرم کا شکار ہوتی ہیں تو خواتین کو بہتر طریقے سے ڈیل کرنے کے لیے بھی پولیس میں خواتین کا ہونا بہت مفید ہے۔ اگر ہمسایہ ممالک ایران کی بات کی جائے تو ایرانی پولیس میں خواتین کا تناسب 4 فیصد ہے جبکہ ہمارے ہاں محکمہ میں خواتین کی نمائندگی محض ایک فیصد ہے اور اس قدر کم نمائندگی کے باعث انہیں پیشہ وارانہ امور میں امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پنجاب سمیت لاہور میں اہم پوسٹوں پر تعینات خواتین پولیس افسران ایس پی عمارہ اطہر،ایس پی شائستہ ندیم،ایس پی ڈاکٹر انوش مسعود چوہدری، ایس پی عائشہ بٹ،اے ایس پی بشری جمیل، سابق ایس ایچ او وویمن پولیس اسٹیشن فضاء ممتاز، سابق ایس ایچ او وویمن پولیس اسٹیشن نبیلہ، ایس ایچ او وویمن پولیس اسٹیشن طوبی سمیت دیگر خواتین پولیس افسران محکمہ پولیس میں اپنے فرائض بخوبی ادا کررہی ہیں۔

خواتین پولیس افسران نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین معاشرے کا اہم ترین جزو ہیں اور پولیس سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی سرانجام دے رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جرائم کی نوعیت بدلی ہے اور جرائم میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ خواتین پولیس افسران نے اپنی پوسٹنگ کے دوران ملزمان کی گرفتاری اور اہم مقدمات کی تفتیش میں نمایاں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔

خواتین افسران تھانہ کلچر کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔وزیر اعظم پاکستان ، وزیر اعلی پنجاب اور آئی جی پنجاب انعام غنی کو وویمن پولیس اسٹیشن کی تعداد میں اضافہ اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔

The post پولیس فورس میں خواتین کی نمائندگی کم کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I2nHHS
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment