Ads

کوچۂ سخن

غزل

چاند کے ہوتے ہوئے بھی چاندنی ہوتی نہیں
خشک سالی ہو تو مٹی میں نمی ہوتی نہیں
وقت کے کچھ فیصلوں کو مان لینا چاہیے
یار! اِس ظالم کی رائے سرسری ہوتی نہیں
مدتوں کے بعد بھی ویسے کی ویسی دھوپ ہے
اور وہ گوری ہے ایسی، سانولی ہوتی نہیں
باتوں باتوں میں مجھے وہ کاٹنے تک آ گئی
تم تو کہتے تھے محبت باؤلی ہوتی نہیں
روشنی مانگی تو مجھ پر دن مسلط ہو گئے
اور اُس پر ظلم دیکھیں رات بھی ہوتی نہیں
آپ سے کس نے کہا تھا آگ سے کھیلا کریں
یہ تو دُنیا ہے کسی کی بھی سگی ہوتی نہیں
یہ نہیں کہ بعد تیرے نیند لینا چھوڑ دی
نیند تو آتی ہے لیکن خواب سی ہوتی نہیں
یہ ضروری تو نہیں ہر آدمی سے عشق ہو
بعض لوگوں سے محبت واقعی ہوتی نہیں
(عمران عامی۔ راولپنڈی)


غزل


ہجر کا حل نہیں اِس ہجر میں خود حل ہو جا
مجھ سے دانائی مری کہتی ہے پاگل ہو جا
رنگ جتنے بھی مرے پاس تھے سب بھر دیے ہیں
اب تو اے یارکی تصویر مکمل ہو جا
قطرۂ اشک سہی کام لے دریا دلی سے
اُٹھ کے پلکوں سے مرے شہر پہ بادل ہو جا
کب تلک شانوں پہ سر رکھے گا تہمت کی طرح
آبروپیاری ہے تو داخل ِمقتل ہو جا
اور دیکھا نہیں جاتا ترا جانا مجھ سے
جانے والے تُو مری آنکھ سے اوجھل ہو جا
دیکھ نائب ہوں یہاں کن فیکوں کے رب کا
ہو جا آسان تُو اے کار ِ جہاں چل ہو جا
(عقیل شاہ۔راولپنڈی)


غزل
مل رہے ہو بڑی عقیدت سے
خوف آتا ہے اتنی عزت سے
ہم زیادہ بگاڑ دیتے ہیں
بچ کے رہنا ہماری صحبت سے
لوگ کردار بننا چاہتے ہیں
جیسے ممکن ہے سب ریاضت سے
اس کے دل میں اترنے لگتا ہوں
جو مجھے دیکھتا ہے نفرت سے
زہر ایجاد ہو گیا اک دن
لوگ مرتے تھے پہلے غیرت سے
پردہ داروں نے خود کشی کر لی
صحن جھانکا گیا کسی چھت سے
اپنی گردن جھکا کے بات کرو
تم نکالے گئے ہو جنت سے
(ندیم بھابھہ۔ لاہور)


غزل


تو بنا کے پھر سے بگاڑ دے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
رہوں کو زہ گر ترے سامنے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
تری ’’چوبِ چاک‘‘ کی گردشیں مرے آب وگِل میں اُتر گئیں
مرے پائوں ڈوری سے کاٹ کے مجھے چاک سے نہ اُتارنا
تری اُنگلیاں مرے جسم میں یونہی لمس بن کے گڑی رہیں
کفِ کوزہ گر مری مان لے مجھے چاک سے نہ اُتارنا
مجھے رکتا دیکھ کے کرب میں کہیں وہ بھی رقص نہ چھوڑ دے
کسی گردباد کے سامنے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
ترا زعم فن بھی عزیز ہے، بڑے شوق سے تُو سنوار لے
مرے پیچ و خم، مرے زاویے، مجھے چاک سے نہ اُتارنا
ترے ’’سنگِ چاک‘‘ پہ نرم ہے مری خاک ِ نم، اِسے چھوتا رہ
کسی ایک شکل میں ڈھال کے مجھے چاک سے نہ اُتارنا
مجھے گوندھنے میں جو گُم ہوئے ترے ہاتھ، اِن کا بدل کہاں
کبھی دستِ غیر کے واسطے مجھے چاک سے نہ اتارنا
ترا گیلا ہاتھ جو ہٹ گیا مرے بھیگے بھیگے وجود سے
مجھے ڈھانپ لینا ہے آگ نے، مجھے چاک سے نہ اتارنا
(شہزاد نیر ۔ لاہور)


غزل
جب تری یاد کبھی اشک فشاں ہوتی ہے
جوئے خوں آنکھ کناروں سے رواں ہوتی ہے
اس کے آتے ہی عطا ہوگا ہمیں عہد ِ وصال
موت ہم ہجر پرستوں کی اماں ہوتی ہے
اشک دیکھے ہیں مگر کاش کوئی تو دیکھے
وہ اذیت جو پس ِ اشک نہاں ہوتی ہے
تم کو معلوم کہاں دیکھتے رہنے کے سبب
آنکھ حیرت کد ۂ عمر ِ رواں ہوتی ہے
ایک میں ہوں کہ ابھی تک نہ ملا دل کا سراغ
تم تو جس چیز کو رکھتے ہو وہاں ہوتی ہے
اب تو میں جھوم کے لیتی ہوں بلائیں ایماں
اب مجھے ہجر سے تکلیف کہاں ہوتی ہے
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)


غزل


چراغ ہوتے ہوئے راستہ بدلتے ہوئے
میں اپنے آپ سے نکلا قبا بدلتے ہوئے
کوئی اندھیرا مری صبح کی تلاش میں تھا
عجیب خوف تھا مجھ کو دیا بدلتے ہوئے
تجھے خبربھی نہیں تھی میں تیری ذات میں ہوں
کسی نے مجھ سے کہا تھا جگہ بدلتے ہوئے
ہماری زد میں تھے چرخِ کہن کے ہنگامے
قلیل وقت میں حیرت سرا بدلتے ہوئے
تعلقات بچاتا ہوا میں چپ چپ تھا
میں رو بھی پایا نہ حرفِ دعا بدلتے ہوئے
میں پورا ٹوٹ چکا تھا مگر میں زندہ تھا
مجھے شکست ہوئی تھی انا بدلتے ہوئے
(ساجد رضا خان۔ اسلام والا، جھنگ)


غزل


نظر جو آیا کوئی لالہ فام پھول کھلے
ہمارے چاروں طرف، گام گام پھول کھلے
تمھارا ساتھ رہا، زندگی بہاررہی
تمھارا ساتھ رہا، صبح شام پھول کھلے
کسی نے دور پھینکا ہنسی کا فوّارہ
پسِ حجاب بصد اہتمام پھول کھلے
بوقتِ صبح چلیں لڑکیاں سوئے کالج
بوقتِ صبح کئی خوش کلام پھول کھلے
کسی کی دید کی خاطر بنے سبھی منظر
کسی کے حُسن کے صدقے تمام پھول کھلے
جہاں جہاں بھی کیا تیرا ذکر نور ہوا
جہاں جہاں بھی لیا تیرا نام پھول کھلے
(افتخار حیدر۔ لاہور)


غزل


اگر تمہاری محبت میں کچھ نہیں رکھا
ہزار میل مسافت میں کچھ نہیں رکھا
طوافِ شمع میں خود راکھ ہو گیا آخر
جو کہہ رہا تھا کہ صورت میں کچھ نہیں رکھا
یقیں کریں کہ محبت ہے دل کا سرمایہ
یقیں کریں کہ کدورت میں کچھ نہیں رکھا
ترے خلوص کی آواز پر چلی آئی
تری زباں کی فصاحت میں کچھ نہیں رکھا
یہ تنگ دل نہیں مانیں گے پر حقیقت ہے
اگر نہ ظرف ہو دولت میں کچھ نہیں رکھا
جو عنبرین نہ بے ساختہ کریں اظہار
یہاں روایت و جدت میں کچھ نہیں رکھا
(عنبرین خان۔ لاہور)


غزل


یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا میرے یار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو چُپ ہوں کہ اندر سے بہت خالی ہوں
اورکچھ لوگ پُراسرار سمجھتے ہیں مجھے
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے فن کار سمجھتے ہیں مجھے
وہ جو اُس پار ہیں اُن کے لیے اِس پار ہوں میں
اور جو اِس پار ہیں اُس پار سمجھتے ہیں مجھے
نیک لوگوں میں مجھے نیک گِنا جاتا ہے
اور گناہگار، گناہگار سمجھتے ہیں مجھے
(شاہد ذکی۔ سیالکوٹ)


غزل


شاملِ بزمِ زمانہ بھی نہیں رہنے دیا
اور تری یاد نے تنہا بھی نہیں رہنے دیا
کردیا ایسے عنایات نے دل مالا مال
تہی دامانی کا دھڑکا بھی نہیں رہنے دیا
رنگ ڈالا ہمیں اک رنگ میں اس چاہت نے
دوسرا کوئی لبادہ بھی نہیں رہنے دیا
کارِ دنیا میں بھی یہ دل نہیں لگتا ہے ولیؔ
وقت نے قیس کا رسیا بھی نہیں رہنے دیا
(شاہ روم خان ولی۔کراچی)


غزل


کردار زندگی کی جبینوں میں جڑ گئے
جس عمدگی کے ساتھ وہ افسانے گھڑ گئے
لہروں کی جنگ ریت کا نقصان کر گئی
اور چودھویں کی رات کو ساحل بچھڑ گئے
وہ شخص اٹھ کے چل دیا جب ان کی چھاؤں سے
ہائے تمام پیڑ جڑوں سے اکھڑ گئے
اک چیختا سکوت مسلط تھا باغ پر
سہمے ہوئے درخت تحیر میں پڑ گئے
ذہنی فتور عشق کو برباد کر گیا
دونوں انا پرست تھے سو ضد پہ اڑ گئے
صد شکر آپ سا بھی معوذ نہیں کوئی
تھوڑا بلند کیا ہوئے تیور بگڑ گئے
(معوذ حسن۔نارووال)

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/38nsVJ2
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment