Ads

مکالمہ جمہوریت کی روح ہے

مکالمہ جمہوریت کی روح ہے

اپوزیشن سے بادی النظر میں مکالمہ کرنے کی حکومتی برف ٹوٹنے لگی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے  اپوزیشن سے اپیل کی ہے کہ وہ دو تین ماہ جلسے ملتوی کر دے، اسپتال بھر چکے ہیں، بزرگ شہریوں کو مشکلات ہونگی۔

گزشتہ دنوں سیالکوٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سیاسی ڈائیلاگ کی بہترین جگہ پارلیمنٹ ہے۔ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد لانی ہے تو اسمبلی میں آئے، انھوں نے کہا کہ ہم قومی مکالمہ میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں، پہلے روز سے کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں سوالات کے جواب دینے کو تیار ہیں۔جمہوریت تب چلے گی جب مکالمہ ہوگا۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے مذاکرات کی بات کرنا درست سمت میں ایک خوش آئند اقدام ہے، یہ صائب فیصلہ پہلے کر لیا جاتا تو ملکی سیاست ایک خوشگوار حیرت کے باعث دوطرفہ کشیدگی اور بند گلی میں داخل نہ ہوتی، بہت سی پیچیدگیاں نہ صرف ختم ہوجاتیں، خیر سگالی کا ماحول پیدا ہوتا بلکہ جلسے جلوسوں کی نوبت بھی نہ آتی۔

یہ حقیقت ہے کہ پارلیمینٹ میں اپوزیشن سے مکالمہ کی بات ’’آئے کچھ ابر کچھ بہار آئے‘‘ کا سندیسہ لائی ہے، اب وقت بتائے گا کہ وزیر اعظم کے اس انداز فکر کے رد عمل میں اپوزیشن کیا کہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم نے سرنگ کے اس پار سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے ،اپنے دل کی بات کہہ دی ہے، لازم ہے کہ بے یقینی، سیاسی تعطل اور سسٹم کو لاحق خطرات کے سدباب میں مدد ملے، سیاسی درجہ حرارت میں کمی آئے۔

لیکن فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ان امکانات کے حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے پہل بھی وزیراعظم کو کرنا ہوگی، ان کے سیاسی تدبر کا تقاضہ ہے کہ وہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا پروڈکشن آرڈر جاری کرائیں، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ہدایت دیں.

پی ڈی ایم کی قیادت کو بالمشافہ مکالمہ کی دعوت دیں، ملاقات کا وقت اور مقام طے کیا جا سکتا ہے، وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام کام خوش اسلوبی، کشادہ دلی اور قومی بحران کے فی الفور خاتمہ سے مشروط ہو،جمہوری رواداری، ہم آہنگی اور قومی ایشوز پر فیصلہ کن بریک تھرو کا اس سے بہتر وقت پھر نہیں آئے گا۔ اسے درد مند دل رکھنے والی سیاسی جماعتیں یقیناً گڈفیتھ میں لیں گی، نئی تاریخ رقم کی جا سکتی ہے، بیان بازی کی ہسٹیریائی اور ہیجانی کیفیت کا اختتام ہو اور کورونا سے نمٹنے کے لیے جو ماحول درکار ہے اس کے لیے فضا بھی قومی جذبہ کے ساتھ سازگار ہو، مایوسی اور پژمردگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے.

مبصرین کے مطابق ملکی سیاست میں تصادم اور تناؤ کی اتنی گھمبیر صورتحال کا ایک ہی حل ہے کہ سیاستدان اور حکمران اپنے اختلافات جمہوری انداز میں حل کریں،نئی روایت ڈالیں، دنیا کو دکھائیں کہ پاکستانی قوم جمہوری روایات سے الگ نہیں، اسے کروڑوں عوام کے مسائل اور ان کی زندگیوں کو کورونا کے مصائب کا سامنا ہے، چیلنجز کثیر جہتی ہیں، مگر نیک نیتی اور جمہوری عمل کی طاقت پر اہل سیاست کا یقین پختہ ہو تو کوئی بھی لمحہ اپنی تاریخ خود بناسکتا ہے، شاید یہی موقع وقت نے اپوزیشن اور حکومت کو دیا ہے۔

اس وقت عوام بلاشبہ شدید اعصابی دباؤ اور غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں مگر سیاسی حلقوں نے وزیر اعظم کی بروقت اپیل کا خیرمقدم کیا ہے،وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کی صورتحال کا بحیثیت قوم مقابلہ کرنا ہے، جلسوں سے مجھے خطرہ نہیں بڑھتی ہوئی سردی کے ساتھ کورونا بھی زیادہ پھیلنے کا خدشہ ہے، وزیراعظم نے اپوزیشن سے اپیل کی ہے کہ اس وقت جلسے جلوس کرنے والے عوام کی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

قومی رابطہ کمیٹی برائے کورونا اجلاس کے بعد گفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا جلسے جلوسوں سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا،عوام احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور اپنے آپ کو کورونا سے بچائیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ شادی ہالز، اسکول اور ریستوران بند کیے ہوئے ہیں، علماء سے بات کی ہے کہ وہ ایک طرف مساجد میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو کہتے ہیں تو دوسری طرف جلسے جلوس ہو رہے ہیں۔پہلی لہرمیں ہم نے تو ملک کو لاک ڈاؤن سے بچایا تھا، کورونا کی صورتحال سے ہمارے ڈاکٹرز، نرسوں، بزرگ شہریوں کے لیے مسائل پیدا ہوں گے اور جن لوگوں کو کوئی بیماریاں ہیں ان پر دباؤ بڑھے گا، ان سب چیزوں سے بچنے کے لیے قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ احتیاط کریں اور احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن قومی زندگی کے اس نازک موڑ پر صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کا مظاہرہ کریں۔ قوم کو اسی کا انتظار ہے۔

The post مکالمہ جمہوریت کی روح ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LlQDfm

via Blogger https://ift.tt/2W4YaBh
December 11, 2020 at 09:59PM
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment