پی ٹی وی کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر جناب آغا ناصر کو آخر دم تک فیضؔ صاحب کا قرب حاصل رہا۔ انھوں نے اپنی کتاب’ جیتے جی مصروف رہے‘ میں فیض ؔ صاحب کی مقبولِ عام غزلوں اور نظموں کی شانِ نزول یا پس منظر لکھّا ہے جس سے ان غزلوں کی اہمیّت اور دلچسپی دو چند ہو گئی ہے۔
مصنف لکھتے ہیں ’’اب سے برسوں پہلے میں نے ایک بار فیضؔ صاحب سے کہا تھا کہ آپ نے ہماری تاریخ اور قومی زندگی کے ہر اہم موقع پر کچھ نہ کچھ لکھّا ہے۔ اگر پڑھنے والوں کو آپ کی ان تخلیقات کے پس منظر اور شانِ نزول کا علم ہو تو ان کا لطف دوبالا ہو جائے‘‘ ۔
جوکام فیضؔ صاحب خود نہ کر سکے، وہ آغا ناصر نے کر دیا۔آغا صاحب لکھتے ہیں:’’فیضؔ شعر گوئی کو ’’عشق‘‘ اور سماجی و سیاسی سرگرمیوں کو ’’کام ‘‘ کہتے تھے۔ وہ ساری عمر کام اور عشق کی کش مکش میں مبتلا رہے۔ انھوں نے زندگی بھر اچھے اچھے شعر کہے اور اچھے اچھے کام کیے مگر ہمیشہ نامطمئن ہی رہے۔ اور ان کے اپنے بقول دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور کام سے عشق الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آکر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
آغا ناصر لکھتے ہیں،’’1935میں فیض صاحب لاہور کو الوداع کہہ کر امرتسر چلے گئے۔ انھیں وہاں ایم اے او کالج میں لیکچر شپ مل گئی تھی۔ لاہور چھوڑنا فیض صاحب کے لیے کوئی ایسی خوشگوار بات نہیں تھی۔ لاہور میں اپنے کلاس فیلوزکے علاوہ انھیں اپنے اساتذہ سے بھی خاص نسبت رہی ۔‘‘’’ادبی حلقوں میں جو لوگ اس وقت لاہور میں موجود تھے اور جن سے فیض صاحب نے کسبِ فیض کیا۔
ان میں مولانا چراغ حسن حسرؔت، عبدالمجید سالکؔ، عبدالرحمٰن چغتائی، غلام رسول مہر، امتیاز علی تاج اور حفیظ جالندھری وغیرہ شامل تھے۔ پھر یہ کہ لاہور ہی وہ شہر تھا جہاں وہ اٹھارہ سال کی عمر میں عشق میں مبتلا ہوئے۔ اس پہلی محبت نے انھیں دیوانہ بنادیا تھا۔‘‘
’’یہ بھری محفل چھوڑ کر فیض صاحب جب لاہور سے امرتسر گئے تو ظاہر ہے ان کو ملول اور دل گرفتہ تو ہونا ہی تھا، سو وہ ہوئے ‘‘۔ ’’فیض صاحب نے شعر گوئی کا آغاز جس ادبی فضا میں کیا تھا اس کا تعلق رومان پسندی سے تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شاعری پر اختر شیرانی اور حسرت موہانی کی حکمرانی تھی۔ ادبی ماحول میں رومانیت کی لہر رواں دواں تھی۔ ادب برائے ادب کا زمانہ تھا۔
اس پر مستزاد یہ کہ اُن دنوں عشق نے مکمل طور پر فیضؔ کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ اور وہ ’’کل وقتی‘‘ عاشقی میں مصروف تھے۔ اس زمانے میں انھوں نے عشق و محبت کے موضوعات پر بہت لکھا۔
یہ ساری شاعری ’’نقشِ فریادی‘‘ میں شامل ہے جو فیض صاحب کا پہلا مجموعہ تھا۔
؎ ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
………
؎ فریبِ آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی
ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آوازِ پا سمجھے
………
؎ دونوں جہان تیری محبت میں ہارکے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزارکے
بہت سے نقّادوں کے بقول فیضؔ صاحب کی عشقیہ شاعری کو بامِ عروج تک پہنچانے میں ان کی چار نظموں نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، جن کے عنوان ہیں۔ رقیب سے، مجھ سے پہلی سی محبّت ،تنہائی اور یاد۔
فیضؔ کے ہاں تشبیہات کی بہتات نہیں ہے مگر جو تشبیہیں ان کے ہاں ملتی ہیں وہ بڑی دلکش ہیں۔
جیسے رات آئی تو روئے عالم پر
تیری زلفوں کی آبشار پڑی
جیسے ویرانے میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
لفظوں کی جادو گری ملاخط فرمائیں۔
اس کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہین ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں
امرتسر میں قیام فیضؔ صاحب کی شخصیّت کی تربیّت کا اہم دور تھا۔ جہاں صاحبزادہ محمود الظّفراور ڈاکٹر رشید جہاں نے ان کے سیاسی شعور کو چمکایا اور تاثیرؔ کی صحبت نے ان کی شاعری کو نکھارا۔ فیضؔ کے اپنے بقول ڈاکٹر رشید جہاں نے ان کو سکھایا کہ اپنا ذاتی غم بہت معمولی سی چیز ہے۔ دنیا بھر کے دکھ دیکھو، محض اپنی ذات کے لیے سوچنا خود غرضی ہے۔
چنانچہ فیض ؔصاحب نے انقلابی نظمیں لکھنا شروع کر دیں، مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ، ان کی ایک طرح سے پہلی انقلابی نظم تھی۔
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبو ب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیری صورت سے ہے عالم میں بہار وں کو ثبات
تیر ی آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
’ ’صبحِ آزادی‘ قیامِ پاکستان کے بعد فیض ؔ صاحب کی پہلی نظم تھی۔ ان کے قریبی دوست ڈاکٹر آفتاب احمد لکھتے ہیں ’’گرمیوں کی تعطیلات میں مَیں گھر والوں کے ساتھ سرینگر آگیا اور ایک بوٹ ہائوس میں رہنے لگا۔ دریا کے اس پار ایک بنگلے میں ایم ڈی تاثیر اور فیضؔصاحب کے اہلِ خانہ مقیم تھے۔ 14 اگست کے دو تین دن بعد فیضؔصاحب بھی پہنچ گئے۔ ایک دو روز بعد تاثیرؔ کے ہاں فیضؔصاحب نے ذکر کیا کہ ایک نظم لاہور میں شروع ہوئی تھی جو سرینگر آتے ہوئے مکمّل ہو گئی۔ تاثیرؔ کے کہنے پر انھوں نے پہلی بار وہ نظم سنائی ۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جسکا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جسکی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
مصنّف کے بقول اس نظم پر دائیں اور بائیں بازو کے شاعروں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
مارچ 1951 میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور میں ملٹری اور سول کے کچھ لوگوں کو سازش کیس میںگرفتار کر کے حیدرآباد جیل بھیج دیا گیا۔ فیضؔ صاحب بھی انھی میں شامل تھے۔ قید میں فیضؔ صاحب نے کچھ نظمیں لکھیں جن میں یہ ترانا بہت مشہور ہوا۔
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیںگے
اب ٹوٹ پڑیںگی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیںگے
ایتھل اور جو لیس روزن برگ امریکی شہری تھے۔ انھیں سویت یونین کی جاسوسی کے الزام میں سزائے موت دی گئی تو فیضؔ صاحب منٹگمری جیل میں تھے۔ یہ خبر سن کر بہت مضطرب ہوئے۔ انھوں نے اس سانحہ پر نظم لکھی۔
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی یہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اورنکلیں گے عشّاق کے قافلے
فیضؔ صاحب کا افریقہ میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں سے بھی قلبی تعلّق تھا۔ افریقی حریّت پسند لیڈر پیٹرک لومبا کے قتل پر ساحرؔ لدھیانوی نے وہ مشہور نظم لکھی کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، تو فیضؔ صاحب نے بھی ایک نظم لکھی جو بہت مقبول ہوئی:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباںاب تک تیر ی ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
’’سقوطِ مشرقی پاکستان بلاشبہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ مُلک دولخت ہوگیا۔ اس جنگ سے قبل فیضؔ صاحب فوجی کارروائی روکنے کے لیے اربابِ اقتدار سے درخواست کرتے رہے کہ اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں پر رحم کریں، مگر جنرل یحییٰ نے ایک نہ سنی، اور آخرکار ہمیں ساری دنیا کے سامنے شرمساری کا سامنا کرناپڑا ۔ اس پر انھوں نے لکھا
ہم کیا کرتے کس رہ چلتے
اُن رشتوں کے جو چھوٹ گئے
وہ کہتے تھے، کیو ں قحط ِ وفا
کا ناحق چرچا کرتے ہو
پائوں سے لہو کو دھو ڈ الو!
’’اس کے کچھ عرصہ بعد بھٹو صاحب ایک بڑا وفد لے کر بنگلہ دیش گئے۔ اس وفد میں فیضؔ صاحب بھی شامل تھے۔ عام افواہ یہ تھی کہ وہ فیضؔ صاحب کو بنگلہ دیش میں پاکستان کا پہلا سفیر مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ فیض ؔصاحب کے شیخ مجیب الرحمان سے بہت دوستانہ تعلّقات تھے۔ وہ اُن دنوں سے شیخ صاحب کو جانتے تھے جب وہ ہارون خاندان کی انشورنس کمپنی میں ملازم تھے۔
وفد میں شامل ایک اور ممبر نے بتایا کہ آخری دن بھٹو صاحب نے شیخ مجیب الرحمن کے اعزاز میں اپنے ہوٹل میں جوابی دعوت دی تھی۔ اس موقع پر شیخ صاحب سے ملاقات کے لیے وفد کے سارے ارکان استقبالیہ قطار میں کھڑے تھے۔ جب شیخ صاحب آئے اور وفد کے ممبران سے ان کا تعارف کرایا جانے لگا تو اچانک اُن کی نظرفیض صاحب پر پڑی۔ انھیں دیکھتے ہی شیخ مجیب الرحمن لپک کر اُن کے پاس آئے اور بغل گیر ہو گئے۔ انھوں نے کہا ’’فَیج بھائی! آپ بھی آئے ہوئے ہو، ہمیں تو کسی نے بتایا ہی نہیں‘‘۔ اسی موقع پر مختصر گفتگو کے دوران انھوں نے فیض صاحب سے یہ فرمائش کی کہ ہمارے لیے بھی کچھ لکھیں ‘‘۔
اس پر فیضؔصاحب نے یہ نظم لکھی
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبز ے کی بہار
خون کے دھبّے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
فیضؔ صاحب ایک دوریش صفت انسان تھے، آغا ناصر کے بقول ان کے ذوق بھی صوفیائے کرام سے ملتے جُلتے تھے، اسی لیے انھیں قوالیاں سننے سے خاص رغبت تھی۔ وہ وفات سے چند روز پہلے اپنے گائوں کالا قادر (ضلع نارووال) گئے اور وہاں مسجد میں باجماعت نماز ادا کی۔ اُسی مسجد میں وہ قرآن کے دس سیپارے بھی حفظ کر چکے تھے۔ اپنے گائوں تک پختہ سڑک بننے کی ان کی خواہش پوری ہوئی تو اِس پر انھوں نے لکھّا،
خوشاکہ آج بفضلِ خدا وہ دن آیا
کہ دستِ غیب نے اس گھر کی درکشائی کی
چنے گئے ہیں سبھی خار اس کی راہوں سے
سنی گئی ہے بالآخر برہنہ پائی کی
The post کلامِ فیضؔ اور اس کا پس منظر appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fwhIHO
0 comments:
Post a Comment