Ads

دِید… باز دید

ٹی وی پر 24 گھنٹے نشر ہونے و الی خبروں اور بیانات میں تو پھر بھی کہنے کو تھوڑی بہت تبدیلی کسی نہ کسی حوالے سے نظر آ جاتی ہے مگر جہاں تک ان پربیشتر تبصرہ، تجزیہ اور بحث کرنے والوں کا تعلق ہے اُن کی ثابت قدمی یا ہٹ دھرمی میں سِرمو فرق نظر نہیں آیا۔

چند ماہ قبل تک ایسا تھا کہ اگر کوئی دوسرے کی بات کے بیچ میں بولتا نہیں تھا (جس کا رواج تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا) تو کم از کم ایک ناراض سی شکل بنا کر اُسے گھورتا ضرور رہتا تھا، دوسرے کی بات کو سننے یا سمجھنے کے بجائے باقی کے تمام لوگ اپنا اگلا سوال یا تیار کیا ہوا بیان دل ہی دل میں دہراتے رہتے تھے کہ پروگرام کا فارمیٹ ہی مکالمے کے بجائے ایک طرح کی خود کلامی پر استوار ہوتا تھا مگر اب گزشتہ کچھ عرصے سے تو بد تہذیبی کی حد ہی ہو گئی ہے یعنی ایک بندہ بولتا ہے اور باقی اپنے اپنے موبائل فونوں کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں اور اپنے اس عمل کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔

کچھ ایسی ہی بے نیازی حکومت اور اپوزیشن کی میٹنگز میں بھی نظر آتی ہے کہ دونوں ایک ہی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے ایک دوسرے سے اس قدر لاتعلق اور اپنے اپنے مفادات کے پنجرے میں قید رہتے ہیں جیسے یہ علیحدہ علیحدہ جنگلوں کے باسی یا ملکوںکے باشندے ہوں۔

ابھی ابھی خبرنامے میں وزیر اعظم عمران خان کی سینئر صحافیوں سے خصوصی ملاقات اور مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں اپوزیشن کے ایک اکٹھ کی رپورٹیں دیکھ اور سن رہا تھا اور اگر یہ اُردو میں نہ ہوتیں تو میں یقیناً انھیں کسی ایسی تکنیکی خرابی پر محمول کرتا جس کی وجہ سے دو مختلف ملکوں کے پروگرام آپس میں خلط ملط ہو گئے ہوں۔

ایک طرف کچھ ایسے مہربان اپنے پیروکاروں کو اسمبلیوں کی سیٹوں سے استعفیٰ دینے یا فی الحال جمع کرانے کا مشورہ دے رہے تھے جو خود کسی نہ کسی مسئلے کی وجہ سے ان اسمبلیوں سے باہر ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم اخبار نویسوں کو بتا رہے تھے کہ اُن سے شروع شروع میں کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں جن کی وجہ اور کووڈ کے اشتراک سے عام آدمی کی مشکلات اور مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے لیکن اب وہbetter late than never کے اصول پرعمل کرتے ہوئے۔

ان غلطیوں سے سیکھ بھی رہے ہیں اور انھیں درست کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں جس کے ثمرات کووڈ کے پیدا کردہ مسائل کی وجہ سے مکمل اور بھر پور طور پر سامنے نہیں آ رہے  لیکن محسوس ضرورکیے جا رہے ہیں اور یہ کہ اپوزیشن سے منفی این آر او ہر طرح کی بات کرنے کے لیے وہ تیار ہیں۔

اتفاق سے اخبار نویسوں کے اس وفد میں کچھ الیکٹرانک میڈیا سے منسلک لوگ بھی موجود تھے جن کے شوز میں ہر روز یہ طوفانِ بد تمیزی دہرایا جاتا ہے جسے ایک حد تک ان کی پیشہ ورانہ مجبوری بھی کہا جا سکتا ہے اور اُن کے حق میں یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ وہ ایسے شوز بھی کرتے ہیں جن میں سیاسی پارٹیوں کے معروف ’’طوطوں‘‘ کے بجائے غیر جانب دار، آزادانہ رائے رکھنے والے ا ور تمیز سے بات کرنے والے صحافت سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے ماہرین کو بھی بلایا  جاتا ہے جو اُن کے سا تھ ساتھ پروگرام میں شامل دیگر شرکاء کے ساتھ بھی عالمانہ اور بے لاگ مکالمہ کرتے ہیں۔

حکومت، اپوزیشن اور رائے عامہ سے متعلق اُن تمام افراد کے لیے جو اپنی ذاتی وفاداریوں اور مفادات سے بالاتر ہو کر وطن کی محبت، اس کی ترقی اور معاشرے کی مضبوطی اور اس کے انصاف بنیاد ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں۔

مجھے انسان کی اجتماعی دانش سے کچھ مزید گوہر پارے ملے ہیں جو میں اُن کے لیے خاص طور پر اور باقی تمام قارئین کے لیے ایک طرح سے ’’قندِ مکرر‘‘ کے طور پر پیش کر رہا ہوں کہ یہ کام نہ صرف میں گاہے گاہے کرتا رہتا ہوں بلکہ اس کی بہت محبت اور شاباش بھری تائید اور تحسین بھی مجھے ملتی رہتی ہے تو آیئے ان دانش کی باتوں سے یہ جاننے اور سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ا چھے قول اور اچھے عمل میں وہ کیا شاندار رشتہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ ایک ہی سکّے کے دو رُخوں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔

’’اُس شخص کے سامنے کبھی فریاد نہ کیجیے جو آپ کو تکلیف پہنچائے، اُسے مسکرا کر اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ تمہارا بہت شکریہ کہ تم نے مجھے اپنے سے بہتر آدمی کی تلاش کا موقع فراہم کیا۔‘‘

’’حاسدوں سے کبھی نفرت نہ کرو کیونکہ یہ دل سے تمہیں خود سے بہتر سمجھتے ہیں‘‘

’’انتقام یا بدلہ لینے پر اپنا وقت ضایع نہ کرو جو تم سے نفرت کرتے ہیں، اس نفرت کی آگ ہی اُن کی سب سے بڑی سزا ہے‘‘

’’لوگوں کے اپنے منصوبے نہیں ، نتیجے دیکھو۔‘‘

’’سب سے بڑا سبق جو میں نے زندگی سے سیکھا ہے، یہی ہے کہ دنیا کی ا س منڈی میں تمہارے جذبات کے لیے کوئی جگہ نہیں، سو اپنے احساسات کے اشتہار مت لگاؤ‘‘

’’حوصلہ کبھی مت ہارو، کامیابی کا دن دُور نہیں۔‘‘

’’اگر تم کسی کی مدد کرتے وقت جوابی مدد کی اُمید رکھو گے تو یہ کاروبار ہو گا پیار نہیں‘‘

’’بھروسہ سب کچھ ہے لیکن جب یہ ٹوٹ جائے تو پھر کچھ بھی نہیں‘‘

’’ہمیشہ یاد رکھو تمہاری موجودہ حالت سدا رہنے والی نہیں ہے، اس سے بہتر چیز یں ابھی آنے والی ہیں۔‘‘

’’سچے رشتے کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر قربان مت کرو، نہ کوئی مکمل ہے اور نہ ہمیشہ صحیح اور یاد رکھو تعلق ہمیشہ تکمیل سے بڑا ہوتا ہے‘‘

’’یہ بتانے کے لیے میرے جنازے پر مت آؤ کہ تم مجھ سے کتنی محبت کرتے تھے، یہ بات مجھے اُس وقت بتاؤ جب میں زندہ ہوں‘‘

’’کبھی غصے کے عالم میں جواب مت دو، کبھی بہت زیادہ خوشی کی حالت میں وعدہ نہ کرو اور کبھی کوئی فیصلہ نہ کرو جب تم غم کی حالت میں ہو‘‘

’’بددیانت لوگوں سے کبھی وفا کی اُمید مت رکھو‘‘

’’زندگی مختصر ہے اور وقت کی رفتارتیز، گزرا ہوا کوئی پل کبھی واپس نہیں آتا، سو ہر لمحے کو غنیمت سمجھو‘‘

’’ہمت نہ ہارو، ہر چیز کی ابتدا اُس کا سب سے مشکل حصہ ہوتا ہے‘‘

’’جب تم دوسروں کے لیے اچھا سوچتے ہو تو اچھی چیزیں خود لوٹ کر تمہاری طرف آتی ہیں۔یہ قانون قدرت ہے‘‘

’’مشکلیں تمہارا راستہ روکنے کے لیے نہیں بلکہ تمہیں تمہاری طاقت سے آشنا کرنے کے لیے آتی ہیں‘‘

’’ہر تکلیف ایک سبق سکھاتی ہے ا ور ہر سبق تمہیں ایک بہتر انسان بناتا ہے‘‘

’’کبھی سیکھنابند مت کرو کیونکہ زندگی کبھی سکھانا بند نہیں کرتی‘‘

ہو سکتا ہے پہلی نظر میں بعض احباب کو ان باتوں کا کوئی تعلق اس کالم کے ابتدائی حصے سے مربوط نظر نہ آئے لیکن دوبارہ دیکھ لینے میں کیا حرج ہے!

The post دِید… باز دید appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33Yt6Yw
Share on Google Plus

About Unknown

This is a short description in the author block about the author. You edit it by entering text in the "Biographical Info" field in the user admin panel.
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment